کنول کے پھولوں سے گلاب کی خوشبو؟

March 01, 2013

بطور ایک جمہوریت پسند میں ہمیشہ سے عوام کے حق حکمرا نی میںیقین رکھتا ہوں، بیلٹ کے ذریعے اپنے پسندیدہ افراد کو حکومت کے ایوانوں تک پہنچانے کی جو طاقت پاکستان کا آئین عوام کو دیتا ہے میراہمیشہ سے یقین ہے کہ اس کے درست استعمال سے پاکستان کی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔ جمہوریت اپنی تمام ترخرابیوں کے باوجود آمریت سے ہمیشہ بہتر ہی ہوتی ہے کیونکہ جمہوری نظام میں کسی نہ کسی سطح پر حاکم وقت کو عوام کی امنگوں کا احساس کرنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن اگر اس جمہوری عمل میں عوام ایسے افراد کی اکثریت کو منتخب کر لیںجو ٹیکس چور، مالیاتی اداروں کے نادہندہ،بجلی اور گیس چور،رشوت خور اور کرپٹ ہونے کے ساتھ ساتھ نااہلیت کی بھی آخری حدود کو چھو چکے ہوں تو پھر کیا اس جمہوری عمل پر اعتبار کرنا چھوڑ دینا چاہیے؟ کیا پچھلے چند ماہ سے انتخابی عمل میں جس تبدیلی کا تذکرہ کیا جا رہا ہے وہ اس جمہوری عمل میں موجود خامیوںکو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے؟
ان سوالوں کے جواب دینے کے لئے ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ یہ مبینہ چور اور ڈاکو قسم کے اراکین اسمبلی آخرکار کیسے پاکستان کی پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کر پائے۔ آخر کار پاکستانی طرز سیاست میں کسی پارٹی سربراہ کی خوشنودی سے پارٹی کا ٹکٹ تو مل سکتا ہے پارلیمنٹ میں سیٹ نہیں، سیٹ حاصل کرنے کے لئے انہیں عوام کے ووٹ ہی چاہیے ہوتے ہیں۔اب اگر یہ کہا جائے کہ معصوم عوام ان افراد کی جانب سے کی گئی چکنی چپڑی باتوں میں آکر انہیں ووٹ دینے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو یہ درست نہ ہو گا کیونکہ ایک بل سے دو بار نہیں ڈسوایا جاتا.... اور دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، تو عوام اصولی طور پر کیونکر ایک ایسے شخص کو دوبارہ منتخب کرنا چاہیں گے جو انہیں ایک بار بیوقوف بنا چکا ہو؟ عوام جنہیں ووٹ دیتے ہیں وہی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں اور اگرپھر ان کے لوٹ مار کرنے کے باجودو عوام انہیں منتخب کر لیتے ہیں تو یہ کس کا قصور ہے؟
تو پھرکیا عوام کی معصومیت ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا سبب ہے؟ اگر آپ ٹی وی زیادہ دیکھتے ہیں تو آپ کے لئے اس کا جواب یقیناہاں میں ہوگا لیکن میری رائے میں ایسا نہیں ہے۔ عوام ان افراد کو اس لئے منتخب کرتے ہیں کہ یہ افراد ان کے نظریات سے مماثلت رکھتے ہیں، اگر منتخب ہونے والے سیاستدان کرپٹ ہیں تو انہیں منتخب کرنے والے عوام بھی کچھ زیادہ پارسا نہیں ہیں۔اس کا ثبوت ہم ہر روز ہی دیکھتے ہیں، کک بیک لینے کی عادت صرف سیاستدانوں کو ہی نہیں ہے، ہمارے ہاں ہر روز لاکھوں نہیں تو ہزاروں سرکاری عہدوں پر کام کرنے والے عوام یہ کام بخوبی کرتے ہیں۔ کسی بھی سرکاری عہدے یا عہدیدار کا نام لیجئے، پھر چاہے وہ قاصد ہو یا کلرک، کانسٹیبل ہو یا ایس پی، کارپوریشن، بجلی، واساکسی بھی ادارے سے وابستہ اس کام میں ماہر دِکھے گا۔ ہمارے ہاں کرپشن انسٹی ٹیوشنلائز ہو گئی ہے اور اس کی وجہ اگر کسی کے خیال میں سیاستدان ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
صرف سرکاری محکموں کو ہی کیوں، یہاںتو بڑے بڑے پرائیویٹ ادارے بھی کرپشن سے نہیں بچ پاتے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی” معصوم“ پاکستانی کسی نہ کسی ادارے کو چونا لگا کر کروڑوں سمیٹ کر فرار ہو جاتا ہے۔ بڑی کرپشن کو تو چھوڑیئے، اگر آپ کسی پھل والے کی ریڑھی سے بے داغ پھل پورا تول میں خریدنے میں کامیاب ہو جائیں تو خود کو خوش قسمت تصور کیجئے ، پھر دالوں میں کنکر، مرچوں میں اینٹوں کا برادہ ملانے والے،انسانوں کو مردہ جانوروں اور زندہ کتوں کا گوشت کھلانے والے، دودھ میں کیمیکل کی ملاوٹ کرنے والے ، زندگی بچانے کی ادویات جعلی بنانے والے اور انسانی اعضا کی خریدوفروخت میں ملوث افراد کے بارے میں بھی ہم سب جانتے ہی ہیں۔ جب ہم سب ایسے ہوں گے تو ہمارے حکمران کیا ہمارے جیسے نہیں ہوں گے؟ کیونکہ آخر کار جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی حکمرانی، عوام سے، عوام کے لئے۔۔۔ ہمارے دین میں بھی تو ہمیں بتادیا گیا ہے کہ © © ہم نے تم پر تمہارے جیسے حکمران مسلط کئے۔۔۔ تو پھر ایسی حیرانی کی بات کیا ہے جب اسمبلیوں میں موجود سیاست دان اپنے اثاثہ جات ڈیکلیئر نہیں کرتے، یا ٹیکس چوری اور وہ دیگر جرائم کرتے ہیں جن کا انہیں موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔۔۔ آخر کا انہیں منتخب کرنے والے افراد بھی تو ان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔
آج سے دو تین دہائی پہلے تک ہمارے ہاں کرپشن کو برا سمجھا جاتا تھا، پھر آہستہ آہستہ سب تبدیل ہو گیا، ہم حرام کی کمائی سے بنائی گئی دولت والے افراد کے سوشل بائیکاٹ سے لے کر آج تک کے پرو کرپشن دور تک کیوںپہنچے یہ ایک بحث طلب معاملہ ہے۔ ہمارے دیگر مسائل کی طرح ہم اسے مغرب کی راہ پر چلنے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے بری الذمہ نہیں ہو سکتے کیونکہ مغرب میں اب اس عفریت پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے جبکہ ہمارے ہاں تو کرپشن رواج بن گئی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے آپ میں تبدیلی لائے بغیر حکمرانوں سے تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں اور ٹیکس دیئے بغیر حکومت سے سہولیات کی توقع رکھتے ہیں۔ ہم خود تو اپنے گھر دھو دھو کر پانی گلی میں چھوڑ دیتے ہیں لیکن برسات میں حکمرانوں کی نااہلی پر اظہار خیال کرتے نہیں تھکتے۔ ہم دراصل افراد پر مشتمل ایک ریوڑ ہیں جسے وقت اور مفاد ساتھ لے آیا ہے۔ اب ہم قوم کب بنیں گے یہ تو کہنا بہت مشکل ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہم کنول کے پھول اُگا کر گلاب کی خوشبو سونگھنے کی جو تمنا دل میں لئے بیٹھے ہیںاس خوشبو کومحسوس کرنے کے لئے آئیے پہلے خود کو تبدیلی کے اس عمل کا حصہ بنائیں اور پھر نظام کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کو جاری رکھیں۔ دنیا کی تمام ترقی یافتہ قومیں اس کرائسز سے ہو کر گزری ہیں ، ہمیں آغاز کا موقع ملنے والا ہے اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔ خرابیوں سے پاک معاشرے کے قیام کے لئے بنیادی اصولوں کا تعین کرنے کا وقت آگیا ہے ، تبدیلی کی طرف پہلا قدم اٹھانا ہو گا۔ معجزوں کی توقع رکھنا فضول ہے، دوسروں پر تنقید سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر ہی ممکن ہے کہ آئندہ برسوں میں ہم دیانتدار، اصول پرست اور حقیقت پر مبنی فیصلے کرنے والی قوم بن جائیں اور ایسی ہی قیادت کو منتخب کریں۔ آج ایسا نا ممکن نظر آتا ہے لیکن دنیا میں بڑے بڑے سماجی انقلاب آئے ہیں اور بعض اوقات ان کا نقطہ آغاز محض سوچ کی تبدیلی تھی۔ اس مرتبہ ووٹ دیتے وقت یہ ضرور سوچئے گا کہ کیا آپ ووٹ اپنے ملک اور اس کی بہتری کے لئے دے رہے ہیں یا محض اپنے کسی چھوٹے سے مفاد کے لئے ۔اگر آپ اس امر کا صحیح فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ اس پاکستان کی طرف پہلا قدم ہو گا جس کی ہم خواہش تورکھتے ہیں لیکن اس کے لئے خود کچھ کرنے کو تیار نہیں۔