بے نظیر بھٹو کی بارہویں برسی

December 27, 2019

غضب خدا کا....ایک نہیں، دو نہیں بلکہ دس نہیں پورے بارہ برس گزر گئے اور پاکستان کے 21کروڑ عوام، مسلم امہ کی پہلی منتخب وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا نہ دے سکے۔ کیا عدلیہ، کیا انتظامیہ، کیا مقتدرہ اِن بارہ برسوں میں کسی ایک بھی ملزم کو قانون کے ذریعے منطقی انجام تک نہ پہنچا سکے۔ اِن بارہ برسوں میں کئی وزیراعظم آئے، کئی چیف جسٹس آئے اور کئی فوجی سربراہ آئے مگر پاکستان کی 72برس تاریخ کی سب سے بڑی دہشت گردی کے مجرموں پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکا۔ ان بارہ برسوں میں خود بے نظیر بھٹو کی جماعت برسراقتدار آئی۔ ن لیگ آئی اور اب پی ٹی آئی برسراقتدار ہے مگر اس گناہِ کبیرہ کے حوالے سے اب بھی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

شہید بے نظیر بھٹو کے قتل پر پارلیمنٹ نے اقوام متحدہ سے باقاعدہ انکوائری کروائی اس حوالے سے پاکستان نے خرچ بھی برداشت کیا۔ اقوام متحدہ نے اس قتل پر تفصیلی رپورٹ دی اس قتل کے سیاسی معاشرتی اور بین الاقوامی پہلوئوں پر تفصیلی روشنی ڈالی مگر حکومت پاکستان نے اس رپورٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے سرد خانے کی نذر کر دیا۔ حالانکہ اس رپورٹ میں واضح طور پر بعض اشحاص اور اداروں پر اس قتل کی بالواسطہ ذمہ داری ڈالی گئی تھی مگر سارے کے سارے ذمہ داران تفتیش اور انکوائریاں بھگت کر آزاد زندگی گزار رہے ہیں اب ان سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔

برطانیہ کی مشہور سراغ رساں ایجنسی سکاٹ لینڈ یارڈ نے بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی تکنیکی پہلوئوں پر ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی جس کے اہم نکات میں یہ بات شامل تھی کہ قاتل صرف ایک تھا، اِسی نے فائر کئے اور اسی نے خود کش دھماکہ بھی کیا اِسی رپورٹ سے یہ ثابت بھی کیا گیا کہ خود کش کی ہڈیوں کی ساخت سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ساڑھے 15برس کا نوجوان تھا اِسی رپورٹ میں خود کش بمبار کے ڈی این اے تجزیئے سے معلوم کیا گیا اس کا تعلق وزیرستان ایجنسی سے تھا۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے ماہر سرجنز نے یہ بھی نتیجہ نکالا کہ محتمہ کی شہادت گولی لگنے سے نہیں ہوئی بلکہ خود کش دھماکے کے دوران جب وہ اپنا سر نیچے لے جا رہی تھیں ان کو گاڑی کا اسکیپ بیج لگا جو سیدھا ان کے سر میں گھس گیا اور اسی لمحے ان کی موت ہو گئی۔ ایکسرے رپورٹس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ محترمہ کے سر میں ہونے والا سوراخ گولی کے نشان سے پانچ گنا بڑا تھا۔

پاکستان کی تحقیقاتی ایجنسیوں نے محترمہ بےنظیر بھٹو کے قتل کا کھوج لگانے کے لئے انتہائی پیشہ وارانہ اور ٹیکنیکل انداز میں کام کیا اس حوالے سے بنائی گئی۔ جے آئی ٹی نے عینی شاہدین کے بیانات ملزمان کے خفیہ بیانات ملزمان کے فون کالز کا تجزیہ، ڈی این اے کا موازنہ، موبائل فون فرانزک رپورٹس، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا ریکارڈ اور آئی ایس آئی کے بیانات کا مکمل اور تفصیلی جائزہ لیا۔ شواہد سے ظاہر ہوا کہ دو کزنز ملزمان حسنین گل اور محمد رفاقت بےنظیر بھٹو پر راولپنڈی کے حملے میں خود کش بمبار کے مددگار تھے۔ اُن دونوں نے قاتل کو رہنمائی، فنانس اور سہولیات فراہم کیں۔ یہ دونوں ملزم ٹرائیل میں گئے لیکن بالآخر عدالت نے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا جس پر وفاقی حکومت نے انہیں حفاظتی تحویل میں لے لیا تھا۔

اس کے بعد کیا ہوا اس حوالے سے حقائق سامنے نہیں آئے ان کی عدالت سے بریت اس لئے ممکن ہوئی کہ خفیہ ایجنسیوں کے اہل کار جنہوں نے ملزمان کے خلاف ثبوتوں پر گواہیاں دینی تھیں۔ وہ عدالت میں شہادت کے لئے حاضر ہی نہ ہوئے اور یوں ملزمان کے خلاف شہادت ہی اکٹھی نہ ہو سکی۔ کہا جاتا ہے کہ ان گواہوں کو جان سے مار دینے اور ان کے خاندانوں کو اڑا دینے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ ریاست، ادارے اور ہمارا نظام نہ گواہوں کے تحفظ کو یقینی بنا سکا اور نہ عدالتی عملے کو درپیش خطرات کا تدارک کر سکا اسی لئے بالآخر بریت مل گئی۔

خود کش حملہ آوروں کی فراہمی اور ان کے لئے دھماکہ خیز جیکٹوں کا انتظام نصراللہ، عباد الرحمن، نادر عرف قاری اسماعیل، عبداللہ عرف صدام اور فیض محمد عرف قصہ کٹ نے کیا۔ یہ بات بھی ثابت کی گئی کہ محترمہ بےنظیر بھٹو کے قتل کی سازش طالبان اور القائدہ کے ایک اجتماعی اجلاس (شوریٰ اتحاد قبائل) میں تیار کی گئی جس کی صدارت مصطفیٰ ابو یزید نے کی اور اس حوالے سے یہ ٹاسک بیت اللہ محسود کو دیا گیا جنہوں نے باقی گروپوں کی مدد سے اسے کامیاب بنایا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ محترمہ کے قتل کا حکم براہِ راست ایمن الظواہری نے دیا تھا جو القاعدہ کے اس وقت نائب امیر اور اب امیر ہیں۔ مختلف اداروں کی تفتیش کے مطابق قاری نادر عرف اسماعیل اور نصراللہ عرف احمد وہ مرکزی کردار تھے جو خود کش بمبار سعید عرف بلال کو خود راولپنڈی میں حسنین گل اور رفاقت کے پاس چھوڑ کر آئے۔

انہی دونوں یعنی قاری نادر اور نصراللہ کا براہ راست رابطہ بیت اللہ محسود سے تھا ان کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ محترمہ کی شہادت کے دو ماہ بعد ایک فوجی جھڑپ میں مہمند ایجنسی میں ہلاک کر دیئے گئے گویا مرکزی رابطہ کار سے نہ تفتیش ہو سکی، نہ ان کا کوئی تحریری بیان یا ریکارڈ موجود ہے البتہ یہ شبہ پایا جاتا ہے کہ وہ پہلے سے گرفتار تھے ان سے اعترافی بیانات لے کر ہی انہیں پار لگایا گیا لیکن اس شبہ کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ملا۔ اگر ان دونوں سے تفتیش مکمل ہو جاتی تو بےنظیر بھٹو قتل کیس کی ایک ایک کڑی سامنے آ جاتی۔ تاہم ٹیلی فون ریکارڈز کو جاننے کی نئی تکنیک سے یہ بات تو پایہ ثبوت تک پہنچ گئی کہ راولپنڈی میں جائے شہادت پر نہ صرف خود کش بمبار موجود تھا بلکہ اس کا ساتھی اکرام اللہ نادر اور نصراللہ بھی موجود تھے اور ان کا آپس میں ٹیلیفون پر رابطہ بھی ہوا۔

بارہ برس گزر گئے عدالتوں میں کوئی فیصلہ نہ ہو سکا کبھی گواہ ڈر گئے تو کبھی شہادت ہی نہ ہو سکی۔ جج خوفزدہ ہو گیا یا پراسیکیوٹر بھی قتل کر دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا مقدمہ آج بھی ریاستی نظام کا منہ چڑا رہا ہے اور یہ سوال کر رہا ہے کہ نظام اتنا ہی بے بس ہے کہ ثبوت، شہادتیں اور علم ہونے کے باوجود سب بے بس ہیں اگر اس ملک کی دو دفعہ وزیراعظم رہنے والی بے نظیر بھٹو کو انصاف نہیں مل رہا تو عام آدمی کا کیا حال ہو گا۔

ان بارہ برسوں میں ریاست، حکومت اور سیاست کے کچھ نہ کر سکنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مشیت ایزدی بھی خاموش بیٹھی ہو۔ کسی بھی انسان کا خون ناحق ضائع نہیں جاتا یہی بےنظیر بھٹو کے قاتلوں کا انجام دیکھ کر معلوم ہوتا ہے۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری القاعدہ کے رہنما مصطفیٰ ابو یزید نے قبول کی تھی محترمہ کے قتل کے دو سال چھ ماہ بعد جون 2010ء مصطفیٰ ابو یزید عرف سعید المصری کو اپنی بیوی، تین بیٹیوں، نواسے اور دوسرے مرد و خواتین کے ساتھ ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔

اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش میں بڑا نام بیت اللہ محسود کا تھا۔ محترمہ کے قتل کے صرف ایک سال 8ماہ 5اگست 2009کو ایک امریکی ڈرون حملے میں اس وقت ہٹ کیا گیا جبکہ اس کی دوسری بیوی اس کے پائوں دبا رہی تھی۔

بیت اللہ محسود سے نادر عرف قاری اسماعیل اور نصراللہ عرف احمد براہ راست ہدایات لیتے تھے ان دونوں ملزمان کو محترمہ کی شہادت کے صرف دو ماہ کے اندر فروری 2008میں مہمند ایجنسی میں ایک فوجی جھڑپ کے دوران ہلاک کر دیا گیا طالبان اور القاعدہ کا نیٹ ورک مفلوج کر دیا گیا ہے۔ اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد حملے میں ہلاک کر دیا گیا ایمن الظواہری کا عرصہ دراز سے کچھ پتا نہیں کہ وہ کہاں ہے لیکن یہ سب ہلاکتیں اور نقصان ڈرون حملوں کی وجہ سے ہوئے ہیں ریاست پاکستان نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بارے میں نہ کوئی ردعمل دیا نہ کسی ایک بھی شخص پر حملہ کیا نہ کسی کو سزا دلوانے کی کوشش کی اور نہ کسی کو نشان عبرت بنانے کا ارادہ کیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست نے یہ رویہ کیوں رکھا؟ کیا بےنظیر بھٹو پاکستان کی شہری نہ تھیں جن کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست پر تھی کیا وہ دو بار پاکستان کی وزیراعظم نہیں رہی تھیں اور دہشت گردی نے ان پر حملہ اسی لئے کیا تھا کہ وہ سہ بارہ وزیراعظم بن کر طالبان کے لئے خطرہ نہ بن جائیں۔ کیا ریاست کے لئے ضروری نہیں تھا اور اب بھی ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو انجام تک پہنچائیں گواہوں اور عدالتوں کو تحفظ دے وکیلوں اور معاونوں کی حفاظت کرے۔ افسوس کہ ریاست نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔ کل تو تاریخ کی عدالت میں ریاستی عمال اسے اپنا خوف قرار دیں گے یا پھر ریاست کی کمزوری....