ایک وی آئی پی گدھے کی دکھ بھری داستان!

March 08, 2013

گزشتہ روز ایک گدھے سے ملاقات ہوگئی، مجھے اس کی شکل کچھ جانی پہچانی سی محسوس ہوئی ،میں اس کے پاس گیا اور پوچھا”تم کون ہو؟“اس نے جواب دیا”تمہیں نظر نہیں آرہا؟میں ایک گدھا ہوں!“،میں نے کہا”وہ تو ٹھیک ہے مگر مجھے لگتا ہے میں نے تمہیں کہیں دیکھا ہے“۔ وہ بے نیازی سے بولا”دیکھا ہوگا!“میں نے اس کی سرد مہری نظراندازکرتے ہوئے کہا”ہم شاید اسلام آباد میں ایک دوسرے سے ملے ہیں“، یہ سن کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہا”تم ٹھیک کہتے ہو، میں اسلام آباد میں رہا ہوں، مگر تم سے تو میری ملاقات نہیں ہوئی“میں نے جواب دیا”ہوئی تھی مگر تم ان دنوں بہت اونچی ہواﺅں میں تھے چنانچہ تمہیں یاد نہیں“۔یہ سن کر گدھا اپنی سنہری یادوں میں کھو سا گیا، پھر کچھ دیر بعد اس نے سر اوپر اٹھایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہا”آہ وہ بھی کیا دن تھے، میری ڈیوٹی اسلام آباد کے مختلف محکموں میں تھی، میں وہاں سے ڈھیروں سامان اپنی پیٹھ پر لاد کر اسلام آباد کی ایک کوٹھی میں لایا کرتا تھا، یہ سامان بڑے سائز کی بوریوں میں بند ہوتا تھا مگر مجھے حیرت ان کے وزن پر ہوتی تھی جو نہ ہونے کے برابر تھا، ایک دن ایک بوری زیادہ سامان کی وجہ سے پھٹ گئی اور یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ان بوریوں میں پانچ پانچ ہزار روپے کے کرنسی نوٹ بھرے ہوئے تھے، بس وہ گھڑی تھی جو میری زندگی میں بہت بڑا انقلاب لے کر آئی،میں نے اس بوری میں سے کچھ نوٹ کھسکالئے اور باقی بوریاں کوٹھی پر چھوڑ آیا جہاں بیٹھے لوگ یہ سب کچھ آپس میں بانٹ لیتے تھے“۔
اب اس گدھے میں میری دلچسپی پہلے سے بڑھ گئی تھی۔ سو میں نے پوچھا”پھر کیا ہوا؟ اس نے جسم پر بیٹھی مکھیوں کو اڑانے کے لئے اپنے جسم کو جھنجھوڑا اور بولا”ہونا کیا تھا، بس اس کے بعد میری عیش ہوگئی اب میں بوری پھٹنے کا انتظار نہیںکرتا تھا بلکہ ہفتے میں ایک آدھ بار پوری بوری غائب کردیتا تھا جس کا کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کیونکہ سینکڑوں بوریوں میں سے ایک آدھ بوری کی غیر موجودگی کا احساس کسی کو ہوتا ہی نہیں تھا“۔میں ابھی تک اسے صرف گدھا ہی سمجھ رہا تھا، اس کے اس انکشاف کے بعد نے خود کو سمجھنا شروع کردیا اور ایسا موقع میری زندگی میں کئی بار آیا ہے، میں لوگوں کو سمجھتا کچھ تھا اور وہ نکلتے کچھ اور تھے۔ بہرحال اب یہ گدھا مکمل طور پر میری دلچسپی کا محور بن چکا تھا۔ میں نے اسے مخاطب کیا اور پوچھا”اس کے بعد کیا ہوا؟“ بولا”جب پیسے جیب میں آئے تو میں نے پہلا کام یہ کیا کہ اسلام آباد کلب کا ممبر بن گیا“، یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی، میں نے پوچھا”تم تو گدھے ہو، اتنے عالی مرتبت کلب کے ممبر کیسے بن گئے؟“اس بار اس کے ہنسنے کی باری تھی، کہنے لگا ”جیب میں نوٹ ہونا چاہئیں ، کلب کی ممبر شپ کیا چیز ہے، انسان سینیٹر بن جاتا ہے“۔اس کے بعد مجھے اس ضمن میں کچھ مزید پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی، چنانچہ میں خاموش ہوگیا ، وہ کہہ رہا تھا ”ان دنوں میں نے فائیو سٹار ہوٹلوں میں جانا شروع کردیا ، ان ہوٹلوں کے جنرل منیجر بذات خود میری ٹیبل پر آکر میری آمد کا شکریہ ادا کرتے تھے۔ میں نے ا سلام آباد کے سب سے مہنگے سیکٹر میں ایک عالیشان کوٹھی بھی خریدی جس میں شام کو شہر کے اکابرین اکٹھے ہوتے اور موج میلہ کرتے ، ان میں سیاستدان ،جرنیل، بیوروکریٹ اور اشرافیہ کے دوسرے لوگ بھی ہوتے تھے، ان محفلوںپر چھاپہ پڑنے کا پورا جواز موجود تھا مگر چھاپہ مارنے والے خود شریک محفل ہوتے تھے لیکن ایک حادثے نے میری زندگی میں دکھوں کی آمیزش کردی“۔
یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، جو میں نے اپنے رومال سے پونچھے۔ میں نے پوچھا”کیا ہوا؟“ بھرائی ہوئی آواز میں بولا”مجھے ایک خاتون سے عشق ہوگیا، وہ ایک این جی او چلاتی تھی اور بے حد خوبصورت تھی“ میں اس کے آنسوﺅں کو بھول کر دل ہی دل میں خوب ہنسا، مگر سنجیدہ سی شکل بنا کر پوچھا”پھر کیا ہوا؟“ بولا”وہ بھی فوراً میری طرف مائل ہوگئی، میں نے اسے ایک کوٹھی خرید کر اس کے نام کردی، ڈیڑھ کروڑ روپے کی کار اسے خرید کردی، جیولری کے کئی سیٹ اسے تحفے میں دئیے، وہ میرے عشق کا دم بھرتی رہی لیکن دور دور رہتی تھی۔ ایک دن میں نے اسے شادی کا پیغام دیا مگر اسے اس پر راضی کرنے کے لئے مجھے اپنی حق حلال کی کمائی کا ایک بڑا حصہ اس کی فرمائشوں پر صرف کرنا پڑا!“
”پھر کیا ہوا؟“میں نے پوچھا
”پھر وہ مان گئی، مگر....“اس کی آنکھیں ایک دفعہ پھر پرنم ہوگئی تھیں۔
”مگر کیا؟“
”ولیمے والے دن وہ فوت ہوگئی“
”وہ کیسے؟“
”مجھے کیا پتہ“اس گدھے نے بھولپن سے کہا”اللہ کو شاید یہی منظور تھا“
میں زندگی میں بہت سے گدھوں سے ملا ہوں لیکن یہ بہت عجیب و غریب گدھا تھا۔ اس نے اپنی داستان بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اپنی محبوبہ کی وفات کے بعد اس کا دل دنیا سے اچاٹ ہوگیا اوپرسے سپریم کورٹ کے حکم پر پکڑ دھکڑ بھی شروع ہوگئی تھی ،میں اپنی دولت بھی اللوں تللوں میں اڑاچکا تھا ،بوریاں ڈھونے کا کام میں ویسے ہی ترک کرچکا تھا کیونکہ اس کی ضرورت نہیں رہی تھی ،چنانچہ میں لاہور آگیا، اب جو کچھ ہوں وہ تمہارے سامنے ہے۔ اب مجھے لوگ گدھا ہی سمجھتے ہیں اور گدھوں ہی کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں“۔
دریں اثناء اس کا مالک آگیا تھا اور اب اسے ہانک کر ایک زیر تعمیر عمارت کی طرف لے جارہا تھا۔ اس نے چلتے چلتے گردن موڑ کر میری طرف دیکھا اور پوچھا”تم اسلام آباد میں کیا کرتے تھے؟“میں نے کہا”کچھ نہیں صرف گدھوں کی تجارت کرتا تھا جسے عام زبان میں گھوڑوں کی تجارت کہا جاتا ہے“۔