بی آرٹی منصوبے کی انکوائری، 45روز کی ڈیڈ لائن کل ختم ہوگی

January 19, 2020

پشاور(ارشد عزیز ملک)پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی انکوائری کے لئے 45روز کی ڈیڈ لائن پیر20جنوری کو ختم ہو رہی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے 2دسمبر2019کو پشاور بی آر ٹی منصوبے پر ایف آئی اے کو45روز کے اندر انکوائری مکمل کرکے رپورٹ رجسٹرار کےپاس جمع کرانے کے احکامات جاری کئے تھے۔ ایف آئی اے کے باوثوق ذرائع نے تصدیق کی کہ پشاور آفس کو تحریری حکم نامہ 5دسمبر کو موصول ہوا جس کے بعد انکوائری کا آغاز ہواتاہم تاحال انکوائری مکمل نہیں ہوئی ۔ذرائع کے مطابق اب تک پی ڈی اے، ٹرانسپورٹ ٗ پی این ڈی ڈیپارٹمنٹ اور ٹرانس پشاورکے افسروں کو طلب کر کے ان سے پوچھ گچھ کی گئی ہے جبکہ بی آر ٹی کے کنٹریکٹر اور کنسلٹنٹ کے نمائندوں سے بھی سوالات پوچھے گئے ہیں۔صوبائی حکومت اور پی ڈی اے پہلے ہی پشاورہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرچکی ہے لیکن ابھی تک مقدمے کی کوئی تاریخ مقر رنہیں ہوئی ۔ایف آئی اے ذرائع کا موقف ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے ابھی تک کیس کی شنوائی کے لئے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی جوںہی کوئی تاریخ مقرر ہو گی رپورٹ جمع کرا دی جائے گی ۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اگر کیس کی تحقیقات مکمل نہ ہوئیں تو عدالت سے مزید وقت مانگا جاسکتا ہے لیکن اس کا فیصلہ تاریخ مقرر ہونے کے بعد کیا جائے گا ۔ البتہ قانونی ماہرین کےمطابق پشاور ہائی کورٹ نے45روز کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے لہٰذا ایف آئی اے کو پشاور ہائی کورٹ میں رپورٹ20جنوری تک جمع کرانی ہوگی۔پشاور ہائیکورٹ بار کے سابق سیکرٹری جنرل امین الرحمان یوسفزئی نے جنگ کوبتایا کہ عدالت کیس کا فیصلہ کرچکی ہے لہذا اس میں کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوگی ۔چیف جسٹس نے ایف ائی اے کو 45 روز میں رپورٹ مرتب کرکے رجسٹرار افس میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے البتہ ایف آئی اےابتدائی رپورٹ کے ساتھ عدالت سے مزید وقت مانگ سکتی ہے۔ پشاور ہائی کور ٹ نے اپنے فیصلے میں 58 نکات اور35سوالات اٹھائے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ منصوبے کو بغیر کسی منصوبہ بندی اور فزیبلٹی کے شروع کیا گیا اور بدانتظامی کی وجہ سے منصوبے کی مجموعی لاگت میں 35 فیصد اضافہ ہوا ۔معزز عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ تحریک انصاف حکومت نے کسی ویژن کے بغیر منصوبے شروع کیا ۔پی ڈی اے نے منصوبے میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں اور بدانتظامی کے الزامات کو مسترد کر تے ہوئے کہا تھا کہ منصوبے کو ماہرین کے ساتھ طویل مشاورت کے ساتھ جدید تقاضوں کے عین مطابق ڈیزائن کیا گیالہذا بد انتظامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔پی ڈی اے کے مطابق پراجیکٹ کے لئے مروجہ طریقہ کار اپنایا گیا جس کے لئے پری فیزیبلٹی، فزیبلٹی سٹڈی، ابتدائی انجینئرنگ ڈیزائن اور پھر تفصیلی ڈیزائن تیار کیا گیا۔ پشاور بی آر ٹی منصوبے کی فی کلو میٹر لاگت 1.04ارب روپے بنتی ہے اس لئے یہ کہنا غلط ہو گا کہ منصوبہ کسی تیاری کے بغیر شروع کیا گیا ۔پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی ہائی کورٹ کی جانب سے اٹھائے جانے والے تمام نکات کا تفصیلی جواب متعلقہ دستاویزات کے ہمراہ ایف آئی اے کو بھجوا چکی ہے۔یادرہے کہ پشاور ہائی کورٹ بی آر ٹی کےخلاف مقدمات میں اب تک 3فیصلے سناچکی ہے، ایک رٹ پٹیشن پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے خارج کردی تھی جبکہ اسی درخواست پر نئے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے قومی احتساب بیورو کو تحقیقات کا حکم دیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا تھا، دلچسپ امر یہ ہے کہ اسی قسم کی تیسری رٹ پٹیشن پر پشاور ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیاہے ، پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس سید افسر شاہ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے7دسمبر2017کو بی آر ٹی کے خلاف دائر درخواستیں خارج کردی تھیں ، عدالت نے قرار دیا تھا کہ بی آر ٹی منصوبہ خیبر پختونخوا اربن ماس ٹرانزٹ2016کے تحت قانونی ہے تاہم عدالت نے پراجیکٹ کے تکنیکی اور مالیاتی امور پر کوئی رائے نہیں دی تھی عدالت کا کہنا تھا کہ یہ ماہرین کا کام ہے، عدالت اس پر کوئی رائے نہیں دے سکتی دلچسپ امر یہ ہے کہ نئے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل بنچ نے اسی رٹ پٹیشن پر17جولائی2018کو قومی احتساب بیورو کو 5ستمبر2018تک تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا، چیف جسٹس نے بی آر ٹی پراجیکٹ کو مشکوک قرار دیتے ہوئے بہت سے معاملات کی تحقیقات کا حکم دیا تھالیکن خیبر پختونخوا حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، عدالت عظمیٰ نے 5ستمبر2018کو پشاور ہائی کورٹ کا حکم معطل کردیا، چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے 3رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے نیب کو تحقیقات سے روک دیا، حکومت کا موقف تھا کہ پشاور ہائی کورٹ 7دسمبر2017کو یہ رٹ پٹیشن خارج کرچکی ہے اور اسے دوبارہ اس کو سننے کا اختیارنہیں تاہم تیسری مرتبہ چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ایک اوردرخواست پراس مرتبہ ایف آئی اے کو بی آر ٹی کی45دنوں میں تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے اور ملوث افراد کے خلاف کاروائی کے احکامات جاری کررکھے ہیں