دِلبر ہوٹل: کشمیری روایات کا امین

December 15, 2019

وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد اور راول پنڈی میں روایتی کشمیری کھانوں کا مرکز ’’دلبر ہوٹل‘‘ کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس ہوٹل کی بنیاد قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد 1948ء میں مقبوضہ کشمیر سے پاکستان آنے والے کشمیریوں کے چائے خانے کے طور پر راول پنڈی کے ایک قدرے ویران و غیر آباد علاقے، ’’پرانا قلعہ‘‘ سے موسوم بازار میں رکھی گئی تھی، جہاں قدیم طرز کی عمارتیں، مندر، تنگ و تاریک گلیاں، چوبارے اور ایک بڑا سا قلعہ بھی موجود تھا، لیکن اب ان کے آثار ہی باقی ہیں۔

غیر منقسم ہندوستان میں اس مقام کا نام ’’لکشمی نراون چوک‘‘ تھا۔ برطانوی راج میں انگریزوں نے مذکورہ علاقے کی تزئین و آرائش بھی کروائی تھی اور اس کے بعض مقامات پر آج بھی سن 1857ء درج ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس قلعے کو آج سے 700برس قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ بعد ازاں، انگریزوں نے اسے ایک متموّل سردار کو فروخت کر دیا ، جس نے قلعے کے اطراف کو بھی آباد کیا۔ نیز، رقص و سرود کے لیے ایک گلی بھی مخصوص کی، جو آج ’’قصائی گلی‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔ اب یہاں کراکری کی ہول سیل مارکیٹ قائم ہے۔

قلعے کی ایک طرف لال حویلی (جو اب وزیرِ ریلوے، شیخ رشید کے حوالے سے معروف ہے) اور ایک تلوار گلی ہوا کرتی تھی، جہاں ہندو اپنی تلواروں اور سِکھ اپنی کرپانوں کی دھار تیز کروانے آتے تھے، جب کہ اب یہاں چُھرّیاں، چاقو اور حجامت کا سامان فروخت ہوتا ہے۔ تاہم، پُرانا قلعہ نامی بازاربالخصوص عروسی ملبوسات کی تیاری اور فروخت کے اعتبار سے جُڑواں شہروں کی خواتین کا پسندیدہ مقام ہے، جہاں عروسی ملبوسات پر زری، گوٹے، تِلے، سلمیٰ دبکے، موتی ستارے اور ریشم کا کام بھی کیا جاتا ہے، جب کہ مَردوں کے لیے شیروانیاں، کُلاہ، شلوار قمیص اور کُھسّے دست یاب ہیں۔

علاوہ ازیں، اسے ڈھولک، اُبٹن، منہدی کے تھالوں سمیت شادی بیاہ کے مطلوبہ سامان کا مرکز بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہاں عروسی ملبوسات پر کام کرنے والے ایسے ایسے کاری گر موجود ہیں کہ جو محض جدید طرز کے بیش قیمت ریڈی میڈ ملبوسات کی تصویریں دیکھ کر اصل سے اچھی نقل تیار کر لیتے ہیں۔ پوش علاقوں کے بازاروں میں لاکھوں روپے میں فروخت ہونے والے عروسی ملبوسات انہی کاری گروں کے فن کے رہینِ منّت ہیں، جو قلیل معاوضے پر تیار کیے جاتے ہیں۔

اس ساری چمک دمک ، بِھیڑ بھاڑ میں کشمیری کھانوں کے مرکز، ’’دلبر ہوٹل‘‘ کی رونق ماند پڑتی جا رہی ہے اور اس کے کھانوں کا ذائقہ و مہک، جن کا تذکرہ خوش خوراک حُکم رانوں سے لے کر سری نگر تک میں عام تھا، اب قصۂ پارینہ ہوتا جا رہا ہے۔ دلبر ہوٹل کا آغاز ایک کشمیری نوجوان، ملک محمد جمال نے کیا ، جس کا خاندان مقبوضہ جمّوں و کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان آیا، تو راول پنڈی کو مسکن بنایا۔ ملک جمال کے انتقال کے بعد ان کے صاحب زادے، ملک اسلم پرویز نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا اورآج بھی سخت نامساعد حالات کے باوجود وہ اپنے والد کی اس نشانی کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔

گزشتہ دنوں ہماری ہوٹل کے آغاز اور اس کے کھانوں کی مقبولیت کے حوالے سے ملک اسلم پرویز سے تفصیلی بات چیت ہوئی، تو انہوں نے بتایا کہ ’’قیامِ پاکستان سے قبل میرے والد، ملک محمد جمال خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں رہتے تھے اور انہوں دوسری جنگِ عظیم میں بھی حصّہ لیا تھا۔ 1948ء میں وہ اپنے گھرانے کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آئے، تو سَر چھپانے کے لیے تو راول پنڈی میں جگہ مل گئی، لیکن آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔

چوں کہ والد کو روایتی کشمیری کھانے پکانے کا بہت شوق تھا اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے ہاتھ میں ذائقہ بھی بہت دیا تھا، چناں چہ انہوں نے محدود وسائل سے راول پنڈی کے قدیم علاقے، پُرانا قلعہ میں ’’دلبر ہوٹل‘‘ کے نام سے ایک چائے خانہ کھول لیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کے ہاتھ کی بنی چائے ہر خاص و عام میں مقبول ہوگئی ۔

چائے خانے میں آنے والا کوئی بھی فرد چائے کی دو سے تین پیالیاں نوش کیے بغیر نہ اُٹھتا، چاہے اُسے اُدھار ہی کیوں نہ کرنا پڑتا۔ چائے کی مقبولیت کے حوالے سے مَیں ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ جب فیلڈ مارشل ایّوب خان نے مُلک میں مارشل لا نافذ کیا، تو فوجی افسران ہوٹلوں پر بھی چھاپے مارتے تھے اور حفظانِ صحت اور اشیائے خور و نوش کے معیار کا جائزہ لینے کے ساتھ دیگر متعلقہ اُمور کے بارے میں سوالات بھی کرتے تھے۔ تب ہمارے ہوٹل میں ہمہ وقت چائے پینے والوں کا ہجوم لگا رہتا تھا ۔ روزانہ ڈیڑھ سے دو من دودھ کی چائے فروخت ہوتی تھی، جس کے لیے ہم نے بھینسیں پال رکھی تھیں۔

ایک دن ایک میجر صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ ہوٹل آئے اور کہا کہ ’’ہمیں شکایت ملی ہے کہ یہاں چائے میں پوست کا ڈوڈا یا اس طرح کی کوئی اور شے ملائی جاتی ہے۔ اس سے چائے کی لذّت میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگ اس کے عادی ہو جاتے ہیں، جب کہ یہ آمیزش صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔‘‘ اُس وقت ہوٹل میں مولا بخش صاحب (جو غالباً ریٹائرڈ فوجی افسر تھے) بھی موجود تھے۔ انہوں نے میجر صاحب کو اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ ’’مَیں آرمی سلیکشن بورڈ کا رُکن ہوں۔

اگر مَیں روزانہ اس ہوٹل کی دو سے تین مرتبہ چائے نہ پیوں، تو طبیعت ہی رواں نہیں ہوتی۔ البتہ چائے میں مسکن اشیا کی آمیزش کی اطلاع غلط ہے۔‘‘ اس پر میجر صاحب نے کہا کہ ‘‘آپ کی بات دُرست ہو گی، لیکن ہمیں اوپر سے حُکم ملا ہے۔‘‘ چناں چہ والد صاحب نے گھر سے ایک بھینس منگوائی۔ میجر صاحب کی ٹیم کے سامنے اُس کا دودھ نکال کر اُس کی چائے بنائی گئی، جو انہوں نے بھی نوش فرمائی اور پھر زحمت پر معذرت کر کے روانہ ہو گئے۔ ‘‘

چائے خانے کی روایتی کشمیری کھانوں کے مرکز میں تبدیلی سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ ’’ابتدا میں ہمارے چائے خانے میں زیادہ تر کشمیری مہاجرین آتے تھے، لیکن بتدریج مقامی باشندے اور غیر کشمیری افراد بھی مستقل گاہکوں میں شامل ہوتے گئے۔ پھر کشمیری مہاجرین کی تعداد میں مسلسل اضافے سے بھی ہمارے گاہکوں کی تعداد بڑھنے لگی، کیوں کہ یہاں انہیں چائے کے ساتھ کشمیری ماحول بھی مل جاتا۔

چوں کہ میرے والد روایتی کشمیری پکوان بنانے میں غیر معمولی مہارت رکھتے تھے اور ایک ’’داخا‘‘ (کشمیری زبان میں شیف یا باورچی کے لیے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے) بھی اُن کا دوست تھا، چناں چہ دوستوں نے اُنہیں مشورہ دیا کہ کشمیری مہاجرین سَر چُھپانے کی جگہ تو تلاش کر لیتے ہیں، لیکن دیسی کھانوں کے عادی اور مقامی کھانوں سے نامانوس ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں، لہٰذا اگر ہوٹل کو چائے خانے کے ساتھ کشمیری کھانوں کا مرکز بھی بنا دیا جائے، تو اس سے نہ صرف کاروبار میں اضافہ ہو گا، بلکہ مہاجرین کی دُعائیں بھی ملیں گی۔

نتیجتاً، راول پنڈی میں پہلی مرتبہ ہمارے ہوٹل میں روایتی کشمیری کھانے تیار کرنے کا آغاز ہوا اور پھر چند ہفتوں ہی میں دلبر ہوٹل کے کشمیری کھانوں کا شُہرہ ہو گیا۔ ہمارا ہوٹل اس قدر مقبول ہوا کہ سری نگر یا وادی سے نقل مکانی کر کے آنے والے افراد سب سے پہلے یہاں آتے اور راول پنڈی میں مقیم اپنے رشتے داروں، دوستوں کی رہائش کا پتا معلوم کرتے۔ پھر مقبوضہ کشمیر سے ڈاک بھی ہمارے ہوٹل کے پتے پر آنا شروع ہو گئی۔ چوں کہ ہجرت کر کے راول پنڈی آنے والوں کی بسا اوقات کوئی مستقل رہائش نہیں ہوتی تھی، لہٰذا وہ سب کو یہ پیغام بھیج دیا کرتے کہ ان کے خطوط پر دلبر ہوٹل کا پتا لکھ دیا کریں۔

بانی، ملک محمد جمال

یوں ڈاک کی وصولی یا اس سے متعلق دریافت کرنے کے حوالے سے بھی ہوٹل کشمیری مہاجرین کی آماج گاہ بن گیا۔‘‘ ملک اسلم پرویز نے مزید بتایا کہ ’’جب ہوٹل سری نگر، وادی اور کشمیری مہاجرین میں یکساں مقبول ہو گیا، تو مقبوضہ کشمیر کے بعض اخبارات و جرائد نے اس کے لذیذ کشمیری کھانوں کے ساتھ معنی خیز انداز میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ یہاں سری نگر سے جانے والے حُریّت پسند بھی کھانا کھاتے ہیں۔ دوسری جانب ہمارے خفیہ اداروں تک بھی یہ اطلاعات پہنچیں کہ کشمیری مہاجرین کے رُوپ میں بھارتی انٹیلی جینس ایجینسی کے کارندے بھی ہوٹل میں آتے ہیں اور کھانا کھانے کے بہانے وہاں ہونے والی گفتگو سُننے کے ساتھ لوگوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔

سو، پاکستانی خفیہ اہل کار ہوٹل پر نظر رکھنے لگے۔ گرچہ اس سارے عرصے میں کبھی کوئی غیر معمولی واقعہ تو رُونما نہیں ہوا، البتہ ایک مرتبہ سری نگر سے آئے ایک کشمیری کو تفتیش کی غرض سے حراست میں لیا گیا ، جس کے بارے میں بعد میں کچھ پتا نہ چل سکا۔‘‘ ملک اسلم پرویز نے سری نگر سے شائع ہونے والے بعض اخبارات و جرائد کے وہ بوسیدہ تراشے بھی دکھائے کہ جو انہوں نے سُنہری یادوں کی طرح سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔

ملک اسلم پرویز

یہ تراشے اُن تفصیلی مضامین پر مبنی ہیں، جن میں دلبر ہوٹل کے کشمیری کھانوں، یہاں آنے والی اہم شخصیات اور اُن کی پسندیدہ ڈشز کے علاوہ ہوٹل میں وادی کے باشندوں کی آمدورفت کا ذکر ہے۔ گرچہ ان اخبارات و جرائد میں پاکستان میں کشمیری کھانوں کا مرکز دلبر ہوٹل ہی کو قرار دیا گیا ہے، تاہم بعض جگہ اشارتاًیہ بھی لکھا گیا ہے کہ دلبر ہوٹل مقبوضہ کشمیر میں جہاد کرنے والوں اور پاکستانی انٹیلی جینس ایجینسیز کے درمیان ملاقاتوں کا ’’خفیہ مرکز‘‘ بھی ہے۔

ہوٹل کے کھانوں سے لُطف اُٹھانے والی اہم شخصیات کے بارے میں بتاتے ہوئے اسلم پرویز کا کہنا تھا کہ’’ آزاد کشمیر کے کم وبیش تمام صدور، وزرائے اعظم اور دیگر اہم حکومتی شخصیات کے علاوہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے متعدد رہنما بھی ہمارے ہوٹل کا کھانا کھا چُکے ہیں۔ ان میں سردار ابراہیم، سردار عبدالقیّوم خان، سردار عبدالحمید خان، راجہ محمد فاروق حیدر، راجہ ممتاز راٹھور، سکندر حیات، بیرسٹر سلطان محمود کے والد ٹھیکیدار نور حسین، کے ایچ خورشید اور اسپیکر منظر مسعود شامل ہیں۔ البتہ مَیں سابق وزیرِ اعظم، ذوالفقار علی بُھٹّو کی اپنی ہوٹل آمد کا واقعہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ اُس وقت مَیں طالب علم تھا۔

ہوٹل کے مالک، ملک اسلم پرویز نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ ہمیں بتایا گیا کہ آج کوئی اہم شخصیت ہوٹل میں کھانا کھانے آ رہی ہے، لہٰذا خصوصی اہتمام و انتظام کیا جائے۔ پھر سرِ شام ہی سفید کپڑوں میں ملبوس سیکوریٹی اہل کار ہوٹل کے چاروں اطراف پھیل گئے اور بعض مقامات کی تلاشی بھی لی گئی۔ والد صاحب کو بھی ’’مہمان ‘‘کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔ لہٰذا، لوگوں میں تجسّس اور قدرے اضطراب بھی تھا۔ کچھ دیر بعد ہوٹل میں عام افراد کی آمدورفت اور داخلہ بند کر دیا گیا۔ پھر چند افراد پر مشتمل دو ٹیمیں اندر داخل ہوئیں۔

ایک ٹیم نے کچن میں جا کر وہ سارا کھانا چیک کیا، جو مہمانوں کو پیش کیا جانا تھا، جب کہ دوسری ٹیم نے ہوٹل کے بالائی حصّے اور اطراف کے مقامات کا جائزہ لیا کہ جہاں بیٹھ کر مہمانوں نے کھانا تناول کرنا تھا۔ رات تقریباً دس بجے بُھٹّو صاحب اور اُن کے رفقا، غلام مصطفیٰ کھر، امداد بُھٹّو، غلام مصطفیٰ جتوئی، عبدالحفیظ پیرزادہ اور ممتاز بُھٹّو ہوٹل پہنچے اور ان سب کو حفاظتی حصار میں ہوٹل کے بالائی حصّے میں پہنچایا گیا۔ وزیرِاعظم سمیت تمام مہمانوں نے کشمیری کھانے سَیر ہو کر کھائے۔ روانگی کے وقت بُھٹّونے والد صاحب سے نہ صرف مصافحہ کیا، بلکہ ہوٹل کی خصوصی ڈِش، گشتابے کی بے حد تعریف بھی کی۔

یہاں مَیں ایک حالیہ واقعے کا ذکر بھی کر دوں۔ گزشتہ دنوں سابق صدر، آصف علی زرداری جب قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے پروڈکشن آرڈر پر پارلیمنٹ ہائوس آئے، تو انہوں نے بھی بطور خاص کشمیری کھانوں کی فرمائش کی اور جیو نیوز کے مشہور اینکر اور سینئر صحافی، حامد میر صاحب نے فون کر کے مُجھے زرداری صاحب کی اس خواہش سے آگاہ کیا ۔ چناں چہ مَیں نے اپنی نگرانی میں سارے کھانے بنوائے اور سابق صدر نے اُن کی بے حد تعریف کی۔‘‘

مقبوضہ کشمیر کے اخبارات میں ہوٹل سے متعلق شائع شدہ مضامین کے تراشے

سابق وزیرِاعظم، میاں محمد نواز شریف ،جو خود بھی کشمیری ہیں اور کھانے کا ذوق و شوق بھی رکھتے ہیں، خواہش کے باوجود دلبر ہوٹل نہیں آسکے۔ اُن کے بارے میں ملک اسلم پرویز نے بتایا کہ ’’ایک مرتبہ میاں نواز شریف نے اپنی شریکِ حیات محترمہ کلثوم نواز کے ساتھ رات کا کھانا ہمارے ہوٹل میں کھانے کا پروگرام بنایا۔ میاں صاحب اور بیگم صاحبہ ابھی لاہور سے راول پنڈی کی جانب آ ہی رہے تھے کہ اُن کے ہمارے ہوٹل آنے کی خبر لِیک ہو گئی۔

چوں کہ راجہ بازار اور پُرانا قلعہ جیسے علاقے گنجان آباد اور شہر کے وسط میں واقع ہیں اور سیکوریٹی کا مطلوبہ انتظام بھی نہیں ہے، لہٰذا اس بات کی اطلاع ملتے ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آگئے ۔ انہوں نے لیاقت باغ کے قریب پہنچنے پر سیکوریٹی رِسک قرار دیتے ہوئے گاڑیوں کا رُخ اسلام آباد کی جانب موڑ دیا اور پھر تمام کھانا وزیرِاعظم ہائوس پہنچا یا گیا۔ البتہ بیگم کلثوم نواز (اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے) سینیٹر بیگم نجمہ حمید کے ساتھ، جو مریم اورنگ زیب کی خالہ ہیں، تین مرتبہ ہمارے ہوٹل کھانا کھانے آئیں، جب کہ میاں شہباز شریف بھی یہاں آکے کھانا کھا چُکے ہیں۔‘‘ اسلم پرویز نے مزید بتایا کہ ’’میاں نواز شریف کی پسندیدہ ڈِشز میں گشتابہ، ہریسا اور پالک گوشت شامل ہیں۔

ہوٹل میں دست یاب کھانوں کی فہرست

ہر چند کہ ہریسا لاہور میں بھی دست یاب ہے، لیکن وہ امرت سَر کے ہریسے کی طرز پر بنایا جاتا ہے، جب کہ میاں صاحب کو کشمیری ہریسا پسند ہے، جو قطعی مختلف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب، اُن کے اہلِ خانہ اور دوستوں کے لیے ہم ہریسا تیار کر کے لاہور بھیجتے تھے اور کئی مرتبہ ہم نے 25,25کلو ہریسا تیار کر کے لاہور بھیجا۔ آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے کہ مَیں نے لندن جا کر میاں صاحب اور اُن کے احباب کے لیے اُن کے پسندیدہ کھانے بنائے ۔ ایک مرتبہ پارک لین والے فلیٹ میں دعوت کا اہتمام تھا۔ اس موقعے پر کشمیری کھانوں کی تعریف کے ساتھ میری بھی خوب ستائش ہو رہی تھی۔

پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے میاں صاحب نے اپنے ہاتھوں سے میری پلیٹ میں پالک گوشت کی ایک بڑی سی بوٹی ڈال دی۔ میں نے کہا، ’’سر! مَیں گوشت سے پرہیز کرتا ہوں، کیوں کہ مجھے یورک ایسڈ کی تکلیف ہے۔‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’مجھے تو بڑے عرصے سے یہ عارضہ لاحق ہے، مگر مَیں سب کچھ کھانے کے بعد اوپر سے ٹیبلٹ لے لیتا ہوں۔‘‘ پھر انہوں نے نہ صرف مجھے اُس دوا کا نام بتایا، بلکہ اس کی بڑی مقدار بھی دے دی۔ تاہم، یہ ماضی کی باتیں ہیں ، اب تو میاں صاحب 90فی صد پرہیزی کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ اس موقعے پر ملک اسلم پرویز نے یہ بھی بتایا کہ راول پنڈی کی اڈیالہ جیل میں بھی بعض اہم اسیر رہنمائوں کی فرمائش پر وہ انہیں کشمیری کھانے فراہم کرتے رہے ہیں۔ تاہم، انہوں نے ان اسیر سیاسی رہنماؤں کے نام بتانے سے گریز کیا۔

اشرافیہ کی پسندیدہ ڈِش، گشتابہ

لذیذ ترین کشمیری کھانوں کی فہرست یوں تو خاصی طویل ہے، لیکن ان میں ’’گشتابہ‘‘ کو منفرد حیثیت حاصل ہے ۔ اسے ’’کشمیری اشرافیہ کی پسندیدہ ڈش‘‘ بھی کہا جاتا ہے، بشرطیکہ اسے خالصتاً کشمیری انداز میں اور مطلوبہ تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کیا جائے۔ اس بارے میں ملک اسلم پرویز کا کہنا تھا کہ ’’عام کشمیریوں میں گشتابہ کھانے کا ذوق نہیں اور نہ ہی اس کے پکانے کا سلیقہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی حقیقی لذّت اور اسے بنانے کے رموز سے بھی خاص طبقات ہی واقف ہیں۔

اس کی تیاری کے لیے سب سے پہلے صحت مند بکرے کی رانوں کا گوشت ہڈیاں نکال کر بون لیس کیا جاتا ہے۔ پھر اس گوشت کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں بنا کر انہیں پتّھر کی سِل پر لکڑی کے مخصوص ہتھوڑے سے اُس وقت تک پیسا جاتا ہے ، جب تک کہ اُن کی شکل پِسے ہوئے آٹے کی مانند نہ ہو جائے۔ پھر انواع و اقسام کے مسالے ملا کر انہیں مِیٹ بال کی شکل دی جاتی ہے۔ یہ ڈِش خالص مکھن اور دہی کے رچائو سے تیار ہوتی ہے۔ بعض افراد گوشت کو چوپر میں ڈال کر بھی باریک کر لیتے ہیں، لیکن یہ گشتابے کی تیاری کا روایتی طریقہ نہیں۔

اس سے ذائقے میں کمی واقع ہوتی ہے۔ چوں کہ گشتابہ تاثیر کے اعتبار سے انتہائی گرم ہوتا ہے، چناں چہ ہم یہ ڈِش گرمیوں میں نہیں بناتے، جب کہ سردیوں میں بھی ہفتے میں دو دن صرف اُن افراد کے لیے تیار کرتے ہیں کہ جو پہلے سے آرڈر بُک کرواتے ہیں۔‘‘ اسلم پرویز نے اپنے ہوٹل کا گشتابہ کھانے والوں میں میاں نواز شریف اور شیخ رشید کو سرِفہرست رکھا اور اس حوالے سے ماضی کا یہ واقعہ بھی سُنایا کہ ’’لیاقت باغ میں متّحدہ اپوزیشن کا جلسہ ہوا، تو شیخ رشید نے تمام جماعتوں کے مرکزی قائدین کو لال حویلی میں کشمیری کھانوں کی دعوت دی۔

ہم نے اس دعوت کی کئی روز پہلے سے تیاری شروع کر رکھی تھی۔ اس موقعے پر بڑی مقدار میں تیار کیا گیا کھانا بھی کم پڑ گیا۔ تاہم، حیران کُن بات یہ تھی کہ ایم کیو ایم (لندن) کے قائد، الطاف حسین گشتابے پر ٹوٹ پڑے۔ یاد رہے کہ ایک گشتابے کا وزن تقریباً 200گرام ہوتا ہے اور الطاف حسین نے پانچ گشتابے نوش فرمائے، حالاں کہ ایک نارمل آدمی ایک سے دو گشتابے ہی کھا سکتا ہے۔ اسی طرح شیخ رشید اور میاں نواز شریف بھی سیر ہو کر گشتابہ کھایا کرتے تھے، جب کہ ہمارے ہوٹل کی دیگر خاص ڈِشز میں کشمیری ہریسا، پالک گوشت، چکن قورما اور دہی چکن کی شب دیگ شامل ہیں۔

’’ دلبر ہوٹل‘‘ بند ہونے والا ہے…؟

کیا سات دہائی قبل قائم ہونے والا کشمیریوں اور کشمیری کھانوں کی پہچان کا حوالہ دلبر ہوٹل اب بند ہونے والا ہے؟ بادی النّظر میں تو ایسا ہی لگتا ہے، کیوں کہ اب یہاں پہلے کی طرح گاہکوں کی چہل پہل دکھائی نہیں دیتی۔ معروف شخصیات تو دُور کی بات، عام گاہگوں کی آمد و رفت بھی مفقود ہے۔ ہوٹل کا بالائی حصّہ، جو کبھی اہم مہمانوں کی میزبانی کے لیے مخصوص تھا، اب اس قدر خستہ حال ہے کہ وہاں عام گاہک بھی نہیں جا سکتے۔

کچن میں کھانا تیار کیا جا رہا ہے

دن بھر میں جو کھانا تیار ہوتا ہے، وہ 15سے 20افراد کے لیے کافی ہوتا ہے اور ان کے لیے ہوٹل میں صرف ایک ویٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، اگر کوئی اسپیشل آرڈر آ جائے، تو خصوصی کھانے تیار کیے جاتے ہیں۔ ہوٹل میں ملک اسلم سے گفتگو کے دوران، جو کم و بیش دو گھنٹے کے دورانیے پر محیط تھی، کشمیری کھانے کا کوئی خواہش مند اندر نہیں آیا۔ البتہ ان کے دوستوں کی آمد و رفت جاری رہی، جو اس خیال کو تقویّت پہنچا رہی تھی کہ ہوٹل اب محض ان کے ’’نجی ڈیرے‘‘ کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے، جہاں وہ دوستوں سے گپ شپ لگانے آتے ہیں۔

ہم نے خدشے پر مبنی اس امکان کا ذکر جب ملک صاحب سے کیا، تو انہوں نے خاصی حد تک اس کی تصدیق کی اور وجوہ سے تفصیلاً آگاہ بھی کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’میرے ایک بیٹے نے لندن اور دوسرے نے امریکا میں شادی کی ہے۔ گرچہ دونوں ہی تابع فرماں ہیں، لیکن اُنہیں وہاں کی آسودہ زندگی پسند ہے۔ یہاں اب میرا ایک ہی بیٹا ہے اور اس کی بھی ضد ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی جائے گا۔

مَیں نے اُسے بہت سی ترغیبات دیں کہ وہ پڑھائی کے ساتھ اس ہوٹل کو آباد رکھنے میں بھی دِل چسپی لے۔ گرچہ وہ میری بات سُن لیتا ہے، لیکن دل سے آمادہ نہیں۔ اب مَیں تنہا ہوٹل پر اپنی ساری توانائیاں صَرف نہیں کر سکتا۔ پھر اب یہ علاقہ شہر کا گنجان ترین کاروباری علاقہ بن چُکا ہے ۔ یہاں سے پیدل گزرنے کا راستہ بھی مشکل ہی سے ملتا ہے، جب کہ ہمارے ہوٹل وہ لوگ آتے تھے کہ جن کا مقصد صرف پیٹ بھرنا نہیں ، بلکہ کھانے سے لُطف اندوز ہونا ہوتا تھا۔

کشمیری ہریسا

یہ افراد ٹریفک کے اس ازدحام میں پھنس کر اپنا وقت ضائع نہیں کرتے، کیوں کہ بالخصوص اسلام آباد سے راول پنڈی اور پھر وہاں سے اس گنجان علاقے میں پہنچنے کے لیے انہیں کم از کم دو گھنٹے درکار ہوتے ہیں، جب کہ محض مقامی افراد سے، جو مہینے میں ایک یا دو بار کشمیری کھانوں کی ’’عیّاشی‘‘ کرتے ہیں، ہوٹل کے اخراجات پورے نہیں ہو سکتے، حالاں کہ ہم نے اپنے کھانوں کے نِرخ مقامی افراد کی مالی حالت کے مطابق مقرّر کر رکھے ہیں۔‘‘ اسلم پرویز کا مزید کہنا تھا کہ ’’اگر ہم یہی کھانے اسلام آباد کے کسی پوش علاقے میں واقع اعلیٰ ہوٹل میں پیش کریں، تو ہماری 300روپے والی ڈِش 2,000 روپے سے کم کی نہ ہو اور پھر اسلام آباد کی سفارتی کمیونٹی سے لے کر اعلیٰ ترین شخصیات تک اسے ذوق و شوق سے کھائیں، لیکن ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ اسلام آباد میں ہوٹل کھول سکیں۔

مَیں نے ایک مرتبہ سی ڈی اے حُکّام سے درخواست کی تھی کہ وہ ہمیں لیز پر جگہ دے دیں، لیکن سفارش نہ ہونے کی وجہ سے کام یابی نہیں ملی۔ میرے والد نے کشمیر سے اپنی وابستگی اور اس کی ثقافت زندہ رکھنے کے لیے یہ ہوٹل کھولا تھا ۔ انہوں نے اس کی آمدن سے جائیدادیں نہیں بنائیں۔ گرچہ مَیں آج بھی اپنے والد کی تقلید کر رہا ہوں، لیکن شاید یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک برقرار نہ رہ سکے۔

پالک گوشت

البتہ جب تک مَیں یہ بوجھ اٹھا سکتا ہوں، ضرور اٹھائوں گا۔ پھر انتہائی اہم بات یہ ہے کہ اس ہوٹل سے میرے والدِ مرحوم، تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے ہیروز، ذُوالفقار علی بُھٹّو، میاں نواز شریف، بیگم کلثوم نواز اور کے ایچ خورشید سمیت دیگر بے شمار شخصیات کی یادیں وابستہ ہیں۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ میری اور میرے خاندان کی شناخت ہی دلبر ہوٹل ہے ،تو اپنی پہچان سے کون محروم ہونا چاہتا ہے۔ لیکن جلد یا بدیر ایسا ہونا ہے اور مَیں خود کو اس کے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہا ہوں۔‘‘ یہ کہنے کے بعد انہوں نے جیب سے سیل فون نکالا اور اس کی جانب متوجّہ ہو گئے۔ شاید وہ اپنی بھیگی آواز میں اس موضوع پر مزید گفتگو نہیں کرنا چاہتے تھے کہ کہیں دلی جذبات و احساست چہرے سے نہ جھلکنے لگیں۔