انتظار حسین.... معروف ادیب و افسانہ نگار

February 02, 2020

انتظار حسین نے تقسیم ہند اور ترقی پسند تحریک کی شکست و ریخت کے ماحول میںاپنا ادبی سفر روایتی راہ سے ہٹ کر جدیدیت کےپیراہن میںمشرقی اقدار سے لبریز، علامتی واستعاراتی، داستانوی اور دیومالائی جامِ اسلوب سے اردو افسانے کو مغربی جدید افسانے کے مقابل لا کھڑا کیا۔

تخلیقی جہات اور موضوعاتی دائرہ

انتظار حسین اپنے نام کی طرح سراپا انتظار تھے۔ کبھی گم شدہ مشرقی تہذیب کے حزنیے کی صورت تو کبھی شاہوں کے شہر میں مصاحبوں کی حالتِ زار پر وہ دکھی رہے اور اس کی تمام جھلکیاں انھوں نے انتہائی ایمان داری سے لفظوں کی صورت مصور کردیں۔ انتظار حسین کی تخلیقی جہات کو چار ادوار میں بانٹا جائے تو ان کے دبیز، طنز آمیز،متبسم اورہلکے لہجے میں معاشرتی یادیں، اخلاقی و روحانی زوال و مسائل، سماجی و سیاسی گراوٹ اور نفسیاتی و دیومالائی کہانیوں کے سرمئی سائے ڈولتے، لہراتے اورہمیں تنبیہ کرتے نظر آئیں گے کہ بے شک اہلِ فکر کے لیے مٹتی تہذیبوں میں اصلاح کے وافر مواقع موجود ہیں۔

ان کا موضوعاتی دائرہ کربِ ہجرت، اجنبیت، افسردگی ، بے گانگیت ،کرب و اضطراب ، صنعتی نظام ،مشرقی اقدار کی پامالی ، معاشرتی انتشار ، استحصال، شکست و ریخت، حالات کا جبر، ظاہری ہمدردی،محبت کی کمی اور نمود و نمائش تک محیط ہے، جس کے تحت ان کی ہر تخلیق ہمارے لیے راہ نما اور کلاسیک ادب کاسدابہاردرجہ رکھتی ہے۔

نقشِ حیات

اردو کے صاحبِ طرز افسانہ نگار،ناول نگار، تنقید نگار،داستان گو، تذکرہ نویس ،مترجم و مدیر اور کالم نگارانتظار حسین 7دسمبر 1923ء کو ہندوستان کے شہر دیبائی میں پیدا ہوئے جبکہ میرٹھ کالج سے بی اے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے لاہور کو اپنا آشیانہ بنایااور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کے بعد صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا۔

بعدازاں اردو روزناموں کی جدت اور روایتی قصیدہ خوانی کے انداز کو ختم کرتے ہوئے اردو صحافت کو ایک نئی جلا بخشی۔ ن م راشد کے’’ماورا‘‘ سے گہرا اثر قبول کرتے ہوئے انہی کی طرز پر آزاد نظمیں لکھ کرادبی زندگی کا آغاز شاعری سےکیا لیکن پھر انھیں نقل نہ بھائی اور اپنےفطری اظہار یعنی کہانی، افسانے اور داستان گوئی پر آکر درجہ کمال کو پہنچے۔

آخری ایام نمونیہ کے مرض میں علیل بسر کرتے ہوئے2فروری 2016ء کو 92سال کی عمر میں لاہور کے اسپتال میںدنیا فانی کو الوداع کہہ کر اپنے لافانی خیالات کی صورت ہمیں بیش قیمت اثاثہ دے گئے۔

بیسٹ سیلر رائٹر

انتظار حسین نے اپنے تخلیقی اثاثوں کے سارے رنگ منفرد انداز میں رقم کیے۔اردو ناول میں ان کی پہلی گم شدہ کتاب سے2014ء میں منظر عام پر آنے والے ان کے ناول سنگھاسن بتیسی تک، ’’آگے سمندر ہے‘‘ ایک ایسا ناول لکھ دیا جس میں بہت خوبی سے بتایا کہ نفرت کبھی راس نہیں آتی۔ انھوں نے اپنے قلمی سفر میں بچوں کے ادب کوبھی فراموش نہیں کیا۔ وہ اردو دنیا کے ان خوش نصیب ادبا میں سے تھے ،جن پر ان کی زندگی ہی میں دولت و شہرت کی دیوی مہربان رہی اور وہ مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ بیسٹ سیلر رائٹر کے مرتبے پر فائر رہے۔

انہوں نے اپنی آپ بیتی بھی ہمارے سامنے کھول کر بیان کردی،جو آنے والی نسل کے لیےمشعل راہ بنے گی۔انھوں نے فیس بک کی صورت سوشل میڈیا کا بھی ذائقہ چکھا، جہاں اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ تخلیق تخلیہ اور مطالعہ مانگتی ہے۔ایسے شور شرابے میں علیک سلیک اوراقربا پروری کے تو کئی سامان مہیا ہوسکتے ہیں،لیکن روح سے گفتگو کے لیے آپ کو سوشل میڈیا سے گریز کرنا ہوگا۔

تخلیقی اثاثہ

انتظار حسین کے تخلیقی اثاثے میںبچوں کی کہانیوں کے مجموعےالّو اور کوا، کلیلہ دمنہ، سارہ کی بہادری، لکڑہارے کا بیٹا جبکہ افسانوی مجموعےگلی کوچے، کنکری، آخری آدمی، شہرِ افسوس، کچھوے، خیمے سے دور، خالی پنجرہ، شہرزاد کے نام، نئی پرانی کہانیاں، سمندر اجنبی ہے، ہندوستان سے آخری خط ،جاتکا کہانیاں، گنی چنی کہانیاں،گلفام،انتظار حسین کے سترہ افسانے۔

اس کے علاوہ انھوں نے جو ناول لکھے ان میں پہلی گم شدہ کتاب،بستی، خاتون، تذکرہ، آگے سمندر ہے،چاند گہن،سنگھاسن بتیسی،دن اور داستان(ناولیٹ) نے مقبولیت کی سند حاصل کی۔ انھوں نے آپ بیتی و سوانح عمری میں چراغوں کا دھواں،جستجو کیا ہے؟،دلی جو ایک شہر تھا،اجمل اعظم (تذکرہ)،جل گرجے (داستان) جیسے مجموعے لکھے۔ ان کے افسانوی کلیات میں قصہ کہانیاں، مجموعہ انتظار حسین شامل ہیں۔

تراجم کی بات کی جائے تو نئی پود، ناؤ، سرخ تمغہ، ہماری بستی، سعید کی پراسرار زندگی، شکستہ ستون پر دھوپ ،فلسفے کی تشکیل، ماؤزے تنگ، اسلامی ثقافت کے نام سے اپنا کام پیش کیا۔ ان کے اردو اور انگریزی میںلکھے گئے کالمز کے کئی مجموعے بھی شائع ہوئے۔

اعزازات

انتظار حسین کو حکومت پاکستان کی جانب سے ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر اعزازات میں کمال فن ادب ( اکادمی ادبیات پاکستان)، آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز (حکومتِ فرانس ستمبر 2014ء) اور دیگر کے حقدار ٹھہرے۔