ریلوے کارکردگی؟

January 29, 2020

کوئی شک نہیں کہ ٹرین کا سفر ہمارے ہاں مقبول اور سستا ترین ذریعہ رہا اور اب بھی ہے لیکن دوسری جانب پہلے جیسا فعال نظام عنقا ہو چکا ہے۔ تقسیمِ ہند کے وقت (پاکستان ویسٹرن ریلوے کو) مجموعی طور پر مین اور برانچ لائنوں کا جو وسیع جال بچھا ہوا ملا، حالات کی ستم ظریفی کہئے کہ 72برسوں کے دوران یہ مزید پھیلنے کے بجائے سکڑتا چلا گیا اور آج پشاور سے کراچی اور کوئٹہ تا کراچی مین لائن کے سوا برانچ لائنوں کے بہت کم سیکشن ایسے ہوں گے جو اصل حالت میں موجود ہوں۔ متعدد بند ہو چکے ہیں، بعض مقامات پر سے لوگ ریل کی پٹڑیاں تک اکھاڑ کر لے گئے ہیں اور 22کروڑ آبادی کے اِس ملک میں ریل کے مسافروں کی تعداد میں الٹا کمی آتی گئی۔ ریلوے کی اِس بدحالی پر پیر کے روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کے دوران پاکستان ریلوے کی آڈٹ رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا ا اور ریمارکس دیےکہ ریلوے کرپٹ ترین ادارہ ہے، جس میں کوئی بھی چیز درست انداز میں نہیں چل رہی۔ پورا محکمہ سیاست میں پڑا ہے، مسافر اور مال گاڑیاں چل رہی ہیں نہ ریلوے اسٹیشن ٹھیک ہیں، نہ ٹریک نہ ہی سگنل، ریل کا ہر مسافر خطرے میں سفر کررہا ہے۔ اِس موقع پر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد، سیکریٹری اور چیف ایگزیکٹو ریلوے اپنے محکمہ کی کارکردگی کے حوالے سے کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے اور سابقہ حکومت کو ریلوے کی ناقص کارکردگی کا موردالزام ٹھہراتے رہےجس پر عدالتِ عظمیٰ نے حکم دیا کہ 2ہفتوں میں ریلوے سے متعلق جامع پلان پیش کریں۔ ریلوے کو بچانا کوئی مشکل کام نہیں۔ وزارتِ ریلوے پہلے ہی ریلوے کے نظام کی بہتری کیلئے کوشاں ہے۔ اُمید ہے کہ متعلقہ حکام اِس حوالے سے سخت اقدامات کرتے ہوئے محکمہ کی کارکردگی کو بہتر بنائیں گے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998