ووٹ…ایک مختلف اپروچ

December 11, 2019

خیال تازہ … شہزادعلی
ووٹ مختلف اپروچ کی ضرورت کل بروز جمعرات 12 دسمبر برطانیہ کے عام انتخابات ہو رہے ہیں جس میں چھیالیس ملین کے قریب ووٹرز نے 650 ایم پیز منتخب کرنا ہیں ۔ تازہ ترین پول میں بورس جانسن کی لیڈ سکڑتی جارہی ہے جس کی وجہ جیرمی کوربن کی مقبولیت میں مزید ایک پوائنٹ کا اضافہ ہے۔ آئی سی ایم / رائیٹرز سروے نے یہ ظاہر کیا ہے کہ اس وقت لیبر کا گراف 36 پر پہنچ گیا ہے جبکہ ٹوریز 42 پرہے۔ خیال رہے کہ یہ الیکشن بریگزٹ مسئلہ کے تناظر میں قبل ازوقت منعقد ہو رہے ہیں۔ یورپ سے نکلنے کے لیے کون سی پارٹی بہتر سوجھ بوجھ رکھتی ہے ۔ یا اس پارٹی کو ووٹ دیا جائے جو یورپ میں رہنے کے لیے پھر ریفرنڈم کا وعدہ کر رہی ہےاور ملک کو جو دیگر مسائل درپیش ہیں ان پر بھی کافی بحث مباحثے ہوئے ہیں میڈیا نے مختلف جماعتوں کے منشور اور وژن کو تفصیل سے رائے دہندگان کے سامنے پیش کیا ہے ۔ تاہم یہ سوال ابھی تک شدت سے زیرگردش ہے کہ اگر اس قبل ازوقت الیکشن کے باوجود کسی پارٹی کو واضح اکثریت نے ملی تو پھر کیا بریگزٹ پر تعطل قائم رہے گا؟ اور کسی پارٹی کو واضح اکثریت بالفرض نہیں مل پاتی اور مختلف نظریات کی حامل جماعتیں مل کر اگر ہنگ پارلیمنٹ کا ڈول ڈالتی ہیں تو پھر بریگزٹ پر ان کا کس نقطہ پر اتحاد ہوگا ؟ اسی باعث یہ مشکل ترین سوال قومی سطح پر آخر تک زیر بحث ہے کہ ووٹ آخرکس کو آخر دیا جائے؟ جبکہ بعض اقلیتی برادریوں اور مختلف مذاہب سے متعلق رنگ دار افراد میں بعض لوگ اپنے اپنے پس منظر کے حوالے قومی جماعتوں کی اپروچ کو سامنے رکھ کر ووٹ کے حوالے مخصوص ذہن سازی میں مصروف ہیں۔ اور مختلف کارڈز کھیلنے کی کوشش جاری ہے ۔ جیسا کہ برطانوی بھارتی نژاد کمیونٹی سے متعلق یہ باور کیا جا رہا ہے کہ یہ لیبر کی کشمیر دوست اور دیگر جماعتوں کی نسبت زیادہ مسلم فرینڈلی پالیسی پر نالاں ہے اور اس باعث بحثیت بھارتی کمیونٹی وہ کنزرویٹیو کی حمایت کر رہی ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں آباد یہودی النسل کمیونٹی کے حوالے بادی النظر یا عمومی طور پر یہ امپریشن ابھرا ہے کہ وہ بھی فلسطین دوست یا مسلم فرینڈلی پالیسی کے باعث لیبر لیڈر سے نالاں ہیں۔ حالاں کہ اگر غیر جانبدار نظر سے جیرمی کوربن کی شخصیت کا مطالعہ کیا جائے۔ بین الاقوامی امور پر ان کی اپروچ کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے ۔ اور پھر جس طرح لیبر پارٹی کا سٹرکچر قائم ہے ۔ بلا رنگ ونسل مذہب ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ ہاں اصل مسئلہ اصل یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل اب چونکہ جارح ممالک ہیں ۔ بھارت نے صرف کشمیر پر ہی غاصبانہ قبضہ نہیں جما رکھا۔ حالیہ عرصہ میں کشمیر کی مخصوص حیثیت بھی ختم کر دی ہے ۔ اور پوری وادی مقبوضہ کشمیر محصور بنادگئی ہے ۔ پھر بھارت جے اندر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا جینا دو بھر کر دیا گیا ہے۔ بھارت کے پالیسی سازوں کو بخوبی ادراک ہے کہ برطانیہ جو ایک سپر پاور ہے اس کا وزیراعظم بالفرض جیرمی کوربن، بن جائے جو دنیا بھر میں ظلم و جبر کے خلاف سخت نظریات رکھتا ہے جو ایک انقلابی لیڈر کے طور پر ابھرا ہے تو شاید بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور استصالی سوچ پر کوئی عالمی آواز سامنے نہ آجائے۔ اسی طرح جو قوتیں فلسطین اور اسرائیل کے تنازع میں جیرمی کے خیالات کو اپنے توسیع پسندانہ نظریات سے متصادم سمجھتے ہیں وہ بھی اس کی جیت میں روڑے اٹکاتے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر عالمی سپریم پاور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں یا کئی انتہائی دائیں بازو کی حامل قوتیں ہیں جو پورے مغرب میں سفید فام برتری کی مخصوص آئیڈیالوجیز کے سامنے جیریمی کو ایک رکاوٹ سمجھتی ہیں ۔ ایسے خیالات کا تو حل کوئی نہیں ۔ ورنہ ہم سمجھتے ہیں کہ جیرمی کی اپروچ متوازن ہے اور کنزرویٹو پارٹی کو بھی اپنی اپروچ کو عالمی حوالوں سے اور برطانیہ کے اندر مختلف رنگ دار نسل کے لوگوں بالخصوص پاکستانی کشمیری اور مسلم برادری کے حوالے زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح لبرل ڈیمو کریٹ کی نئی لیڈر سے بھی یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ بھی اپنی پارٹی پر سے ایک مخصوص چھاپ دور کرنے کی بھرپور سعی کریں گی اسی تناظر میں ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی کشمیری کمیونٹی کو بطور برٹش اس سوسائٹی کا پارٹ اینڈ پارسل بننا ہے اور تمام قومی جماعتوں میں بھرپور کردار ادا کیا جائے تاکہ ان کی پالیسیاں اپنے حق میں ہموار کی جاسکیں ۔ ووٹ کس کو دیا جائے؟ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ آج کے متنوع برطانیہ کے اندر رنگ دار نسل سے متعلق افراد کو چاہے وہ پاکستانی کشمیری ہیں بھارتی یا یہودی پس منظر رکھتے ہیں ہندو ہیں یا مسلمان ووٹ اپنی برادری مذہب نسل کی بنا پر نہیں بلکہ جہاں بھی آپ رہ رہے ہیں وہاں کے مقامی حالات کو بھی مدنظر رکھنا ہے ، آپ نے قومی صورت حال کو بھی دیکھنا ہے کوئی ایسا تاثر نہ ابھرے کہ آپ مین سٹریم سے الگ تھلے تصور ہوں آج یہ سوچ ابھارنے کی ضرورت ہے کہ ووٹ کا تعلق کسی رنگ نسل مذہب سے نہیں آپ سب برطانوی شہری کے طور پر سوچیں اور پارٹی امیدواروں یا آزاد کو بھی بعض صورتوں میں صرف اہلیت اور مسائل پر ان کی کمٹمنٹ کو سامنے رکھا جائے اور برطانیہ کے اندر تو کم ازکم مذہبی ، نسلی ہم آہنگی کو برقرار رکھا جائے اور بہتر یہی ہے کہ ایتھنک مینار ٹیز اپنے اپنے آبائی ملکوں کے معاملات کو یہاں پر گھسیٹنے کے بجائے برطانیہ کے اندر بطور ایک اقلیت کے طور پر درپیش چیلنجز کو سامنے رکھیں اور پھر اپنا کوئی ذہن بنائیں لیکن کسی بھی صورت میں ووٹ کو خدا را مذہب اور رنگ نسل سے نہ جوڑا جائے۔ بہتر اپروچ یہی ہوسکتی ہے کہ ہر جماعت کے منشور کو سٹڈی کیا جائے۔ ان کی صرف ہائی لیول لیڈرشپ ہی نہیں مقامی سطح کی قیادت کی بھی مسائل پر اپروچ کا جائزہ لیا جائے ۔ پارٹیوں کی بین الاقوامی امور پر پالیسیوں ، برطانیہ کے دیگر دنیا سے تعلقات کار،فارن افئیرز پر ہر جماعت کا ویو، امیگریشن پالیسیز،بریگزٹ ، مقامی سطح پر درپیش مسائل ، بینیفٹس، قومی محمکہ صحت، پولیس، تعلیم ان امور پر ترجیحات کو پرکھا جائے ۔ پھر ہائوسنگ ، روزگار، ٹیکس کے مسائل ہیں ۔ بچوں کی یونیورسٹی کی فیسوں کے ایشوز ہیں، ماحولیات اور کونسلوں کی حکومت کی کٹوتیوں کے معاملات بھی اہم ہیں ۔ لیبر کے ادوار جو تھے مختلف امور پر اس کی پالیسیاں کیا تھیں ؟اور اس عرصہ میں ٹوریز کی کیا رہی ہیں ؟، لب ڈیم بھی مخلوط حکومت کا تجربہ کر چکی ہے اس نے کیا بہتر کام کیے ؟ اور کون سے وعدے ایفا نہیں کر پائی تھی اور کیوں ؟اب پھر اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو اسکے فوائد اور نقصانات کیا ہوسکتے ہیں ؟ یہ راستہ بہتر رہے گا یہ پھر کسی ایک پارٹی کو بھاری اکثریت دلانا؟ بعض جگہوں پر کنزرویٹو اور لبرل ڈیموکریٹ نے بھی اقلیتوں کو ٹکٹ دیے ہیں ہم اس کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں۔ پس تحریر : مسئلہ کشمیر کی جو صورت حال ہے اس عرصے میں بعض کشمیری پاکستانی تنظیمیں پارلیمانی امیدواروں کے ساتھ لابنگ کرتی رہی ہیں اس حوالے یہ بھی دیکھا کہ بعض کشمیری تنظیمیں کسی صرف ایک جماعت کے امیدواروں سے لابنگ کرتی ہیں مثال کے طور پر بعض جگہوں میں اگر لیبر مضبوط بھی ہو تو صرف اسی کے امیدواروں کے ساتھ لابنگ ؟ اب لیبر تو پہلے سی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کرتی چلی آرہی ہے یہ الگ بات کہ جب خود اس کی حکومت بنی تھی تو عملی طور پر مسٹر بلئیر کی بعض پالیسیاں بھارت کے حق میں تھیں پھر عراق پر جنگ مسلط کی گئی لیکن عمومی طور پر پارٹی کی حد تک سہی یہ پارٹی جہاں بھی ظلم ہو ناانصافی ہو یہ مظلوموں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے لیکن کیا ضروری نہیں تھا کہ الیکشن مہم کے دوران زیادہ سے زیادہ دیگر پارٹیوں سے بھی مکالمہ کیا جاتا ؟ ان سے بھی کمٹمنٹ لی جاتی پھر ایک ٹاون یا سٹی میں جب کو ئی کشمیری تنظیم کشمیر لابنگ کے نام پر پروگرام کرتی ہے تو منتظمین اپنی برطانوی ہارٹی کو ہی مدعو کیوں کرتے ہیں ؟ تمام پارلیمانی امیدواروں کو ایک جگہ بٹھا کر مسئلہ کشمیر ڈسکس کرنا کیا یہ زیادہ بہتر اپروچ نہیں ؟ بعض اس الیکشن کو مسلمانوں کے مختلف مسائل سے بھی جوڑتے ہیں اس حوالے بھی سب کو علم ہے کہ لیبر پارٹی کی پالیسیاں مسلم کمیونٹی کے دل کے بہت قریب ہیں لیکن کیا ہم اسی پر اکتفا کر کے بیٹھ جائیں ؟ اب مذہبی ادارے بھی اگر پہلے سے ہی حمایتی صرف لیبر کے سیاستدانوں سے ہی راہ و رسم رکھیں گے تو کیا اس سے پارلیمنٹ کے اندر مسلم کمیونٹی کو متاثر کرنے والی کسی قانون سازی پر ان کو دیگر جماعتوں کے پارلیمنٹرین سے مدد مل سکے گی؟ اس تناظر میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ ووٹ پر ایک مختلف اپروچ اپنانے کی ضرورت ہے۔