زوال ہی زوال

January 26, 2020

عمر بیت چلی ہے زوال در زوال دیکھتے۔ تیرگی ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔ یہ بھی دیکھنا تھا کہ کرپشن کے خلاف اُبھری تحریکِانصاف اور عمران خان کی احتسابی مہم بھی مشرف بہ کرپشن ہوئی۔

جس ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی پاکستان میںجاری کرپشن بارے گزشتہ رپورٹوں کو گواہ بناکر عمران خان نے مخالف جماعتوں کے منہ پہ سیاہی ملی تھی، اب اُسی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے عمران خان کی بزعم خویش ’’شفاف ترین حکومت‘‘ کو گزشتہ دس برس میںکم ہوتی ہوئی کرپشن کے مقابلے میںکرپشن کو جانچنے کے پیمانوںپہ تین درجے گرا کر 117ویںپوزیشن سے 120ویںکرپٹ پوزیشن پہ دھکیل دیا ہے یعنی یہ حکومت ماضی کی حکومتوںسے بھی زیادہ کرپٹ ثابت ہوئی ہے۔

جن آٹھ میںسے پانچ جائزوںپہ یہ منفی صورت سامنے آئی ہے، اُس میںورلڈ اکنامک فورم کا ایگزیکٹو رائے سروے، قانون کی حکمرانی بارے ماہرانہ سروے، جمہوریت کی اقسام کے جائزے، تبدیلی کے انڈیکس اور کاروباری خطرات بارے رائے عامہ کے جائزے شامل ہیں۔

دُنیا میںبڑھتی کرپشن پہ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی منیجنگ ڈائریکٹر پیٹریسا موریرا نے کرپشن کے خاتمے سے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لئے سیاست اور بڑی دولت کے مابین گھنائونے گٹھ جوڑ کے خاتمے پہ زور دیا ہے۔

جن ممالک میں انتخابات اور سیاسی جماعتوں میںپیسے والوںکا زیادہ عمل دخل ہوگا وہاںپہ کرپشن کے خاتمے کے امکان اُتنے ہی کم ہیں۔ تحریکِ انصاف کی کرپشن مخالف تحریک کا بڑا المیہ یہ تھا کہ اس میںبلاحساب کتاب دھن دولت کا عمل دخل حد سے بڑھ گیا اور پانچ برس گزرنے کے باوجود بھی پی ٹی آئی اپنے مالی حساب دینے سے کتراتی رہی۔

جہاںوزیراعظم کے پاس ذاتی گزارے کے پیسے نہیں اور اب وہ بیرونی دورے بھی نجی سرمایہ داروںکے کھاتے میںکریںگے تو وہاںگندم اور شوگر اسکینڈل میںمبینہ طور پر ملوث لوگ ہی اس بابت تحقیقات کریںگے۔

کرپشن کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ شہریوںکو باخبر اور بااختیار بنایا جائے، سماجی کارکنوں، نشاندہی کرنے والوں اور صحافیوںکو تحفظ دیا جائے، چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو مضبوط کیا جائے، سیاسی فنڈنگ کنٹرول کی جائے، مفادات کے ٹکرائو کو روکا جائے، ریگولیٹری اتھارٹیز کو مضبوط کیا جائے، مافیاز کا احتساب ہو، بھرتیوں، ٹھیکوںاور سرکاری اخراجات میںشفافیت اور عوامی مفاد کو تحفظ دیا جائے اور عوام کی فیصلہ سازی میںبھرپور شرکت، اطلاعات تک بلاروک رسائی اور کاروبارِ حکومت میںشفافیت کو یقینی بنایا جائے لیکن یہ تبھی ممکن ہے اگر جمہوری، انسانی، سماجی اور انتظامی پیمانوںپہ ملک کا سیاسی و انتظامی نظام بھی جمہوری اُصولوںپہ پورا اُترتا ہو۔

خیر سے اکانومسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کی جانب سے جاری کردہ جمہوری انڈیکس میںبھی پاکستان پہلے سے نیچے چلا گیا ہے۔ اس کا شمار نہ تو ’’مکمل جمہوریت‘‘ اور نہ ہی ’’خراب جمہوریت‘‘ میںکیا گیا ہے۔ بلکہ پاکستان کو ایک ’’عجیب الخلقت‘‘ (Hybrid) حاکمیت یا ’’آمرانہ حکومت‘‘ کی صف میںشامل کیا گیا ہے۔ دس میںسے پاکستان کا مجموعی اسکور 4.25ہے اور اس کی 108ویںپوزیشن ہے۔

پاکستان کے انتخابی عمل اور تکثیریت پہ 6.08پوائنٹس سیاسی شراکت میں 2.2پوائنٹس، سیاسی کلچر میں2.50پوائنٹس اور شہری آزادیوںمیں 4.71پوائنٹس ہیں۔ 2013-14ء میںپیپلز پارٹی کی حکومت میں 4.64پوائنٹس، 2016 میںنواز حکومت میں 4.33پوائنٹس اور اب یہ مزید کم ہوکر 4.25رہ گئے ہیں۔ گویا جمہوری زوال کے ساتھ ساتھ کرپشن میںاضافہ ہوا ہے۔

یہ دو عالمی جائزے اُس وقت سامنے آئے جب وزیراعظم ورلڈ اکنامک فورم پہ کھڑے ہوکر کرپشن کے خلاف بڑے بڑے بھاشن دے رہے تھے اور اُن کے دورے کے اخراجات کوئی نجی طور پر ادا کر رہا تھا۔ بھلا ڈینگیںمارنے سے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کہاں بدلنے والا ہے جبکہ آپ خود ’’اسٹیٹس کو‘‘ کا کل پرزہ بنے ہوئے ہوںیا پھر کرپشن کے نظام میںگھرے ہوئے کرپٹ لوگوںکے پیسے کے بل بوتے پہ آپ کرپشن کا کیسے بال بیکا کر سکتے ہیں۔

جانے کس منہ سے یہ دعوے کیے جاتے رہے ہیںکہ اس حکومت کا کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ ایک ارب درختوں، مالم جبہ اور پشاور جنگلا بس اسکینڈلز کو چھوڑئیے، اب گندم اور چینی کے ہوشربا اسکینڈلوں پہ کوئی چپ کیسے رہے۔ گندم اور چینی میںوافر ملک اب اس کی درآمد پہ مجبور ہو گیا۔

کوئی یہ بھی تو اسٹیٹ بینک اور وزارتِخزانہ سے پوچھے کہ ساڑھے تیرہ فیصد کی شرحپہ دو فیصد شرحسود پہ حاصل کردہ ہاٹ منی سے 2.2ارب ڈالر قرضلینے والوںکا کون احتساب کرے گا۔ جو سلسلہ 2016سے 2018تک شرح مبادلہ کو مستحکم کرنے کے لئے چلا اور اس پر 24ارب ڈالرز پھونکے گئے، موجودہ اور گزشتہ حکومتوںسے اس کا حساب کون لے گا۔

پنجاب میںتو حکومت نام کی کوئی شے باقی نہیںتو اتحادیوںکو ساتھ رکھنے کے لئے رشوت کا بازار گرم ہوا چاہتا ہے، پختونخوا میںکرپشن کے خلاف حکمران جماعت میںبغاوت اور بلوچستان میںمالِغنیمت کی تقسیم پر حکمران جماعت بکھرنے کو ہے۔

پورے کرایہ داری کرپٹ نظام جہاںبیرونی طاقتیںبھی ریاست کو کرایہ پہ حاصل کرتی رہی ہوںکو موجودہ ٹٹ پونجی دست نگر سرمایہ داری کے پاکستانی ایڈیشن کو بدلے بنا کیسے کرپشن ختم ہو سکتی ہے۔ جب اسٹیٹس کو کی سیاسی معیشت و کرایہ داری ریاست ہو تو اسٹیٹس کو کی قوتیںجو اب سب ایک صفحہ پہ ہوںتو موجودہ عوام دشمن اور استحصالی و جبری نظام کو کیسے بدلا جا سکتا ہے۔

جو اُمید جمہوری عبور سے لگائی گئی تھی وہ اسٹیٹس کو کی پرانی قوتوںکی تاریخی موقع پرستی کے ہاتھوںدم توڑ بیٹھی ہے۔ اب نئی اور پرانی اسٹیٹس کو کی قوتیںہر تنخواہ پہ کام کرنے کو تیار ہیں تو عوام کی بھلائی، جمہوریت کی پارسائی اور قانون کی حکمرانی اور عوام کو جوابدہی کے لئے کوئی کس سے اُمید باندھے؟

بڑھتے ہمہ نو زوال اور پژمردہ جمہوری روایات کے ہوتے ہوئے وہ کونسی عوامی قوتیںہیںجو پھر سے جمہوری مزاحمت کی شمع روشن کریں؟ تمام طرح کی سیاسی قوتوںکی ناطاقتی کے پیچھے ان کا عوام سے کٹے ہونا ہے۔

منظم، متحرک اور باشعور عوام کے بغیر جمہوریت ممکن ہے نہ جمہوری حکمرانی۔ جمہوری عبور کا زوال ہوا اور اٹھارہویںترمیم کی جمہوری قوتیںپسپا ہوئیں۔

ایک طرف میڈیا آزاد رہا نہ شہری حقوق محفوظ رہے۔ آئین سے حقیقی عملداری کی جگہ طاقت کی بالادستی ریاست کے رگ و پے میںپھیلتی چلی گئی۔ دوسری طرف مہنگائی ہے کہ ہر روز لوگوں کو خطِغربت سے نیچے دھکیل رہی ہے۔ اوپر سے اقتصادی بحران ہے کہ بڑھتا اور طویل تر ہوتا جا رہا ہے۔ آئندہ دو برستوںمیںبھی شرحِنمو 3فیصد سے اوپر نہ جا پائے گی جس کا مطلب آبادی میںاضافے کے تناسب سے کسی طرح کی نمو کا نہ ہونا ہے۔

ایسے میںکسی ایک کے صفحے سے نکالے جانے اور کسی دوسرے کے صفحے پہ آنے سے کچھ بدلنے والا نہیں۔ ایسے میں یومِمحشر کے بپا ہونے کی اُمید کے سوا کوئی کیا سوچ سکتا ہے کہ

دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے