ناصر کاظمی..... آسمانِ سُخن کا درخشاں ستارہ

December 08, 2019

1946ء میں اسلامیہ کالج کے کشادہ ہال میں حفیظ جالندھری ، اختر شیرانی، عابد علی عابد، عبد المجید سالک، محمد دین تاثیر، حفیظ ہوشیار پوری، جیسے بر صغیر پاک و ہند کے نامور شعرا کے کلام نے فضا اور دَر و دیوار کو معطر و مبہوت کررکھا تھا۔ ایسے میں سیاہ شیروانی میں ملبوس، گہرے سانولے رنگ، موٹی موٹی بڑی پُرکشش بے قرار آنکھوںوالا ایک جوان پہلی بار اپنی سخنوری کی داد لینے آیا تھا۔ نئے شاعر کیلئے سب نے بانہیں وا کرلیں اور پھر ناصر کاظمی نے اپنی غزل کا شعر پڑھا

ؔ ۜا ے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

یہ شعر سن کر مشاعرے میں بھونچا ل آگیا اور داد و تحسین کا طوفان امڈ آیا، بڑے بڑے شاعر انگشت بدنداں تھے اوریہ غزل سن کر تو عابد علی عابد پر باقاعدہ وجد طاری ہوگیا۔ زمانے نے اندازہ لگالیا تھا کہ ناصر کاظمی کو شعروادب کا لازمی حصہ بننے سے کوئی نہیںروک سکتا۔

ابتدائی حالات

سید ناصر رضا کاظمی نے 8دسمبر 1925ء کو انبالہ میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد محمد سلطان کاظمی رائل انڈین فورس میں صوبیدار میجر تھے۔ ان کے تبادلوںکی وجہ سے ناصرکا بچپن کئی شہروںمیں گزرا۔ ناصر کاظمی نے ابتدائی تعلیم نوشہرہ، پشاور اور انبالہ میں حاصل کی۔ قیام ِ پاکستان کےبعد ناصر کاظمی کا خاندان لاہو ر ہجرت کرگیا۔ لاہو ر کے اسلامیہ کالج سے ناصر کاظمی نے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔

بی اے کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہ اسلامیہ کالج کے ایک ہاسٹل میںرہتے تھے، جہاں ان کے استاد رفیق خاور ان سےملنے آتے اور شعرو سخن پر ان کے ساتھ محفل جماتے۔ تاہم نامساعد حالات کی وجہ سے ناصر اپنا گریجویشن مکمل نہ کرسکے۔ اس سے قبل وہ 1939ء میں صرف 16سال کی عمر میں ریڈیولاہور میں بطور اسکرپٹرائٹر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے اور آخر دم تک کسی نہ کسی صورت ریڈیو پاکستان سے منسلک رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مختلف ادبی جریدوں، ہمایوں، اوراقِ نو اور خیال کی ادارت کیلئے بھی اپنے فن کو پیش کرتے رہے۔

مجموعات کلام اور شاعری

ایک زمانے کو اپنے شعرو سخن سے اسیر بنانے والے ناصر کاظمی کی غزلوں کے مجموعے ’برگِ نے‘، ’دیوان‘ اور ’پہلی بارش‘ آج بھی اپنا اثر قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ ’برگِ نے‘ 1952ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی نظموں کا مجموعہ ’نشاطِ خواب‘ بھی ان کی عظمت کی گواہی دیتا ہے۔ ’سُر کی چھایا‘ ان کا منظوم ڈرامہ ہے۔

ناصر کاظمی نے میرتقی میرؔ کے اسلوب کو اپناتے ہوئے اسے سادہ و پُر کار رکھا، ان کی ندرت خیالی، قادر الکلامی اوراحساسات ان کے ہر شعر و نظم سے جھلکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناصر کاظمی اردو ادب کی تاریخ میں گوہرِیکتا اور نابغہ روزگار شاعر کا درجہ رکھتے ہیں۔ دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا، نئے کپڑے بدل کر جائوںکہاں، نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں، دل میںاک لہر سی اٹھی ہے ابھی، جیسی شاعری ان کے جذبے کی صداقت ، شدت ِ اظہار، سادگی اور سخن، ان کی عظمت کی آئینہ دار ہیں۔

ناصر کاظمی کی عظمت

ہندوستان کے ممتاز نقاد ڈاکٹر وہاب اشرفی نے اپنی کتاب ’اردو ادب کی تاریخ‘ میں ناصر کاظمی کے بارے میںلکھا ہے، ’’اسلوب کو اس حد تک شگفتہ بنانا کہ ذہن مکدر نہ ہو اور تصور آئینہ بن جائے۔ ان کا دوسرا امتیاز عشق و محبت کو نئی سمت دینے کا ہے یعنی روایت کے ساتھ جدت کا پہلو اور جدت کا یہ پہلو نادر تشبیہہ اور استعارے کی دین نہیں بلکہ عمومی سطح پر لفظوں کو برت کر ایک نیا طور پیدا کرنا ہے‘‘۔

ناصر کاظمی کی عظمت کو ماننے کیلئے یہ اہم نہیں ہے کہ ان کا کلام کتنے گلوکاروں نے گایا بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ناصر ؔ کلاسک اور جدت کے درمیان ایک پُل کی مانند ہیں۔ انھوں نے غالبؔ اور میرؔ کےفن کو آگے بڑھایا اور ترقی پسند شاعری ( جو ان دنوں عروج پر تھی ) سے بچ بچا کر اپنی شاعری کو ا س محفوظ مقام تک لے آئے کہ ان کا نام رہتی دنیا تک رہے گا بلکہ پہلے سے زیادہ چمکے گا۔

ناصر کاظمی کی شاعری ان کی انفرادیت کو سامنے لاتی ہے، ساد ہ پیرائے میں لکھی ان کی غزلیں پڑھتے ہوئے ہی ازبر ہو جاتی ہیں، گویا کہ ان کی خوشبو خودبخود پھیل کر چار سو مہک جاتی ہے اور ان کے خیال کی بازگشت دور دور تک سنائی دیتی ہے۔ بقول ممتاز مفتی وہ نہ صرف شاعر تھے بلکہ شاعر دِکھتے بھی تھے اور ہر وقت ان کے چہرے پر ایک گہری سوچ عیاں رہتی تھی۔ ان کے شعر کے مضامین عالم تحیر کی سیر کرواتے اور نئے لکھنے والو ںکیلئے راہنما بن جاتے ہیں۔

آسمانِ سخن پر چمکتا یہ درخشاں ستارہ اپنی ایسی چمک چھوڑ گیا ، جس کی روشنی سے لوگ آج بھی فیض پاتے ہیں۔ ناصر کاظمی 2مارچ 1972ء کواس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کا جسدِ خاکی لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں مدفون ہے ، ان کی لوحِ مزار پر ان کا ہی کہا ہوا شعر درج ہے:

ؔدائم آباد رہے گی دنیا

ہم نہ ہوں گے، کوئی ہم سا ہوگا