’عنایت حسین بھٹی‘ فلمساز، اداکار، گلوکار، کالم نگار اور اسکالر

January 12, 2020

فنونِ لطیفہ کے طلباء کے لیے عنایت حسین بھٹی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔معروف فلمساز، اداکار، گلوکار، کالم نگار اور اسکالر عنایت حسین بھٹی12جنوری 1928ء کو گجرات (پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے پبلک ہائی اسکول گجرات سے میٹرک کیا اور پھر 1949ء میں زمیندارہ کالج گجرات سے ایف اے کیا۔ 17سال کی عمر میں اپنی والدہ سے قرآن مجید حفظ کیا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ لاہور آگئے اور وہاں ایم اے او کالج میں داخلہ لیا۔ اس عرصے میں وہ کالج کے ہوسٹل میں مقیم رہے۔

وہ وکیل بننے کے لیے لاہور آئے تھے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ عنایت حسین بھٹی کو بچپن سے گانا گانے کا شوق تھا۔ اسٹیج پر ایک پرفارمنس پیش کرنے کے بعد انھیں ریڈیو پر گانے کی پیشکش ہوئی۔ ایک روز ان کی ملاقات ہدایتکار نذیر سے ہوئی۔ نذیر نے عنایت حسین بھٹی کا گانا سنا تو اپنی فلم میں گانے کی پیشکش کردی۔ اس کے بعد موسیقار جی اے چشتی نے عنایت حسین کو اپنی فلم '’پھیرے‘ میں گانا گانے کے لیے کہا، جس کا گیت’ او اکھیاں لاویں ناں‘نے کافی مقبولیت حاصل کی۔

ان کا رجحان ابتداء سے ہی صوفی شاعری کی طرف تھا، انہوں نے وارث شاہ، بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید اور میاں محمد بخش سمیت دیگر عظیم صوفی شعراء کا کلام گا کر سننے والوں کے دلوں میں گھر کیا۔ 1953ء میں انہوں نے فلم '’شہری بابو‘ میں معاون کردار ادا کرکے اداکاری کا آغاز کیا جبکہ اس فلم کا گیت '’بھاگاں والیو نام جپو مولا نام ‘ نے انہیں بطور گلوکار معروف کردیا۔

1955ء میں عنایت حسین بھٹی کو فلم ’ہیر‘ میں ہیرو کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا، گلوکاری کے ساتھ ساتھ ان کی اداکاری کو بھی خاصا سراہا گیا۔ انھیں پاکستان کا پہلا سپراسٹار پلے بیک گلوکار بھی کہا جاتا ہے۔ عنایت حسین بھٹی نے متعدد ہٹ گانے گائے۔ چن میرے مکھناں، جند آکھاں کہ جان سجناں، دنیا مطلب دی او یار، دم عشق دا بھرنا پے گیا نی، اور دلبر ملسی کیہڑے وار وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں۔

عنایت حسین بھٹی فن کے اس مقام پر پہنچے، جس کو حاصل کرنے کے لئے لوگ ترستے ہیں۔ اگر وہ رانجھا بنے تو جھنگ کے جنگل میں بھینس پالنے والے نظر آ ئے۔ اگر جوگی بنے تو ہیر کے در سے جوگ لینے کے لئے انوکھا روپ دھارا۔ اگر چوکیدار بنے تو عزت اور غیرت کا پورا پہرہ دیا۔ اگر انہوںنے وارث شاہ کا روپ دھارا تو اس کردار کو ایسے اُجاگر کیا جو فلم ’’وارث شاہ ‘‘کی شکل میں امر ہوا۔

1991ء میں پی ٹی وی نے صوفیائے کرام، ان کی درگاہوں اور تعلیمات کے حوالے سے پروگرام پیش کئے تو ان پروگراموں کو پیش کرنے کے لئے عنایت حسین بھٹی کا انتخاب کیا گیا۔ اس پروگرام کا نام ’’چانن ای چانن‘‘ تھا۔ بعد ازاں اس کا نام ’’اجالا‘‘ رکھ دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد ’’تجلیوں‘‘ کے نام سے یہ پروگرام چلتا رہا۔

عنایت حسین بھٹی نے 500فلموں میں 2500کے قریب گانے ریکارڈ کرائے۔ انھوں نے400سے زیادہ فلموں میں کام کیا، جن میں 40فلموں میں ہیرو کے روپ میں جلوہ گر ہوئے۔ انہوں نے اپنی ذاتی پروڈکشن کمپنی بھی قائم کی، جس کے بینر تلے انھوں نے 50فلمیں بنائیں اور کئی فلموں کی ہدایات بھی دیں۔ عنایت حسین بھٹی نے1967ء میں فلم ’’چن مکھناں‘‘ بنائی، جس نے کامیابی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اس کے بعد فلم سجن پیارا، جند جان، دنیا مطلب دی، عشق دیوانہ، سچا سودا، ظلم دا بدلہ سمیت کئی کامیاب فلمیں بنائیں۔

عنایت حسین بھٹی کو وارث شاہ سے والہانہ عشق تھا۔ گو ان کی فلم ’’وارث شاہ‘‘ باکس آفس پر ناکام رہی مگر عنایت حسین بھٹی اس فلم پر آخر دم تک مان کرتے رہے۔ وہ وقتاً فوقتاً ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور صحافیوں کو مدعو کرتے اور فلم ’’وارث شاہ‘‘ دکھاکر ان کی رائے معلوم کرتے۔ وہ 1971ء سے 1974ء تک پنجابی ادبی سنگت لاہور کے سیکریٹری رہے۔ اپریل 1973ء میں پنجابی ادبی سنگت کے تحت انھوںنے مذاکرہ کرایا، جس کا موضوع ’’پنجابی فلمیں اور سماجی بیداری‘‘ تھا۔ اس مذاکرے کی صدارت عنایت حسین بھٹی نے خود کی تھی۔

عنایت حسین بھٹی کئی برسوں تک ایک معروف اخبار کے لیے ’چیلنج‘ کے نام سے کالم بھی تحریر کرتے رہے۔ وہ اپنے کالموں کے ذریعے پاکستانی معاشرے کے مسائل پر بلاخوف اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے۔

1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ریڈیو پاکستان لاہور سے عنایت حسین بھٹی کی منفرد اور گرج دار آواز میں ایک ترانہ بجتا تھا ’’اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقت شہادت ہے آیا‘‘ اور اسی جنگی ترانے سے پاکستان میں قومی موسیقی کے باب کا آغاز ہوا۔

ناصر کاظمیؔ کے قلم اور عنایت حسین بھٹی کی آواز نے سرگودھا کے باسیوں کو زندہ دلی کا ایسا خراج تحسین پیش کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان اور بھارت کی جنگ جاری تھی کہ عنایت حسین بھٹی نے اپنا تمام سرمایہ پاک فوج کے دفاعی فنڈ میں جمع کروا دیا اور اپنے پاس صرف 250روپے رکھے۔

جب ان کی اہلیہ نے ان سے پوچھا کہ اگر یہ جنگ طویل ہو گئی تو پھر کیا ہوگا ؟ جواب میں بھٹی صاحب نے فرمایا کہ اگر میرا وطن ہی نہ رہا تو پھر کیا ہوگا؟ میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے اور وطن پر سب کچھ قربان۔ 31مئی 1999ء کو ان کی وفات سے پانچ عشروں پر محیط بے مثال کیریئر بالآخر اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔

فنکار گھرانہ

عنایت حسین بھٹی کے بیٹے وسیم عباس بھی اپنے والد کا نام روشن کرنے میں پیچھے نہیں رہے۔ قارئین کو اس بات کا علم ہے کہ وہ ٹیلی ویژن پر اپنے فن کا بھرپور اظہار کرتے رہتے ہیں۔ صر ف یہی نہیں بلکہ وسیم عباس کے بیٹے یعنی عنایت حسین بھٹی کے پوتے علی عباس بھی اداکاری کے میدان میں پیش پیش ہیں۔