طلبہ میں سلگتا الائو

December 07, 2019

روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
پاکستان بھر میں پھیلی طلبہ کی یکجہتی مارچ نے جلسوں اور جلوسوں والا پرانا وقت یاد دلایا گو کہ آج وقت کافی مختلف ہے۔ طلبہ کا ایشوز کو دیکھنے کا انداز بھی بدل چکا ہے۔اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پینتس برس پہلے جب طلبہ یونیز اور طلبہ تنظیموں پر پابندی لگی تو گویا طلبہ کی ذہنی نشوونما روک دی گئی ہو۔ میڈیا اور حکمرانوں کی طرف سے والدین کو پیغام جانے شروع ہوگئے کہ اپنے بچوں کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھیں، دوسری طرف اساتذہ کی جانب سے ایسی نصیحتوں کی بھرمار ہوگئی کہ طلبہ گھروں سے پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔ انہیں کسی دیگر سرگرمیوں میں حصہ نہیںلینا چاہیے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تعلیمی اداروں میں مذہبی منافرت بے حد شدید ہونے لگ گئی اور طلبہ میںجاٹ، گجر،آرائیں، راجپوت یا پھر شیعہ، لبیک اور دیگر مذہبی سوچ و مزاج کی تنظیمیں بننا شروع ہوگئیں یا پھر شہروں اور قصبوں کے حوالے سے چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بننے لگیں۔ یوں طلبہ برادری کا رجعت پسندی کی جانب تیزی سے سفر بڑھنے لگا۔ البتہ کوئی بھی حکومت صوبہ پنجاب اور دیگر تعلیمی اداروں میں مذہبی تنظیموں بالخصوص اسلامی جمعیت طلبہ کو طلبہ میںاپنا کام کرنے سے نہ روک سکی یا روکنے کے لئے تیار نہیں ہوئی۔ یہ طلبہ تنظیمیں طلبہ پر اپنی دھونس اور دہشت برقرار رکھے ہوئے تھیں۔یکجہتی مارچ میں طویل عرصے کے بعد طلبہ نے اس رجعت پسندی اور زنگ آلود کو توڑا۔ سرخ انقلاب اور سوشلسٹ انقلاب کے نعروں سے اٹھے۔ جس سے یہ اندازہ ہوا کہ 35برسوں کے مسلسل جبر اور پابندیاں طلبہ کے روایت شکن جذبے اور سوچ کو ختم نہ کرسکیں۔ میں بھی ہمیشہ سے یہی سمجھتا رہا ہوں کہ طلبہ نوجوان خون ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سے اپنے مسائل اور مستقبل کےحوالے سے سوسائٹی کے دیگر حلقوں سے زیادہ حساس رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ اپنی منظم طاقت کی بہتر استعمال کرسکتے ہیں۔ طلبہ ہمیشہ سمجھتے رہے کہ انہیں گزشتہ 35برسوں کی منظم ہونے پر پابندیوں نے انہیں ان کے قانونی اور فطری حق تنظیم سازی اور آزادی اظہار رائے سے روکے رکھا ہے۔ انہیں مغرب اور برطانیہ کے تعلیمی اداروں اور طلبہ کی مثالیں دی جاتی ہیں جو کہ اپنے تئیں گمراہ کن درس ہے کیونکہ مغرب کے طلبہ اور پاکستان کے طلبہ کے مسائل میں زمین آسمان کا فرق ہے دونوں میں تعلیم پر خرچ کئے جانے والے بجٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ برطانیہ اور یورپ میںتعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے مستقبل میںسیاہ و سفید کا فرق ہے۔ برطانیہ اور یورپ میںطلبہ کے روشن خیال موضوعات پر بحث اور موقف بیان کراسکتے ہیں جبکہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کفر اور اسلام کے فتوے قائم رہتے ہیں۔ یورپ میںطلبہ کو تعلیمی اداروں کی بہتر عمارات، ٹرانسپورٹ، کمرہ جماعت، ریسرچ اور اساتذہ سب سے بڑھ کر اپنی زبان میںتعلیم دستیاب ہے۔ یہاں اپنے مسائل پر اظہار کے ایک طرف تو قانونی طریقے رائج ہیں اور اپنے مسائل کااظہار کرنے والوں پر دہشت گردی، ملک دشمنی اور غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے الزامات نہیں لگائے جاتے کیونکہ یہاں ریاستیں بھی سمجھتی ہیں کہ طلبہ کوئی سوسائٹی سے کٹی ہوئی علیحدہ مخلوق نہیں ہیں جو صرف نصابی تعلیم پر ہی توجہ دے لیکن نظام کی وجہ سے ان کے اپنے ساتھ ہونےو الے مستقبل کے سلوک پر نہ سوچے اور نہ زبان کھولے۔ پاکستان میں تو طلبہ کو اس آزادیٔ اظہار رائے پر قتل کردیا جاتا ہے اور قاتل بچ جاتے ہیں۔ بے گناہ طلبہ پر مقدمات بنتے ہیں اور ادارے انصاف دینے سے قاصر ہیں۔ طلبہ تعلیم کے بعد بے مقصد زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں ایک طرف تو روزگار کا تحفظ نہیں ملتا۔ دوسری طرف حاصل کی گئی تعلیم کا عملی زندگی سے کوئی ناتہ نہیں۔ مشال خان، نقیب اللہ محسود اور ماضی کی سیکڑوں مثالیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کتنے قاتل کیفرکردار کو پہنچے ؟۔ شاید کوئی بھی نہیں جہاں سوسائٹی میںانصاف نہ ہو، آزادی اظہار رائے نہ ہو،مستقبل غیر یقینی ہو۔ وہاں کوئی کہے کہ طلبہ کو ملکی مسائل پر رائے رکھنے اور اظہار کرنے سے روکا جائے تو حقیقت میںیہ رویہ ملک دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ ملک دشمنی کا جرم کون کررہا ہے طلبہ یا حکمران؟ آج طلبہ جن سرخ انقلابی تبدیلیوں کی بات کرر ہے ہیں۔ یہ فطری عمل ہے۔ دہائیوں سے موجود جبر پر ردعمل ہے۔ اسے جمہوری رنگ سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس غصے اور نوجوان انرجی کو عوامی رنگ دینے کی ضرورت ہے۔ اس طلبہ یکجہتی مارچ کو سرخ انقلابی پارٹی کو رنگ دینے والوں کو اس طلبہ کی قوت کو جمہوری طرز پر لاکے دیرپا اور موثر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حکومت اور ریاست کو طلبہ کے مطالبات اور مسائل کو سنجیدگی سے لے کر حل کرنے کی جانب اقدام کرنے چاہئیں۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ طلبہ نے دنیا میں کئی ممالک میں بڑی بڑی تبدیلیاں برپا کی ہیں۔ پاکستان کو ایسی روشن خیال قوت کی ضرورت ہے۔ اس گرمی اور توانائی کو مسائل میں گھری عوام کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اس سلگتے الاؤ کو بجھنے سے بچانا چاہیے۔