فوج سے کشیدگی کی وجہ سابقہ حکومتوں کی کرپشن تھی، حکومت کو فوج سمیت تمام اداروں کی حمایت حاصل ہے، معاشی اصلاحات پر میڈیا نے شدید حملے کئے، امریکا نے افغانستان پر میرا موقف تسلیم کرلیا، عمران خان

January 23, 2020

Your browser doesnt support HTML5 video.

فوج سے کشیدگی کی وجہ سابقہ حکومتوں کی کرپشن تھی،وزیر اعظم عمران خان

ڈیووس (ایجنسیاں) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ماضی میں حکمرانوں نے ذاتی مفاد کےلئے اداروں کو تباہ کیا‘بڑے بڑے منصوبوں میں کمیشن لیا.

معیشت کو مصنوعی طورپر کنٹرول کیا اور دنیا سے جھوٹے وعدے کئے ‘فوج سے کشیدگی کی وجہ سابقہ حکومتوں کی کرپشن تھی‘سول اور عسکری قیادت میں مکمل ہم آہنگی ہے‘حکومت کو عسکری سمیت تمام اداروں کو حمایت حاصل ہے‘انڈیا تباہی کی راہ پر چل رہاہے۔

بھارت سے فوری جنگ کا خطرہ نہیں ‘ امریکا ‘ایران اور سعودی عرب سے کہاہے کہ جنگ ہمارے لئے مہلک ہوگی ‘امریکا نے افغانستان سے متعلق میرامؤقف مان لیا‘معاشی اصلاحات کے باعث میڈیا نے شدیدحملے کئے‘ سخت معاشی فیصلوں کی وجہ سے عوام کے سخت رویوں کاسامنا کرناپڑا‘کرپشن ، منی لانڈرنگ کے باعث پاکستان میں مہنگائی اور غربت بڑھی۔

2019ء پاکستان کا محفوظ ترین اور امن کا سال تھا‘ اس سال سرمایہ کاری میں 70 فیصد اضافہ ہوا‘پاکستان صرف امن کا شراکت دار ہے، ہم کبھی بھی کسی اور کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، امن و استحکام کے بغیر پاکستان کی معیشت ترقی نہیں کر سکتی۔

حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج گورننس کی بہتری کیلئے ریاستی اداروں میں اصلاحات لانا ہے اور اس سلسلہ میں کام جاری ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم‘ پاکستان اسٹریٹجی ڈائیلاگ اورانٹرنیشنل میڈیا کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کیاجبکہ عالمی اقتصادی فورم کے صدرکی جانب سے پاکستان کی تعریف کی گئی ۔

عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر عمران خان سے اردن کے وزیراعظم عمر رضاز ‘امریکی صدرٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکاٹرمپ ‘امریکی وزیرٹرانسپورٹ ایلیانے چاؤ‘ورلڈ اکنامک فورم کے ایگزیکٹو چیئرمین پروفیسر کلاز شواب ‘فیس بک کی چیف آپریٹنگ آفیسر شیرل سیند برگ‘چیئرپرسن ٹیلی نار گن ورسٹڈ اور چیف ایگزیکٹو آفیسر سیگیو بریک‘چیف ایگزیکٹو آفیسر گلوبل ویکسین الائنس سیٹھ برکلے‘آئی ایم ایف کی صدر کرسٹیالینا جورجیوا ‘ایشیائی ترقیاتی بینک کے نومنتخب صدر ماساتسوگو اساکاوا ‘یوٹیوب کی چیف ایگزیکٹو آفیسر سوسن ووجکی‘ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف‘سسٹم، ایپلیکیشنز، پراڈکٹ (سیپ) کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کرسٹین کلین نے بھی ملاقات کی۔

ملاقاتوں کے موقع پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانیز سید ذوالفقار عباس بخاری، سفیر عمومی برائے سرمایہ کاری علی جہانگیر صدیقی، گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر اور ڈیجیٹل پاکستان کی سربراہ تانیہ ایدروس بھی موجود تھیں۔

تفصیلات کے مطابق بدھ کو ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے ملک کی اقتصادی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ معاشی استحکام کیلئے حکومت کو مشکل فیصلے کرنے پڑے‘بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے ترقی اور خوشحالی حاصل کی جا سکتی ہے۔

میری حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج گورننس کی بہتری کیلئے ریاستی اداروں میں اصلاحات لانا ہے اور اس سلسلہ میں کام جاری ہے۔پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے‘آلودگی خاموش قاتل ہے ‘ہم نے پاکستان میں 10 ارب پودے لگانے کا منصوبہ شروع کیا ہے تاکہ ملک کو سرسبز اور ماحول دوست بنایا جا سکے۔

امن و استحکام کے بغیر پاکستان کی معیشت ترقی نہیں کر سکتی‘ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان 1980 میں افغان جہاد کا حصہ بنا اور افغانستان کو روس سے آزادی دلانے کے لیے جنگ میں امریکا کا اتحادی بنا اور ہم نے افغانستان میں گوریلا سرگرمیوں کے لیے انتہا پسند گروپوں کو تربیت دی۔

جب روس نے افغانستان چھوڑا تو ہمیں انتہا پسند گروپ ملے اور پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں پہلی مرتبہ ہمیں انتہا پسند، فرقہ ورانہ گروپ، کلاشنکوف کلچر ملا اور ہمارے ملک میں منشیات آئی جس سے چیزیں غلط ہونا شروع ہوئیں۔

افغان جنگ کے بعد پاکستان کو شدت پسند گروپوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جس سے پاکستان میں کلاشنکوف کلچر اور منشیات کو فروغ ملا اور ہماری ترقی کی رفتار رک گئی‘ 2019ءپاکستان کا محفوظ ترین اور امن کا سال تھا، ملک میں پہلی بار سیاحت کو زیادہ فروغ ملا، سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ افغان بحران کا کوئی فوجی حل نہیں، اسے صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے‘ہم چاہتے ہیں کہ طالبان اور افغان حکومت مذاکرات شروع کرے‘ ہم امریکا اور ایران میں کشیدگی ختم کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں‘امریکا ایران جنگ پوری دنیا کیلئے نقصان دہ ہو گی‘ہم ایران اور سعودی عرب کے مابین بھی کشیدگی کم کرنے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔

افغان جنگ کے باعث ہمارے معاشرے میں کلاشنکوف کا کلچر پیداہوا۔دریں اثناءڈیووس میں انٹرنیشنل میڈیا کونسل سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھاکہ بھارت اس وقت جس راہ پرچل رہا ہے وہ اسے تباہی کی جانب لے جائے گا‘کنٹرول لائن پر کشیدگی کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان فوری طور پر جنگ کا خطرہ نہیں ہے، خدشہ ہے کہ بھارت پلوامہ طرز کا حملہ کر کے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرا سکتا ہے،بھارت کے ساتھ تمام تنازعات پر امن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں اور میرے سب سے زیادہ دوست بھارت میں ہیں ‘نریندر مودی کی غلط پالیسیوں سے حالات خراب ہوتے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے امریکا سے وعدے کر کے غلطی کی، امریکا کو افغانستان میں ناکامی ہوئی تو اس نے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا‘ امریکا اور پاکستان کے تعلقات فروغ پا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پلوامہ حملے کے بعد میں نے کہا کہ ثبوت دیں تو کارروائی کریں گے‘ بھارت نے ثبوت دینے کی بجائے بمباری کر دی‘ پاکستان نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔

انہوں نے کہاکہ وسائل کی کمی سے نہیں بلکہ بدعنوانی سے ملک کمزور ہوتا ہے، ماضی میں حکمرانوں نے ذاتی مفاد کےلئے اداروں کو تباہ کیا، ماضی کے حکمرانوں نے ملک سے باہر قومی دولت لے جانے کےلئے ادارے کمزور کئے، بڑے بڑے منصوبوں میں حکمرانوں نے کمیشن لی، ماضی میں پاکستان کی معیشت کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کیا گیا۔

عمران خان نے کہا کہ سول اور عسکری قیادت میں مکمل ہم آہنگی ہے، ماضی کے حکمرانوں کے پیسہ بنانے سے سول اور عسکری قیادت میں اختلافات ہوئے، حکومت کو عسکری سمیت تمام اداروں کو حمایت حاصل ہے۔