بی آر ٹی اسکینڈل، ایف آئی اے کو ملزمان کی گرفتاری کا حکم ہے

December 28, 2019

Your browser doesnt support HTML5 video.

بی آر ٹی اسکینڈل، ایف آئی اے کو ملزمان کی گرفتاری کا حکم ہے

اسلام آباد (انصار عباسی) پشاور کے بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کیس میں ایف آئی اے کو نہ صرف پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے انکوائری کا حکم ملا ہوا ہے بلکہ ایجنسی کو ملوث افراد کیخلاف کارروائی کیلئے بھی کہا گیا ہے۔

ایف آئی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ فیصلے میں صرف اسکینڈل زدہ منصوبے کیخلاف انکوائری کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ جو ہدایت کی گئی ہے اس کے نتیجے میں ملوث افراد گرفتار بھی کیے جا سکتے ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ کے آرڈر میں جو ہدایت درج ہے وہ یہ ہے کہ ’’انکوائری رپورٹ میں اگر کوئی ملوث قرار دیا جائے تو اس کیخلاف کارروائی کی جائے۔‘‘ ذرائع کا کہنا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر کئی افراد بشمول سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے کردار کو مشکوک قرار دیا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ان افراد کو فیصلے کی روشنی میں طلب کیے جانے اور سوالوں کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔ فیصلے میں پی ٹی آئی کے کچھ سرکردہ سیاست دانوں بشمول پرویز خٹک اور اعظم خان جیسے با اثر بیوروکریٹس کا ذکر موجود ہے۔ فیصلے کے مطابق، ایف آئی اے کو جن باتوں کے حوالے سے تحقیقات کرنا ہے وہ یہ ہیں:…

پرویز خٹک اور ڈی جی پی ڈی اے وٹو، اعظم خان اور ڈی جی پی ڈی اے اسرار، شہاب علی شاہ اور شاہ محمد وزیر ٹرانسپورٹ کے درمیان کیا گٹھ جوڑ ہے؟ مطلوبہ شیئرز کے حصول کیلئے یہ گٹھ جوڑ کیسے تشکیل پایا؟ ذرائع کا کہنا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ فیصلے میں جن افراد کے نام شامل ہیں انہیں ایف آئی اے طلب کرے اور یہ یقینی بنائے کہ آیا ان افراد کا پروجیکٹ پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی ٹھوس تعلق ہے،

پروجیکٹ کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ اس میں زبردست بد انتظامی ہوئی ہے اور مس ہینڈلنگ کی گئی ہے، فزیبلٹی کے بغیر پروجیکٹ شروع کیا گیا، اس میں جعلی اور گمراہ کن فنانشل ماڈلز پیش کیے گئے، منصوبہ بندی خراب تھی جس کی وجہ سے اخراجات میں 35؍

فیصد اضافہ ہوا اور کئی دیگر مسائل پیدا ہوئے۔ ایف آئی اے کو یہ دیکھنا ہے کہ کنسلٹنسی کے حصول اور دیگر اہم معاملات کے اہم فیصلے کیسے کیے گئے اور کیسے ان پر اس وقت عمل ہوا جب پروجیکٹ منظور تک نہیں ہوا تھا۔

کیوں پنجاب میں پہلے سے اس طرح کے پروجیکٹ کیلئے بلیک لسٹ قرار دی گئی کنسلٹنسی کمپنی (کالسن اینڈ مقبول) کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اہم افسران سے یہ سوال بھی پوچھنا ضروری ہے کہ کنسلٹنگ کمپنی کالسن اینڈ مقبول نے سیکریٹری ٹرانسپورٹ، ڈی جی پی ڈی اے اور پشاور کے کمشنر کو مہنگی مہنگی گاڑیاں کیوں دیں۔

یہ بات پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں بھی موجود ہے کہ جب ان افسران کے پاس اپنی گاڑیاں موجود تھیں تو انہوں نے یہ گاڑیاں کیوں لیں؟ ایف آئی اے سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ یہ بھی معلوم کرے کہ وزیراعلیٰ کے اجلاس میں کس نے 220؍ بسوں کے حصول کی منظوری کا فیصلہ کیا تھا جبکہ تقابلی لحاظ سے دیکھیں تو اس سے بڑے روٹ کیلئے پنجاب میں صرف 65؍ بسیں چل رہی ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں ایف آئی اے کو بی آر ٹی ٹریک کے گرد لوہے کے جنگلے کے مہنگے داموں خریداری کا بھی اشارہ دیا گیا ہے اور ایک بیوروکریٹ اور سابق صوبائی وزیر اس کی فراہمی کے ٹھیکے میں شراکت دار تھے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ پی ڈی اے کی جانب سے معیار اور مقدار کی تصدیق کیے بغیر ہی رقم پیشگی ادا کر دی،

لوہے کے جنگلے کا ڈیزائن ٹھیکے دار کو مزید فائدہ پہنچانے کیلئے تبدیل کیا گیا۔ فیصلے کے مطابق، پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (پی ایم یو) کو بی آر ٹی پر عملدرآمد کیلئے قائم کیا گیا تھا لیکن یہ یونٹ جون 2019ء میں بند کر دیا گیا حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ پروجیکٹ اب بھی جاری تھا۔

ارادہ یہ ہے کہ مستقبل میں ہونے والی کسی بھی ممکنہ کارروائی / انکوائری / انوسٹی گیشن سے بچنے کیلئے ریکارڈ تباہ کر دیا جائے۔