زلزلہ.... کیوں اور کیسے؟

February 03, 2020

ڈاکٹر سید اقبال محسن

گزشتہ دنوں ترکی میں آنے والے زلزلے اور اس سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کو دیکھتے ہوئے ۔بعض ذہنوں میں زلزلےکے بارے میں خوف ،خدشات اور سوالات پیدا ہوسکتے ہیں ۔چناں چہ اس بارے میں سائنسی حقائق جاننا ضروری ہے ۔ہمارے ملک میں زلزلے تواتر سے آتے رہتے ہیں 2005ء میں کشمیر میں آنے والا زلزلہ کون بھول سکتا ہے۔

زمین نے ایسی کروٹ لی کہ کئی ہزار افراد چشم زدن میں لقمہ اجل بن گئے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے۔ اس سے پہلے 1935ء میں رات کے اندھیروں میں کوئٹے کی زمین ایسی ہلی کہ نصف شہر کی آبادی سوتے ہوئے ابدی نیند کی آغوش میں چلی گئی۔ یہ تو بڑے زلزلے تھے لیکن چھوٹے اور درمیانے درجے کے زلزلے ہمارے ہاں کا معمول ہے کبھی سوات اور پشاور میں کبھی خضدار اور قلات میں اور کبھی اسلام آباد اور کراچی جیسے گنجان آباد شہروں میں۔

زلزلے کیوں آتے ہیں۔ یہ ہر کوئی جاننا چاہتا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ کیا زلزلے کی پیش گوئی ممکن ہے۔ ہماری زمین ساکت تو ہے نہیں۔ یہ اپنے محور کے گرد چوبیس گھنٹوں میں ایک چکر دن اور رات میں لگا تی ہے۔ محور پر گھومنے کے ساتھ ساتھ یہ سورج کے گرد بھی گھومتی ہے جو تین سو پینسٹھ دنوں میں پورا ہوتا ہے اور گرمی، سردی، خزاں اور بہار کے موسم تبدیل ہوتے ہیں۔ لیکن کرہ ٔارض پر ایک تیسری حرکت بھی ہورہی ہے یعنی اس کرے کی اوپری چٹانی پپڑی (Crust) اندرونی مادّے (Mantle) پر پھیلتا رہتا ہے۔ چٹانی پپڑی جس پر ہم بستے ہیں سات ٹکڑوں میں ہے۔ ہر ٹکڑا ایک چٹانی پلیٹ ہے۔ یہ پلیٹس جب ٹکراتی ہیں ، چٹانوں کی دراڑوں پر جو فالٹ کہلاتے ہیں اورکوئی حرکت ہوتی ہے تو اسے زلزلہ کہتے ہیں۔

توظاہر ہے کہ جو ممالک پلیٹوں کی سرحدوں پر واقع ہیں وہ زلزلوں کی زد میں ہوں گے۔ ہمارا ملک انڈین پلیٹ کی شمالی سرحد پر واقع ہے جہاں یوریشین پلیٹ کا سامنا ہے۔ دونوں پلیٹوں کے ٹکرانے سے ہی سلسلہ کوہ ہمالیہ وجود میں آیا۔ اور آج بھی انڈین پلیٹ آگے بڑھتی ہے اور یوریشین پلیٹ کے نیچے دھنس جاتی ہے۔ اوسطاً ایک سال میں ڈیڑھ انچ ہماری پلیٹ شمال کی جانب بڑھتی ہے۔ لیکن یہ صرف ایک اوسط ہے۔

ہوتا یوں ہے کہ پچاس یا سو سال تک پلیٹ پر کوئی حرکت نہیں ہوتی صرف اس پر دبائو بڑھتا رہتا ہے۔ لیکن جب دبائو ایک حد سے آگے بڑھ جاتا ہے تو ایک جھٹکے سے چٹانیں کئی فٹ آگے بڑھ جاتی ہیں اور جمع ہونے والی توانائی اچانک خارج ہوتی ہے۔ توانائی کا اخراج لہروں کی شکل میں ہوتا ہے جو سیسمک ویوز (Seismic Waves) کہلاتی ہیں اور آبادیوں اور عمارتوں کو تہہ و بالا کردیتی ہیں۔ لیکن زلزلے کے جھٹکوں سے کوئی نہیں مرتا۔ یہ تو بلڈنگیں ہیں جن کے گرنے سے ان کے ملبے میں لوگ دب کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

زلزلے صرف پاکستان میں ہی نہیں آتے۔ بڑی شدت کے زلزلے ایران اور ترکی میں بھی آئے ہیں ،کیوں کہ یہ تینوں ممالک زلزلے کی ایک ہی پٹی پر ہیں جو انڈین اور یوریشین پلیٹ کے ٹکرائو سے بنی ہے۔ اسی طرح چین اور جاپان ایک دوسری پٹی پر اور جنوبی امریکا کا ملک چلی اور شمالی امریکا کا کیلی فورنیا اور الاسکا تیسری پٹی پر۔ یہ سب وہ جگہیں ہیں جہاں دو پلٹیں ٹکرا رہی ہیں اور ان کے کناروں پر واقع فالٹ کے حرکت میں آنے سے جانے لیوا زلزلے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ زلزلے سے بچا کس طرح جائے۔ فی الحال ہم زلزلے کو روک نہیں سکتے لیکن اس سے پہنچنے والے جانی اور مالی نقصان کو بڑی حد تک کم کرسکتے ہیں۔ زلزلوں سے مدافعت کا پہلا قدم یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ ہمارے ملک کے کس حصے کو زلزلے سے کتنا نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

ہماری جو آبادیاں انڈین پلیٹ کی آخری شمالی سرحد پر ہیں۔ یعنی کشمیر اور سوات وہاں زلزلے تواتر سے اور شدید نوعیت کے آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی آئیں گے تو یہ ہمارا اونچے درجے کا رسک زون ہے اور ہم اسے زون فور کہتے ہیں۔ کوئٹہ، چمن اور مستونگ انڈین پلیٹ کی مغربی سرحد پر ہیں اس لئے یہ بھی ہائی رسک زون ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے بڑے حصے میں درمیانی درجے کے زلزلے کے خدشات ہیں اور شمالی پنجاب، اپر سندھ اور خاران زون ٹو میں رکھے جاتے ہیں۔ جہاں زلزلے کا اندیشہ بہت کم ہے وہ زون ون ہے اور وہ ہے تھر اور چولستان کے ریگستان اور اس سے ملحقہ شہر اور قصبات۔

اب دوسرا قدم بچائو کا یہ ہے کہ جو شہر جس رسک زون میں ہو وہاں کی عمارتیں ہمارے انجینئرز ایسے ڈیزائن کریں کہ وہ اس درجے کے متوقع زلزلے کو گرائے بغیر سہارا لے سکے۔ماہرین ارضیات کے مطابق اسے بلڈنگ کوڈ کی تعمیل کہتے ہیں۔ کوئٹے کی عمارتوں کا بلڈنگ کوڈ بڑا سخت ہوگا ،کیوں کہ یہ زون فور کا شہر ہے۔ زون تھری کے شہر اسلام آباد، راولپنڈی کا بلڈنگ کوڈ قدرے مختلف ہوگا اور کراچی کا بلڈنگ کوڈ اس سے کم، کیوں کہ اس کا شمار زون ٹو میں ہے۔

اب اگر عمارتیں اپنے کوڈ کے مطابق بنائی جائیں یعنی منزلوں کی تعداد محدود ہو ستونوں میں سریے کی مقدار مقررہ تعداد میں ڈالی جائے اور سریوں کو ہنرمندی اور اس احتیاط سے باندھا جائے جو بلڈنگ کوڈ میں دیا گیا ہے تو پھر یہ عمارتیں زلزلہ پروف نہ بھی ہوں تو بھی زلزلے کا مقابلہ ضرور کرسکیں گی۔ چاہے دراڑیں پڑ جائیں، پلاسٹر اکھڑ جائے لیکن چھتیں نہ گریں اور جانوں کا نقصان کم سے کم ہو۔

ان کے بعد جو سب سے اہم مسئلہ ہے وہ ہے پیش گوئی کا۔ ماہرین ارضیات نے اس ضمن میں کافی تحقیق کی ہے۔ ان فالٹ کے نقشے بنائے گئے ہیں جن پر کئی دفعہ زلزلے آچکے ہیں۔ ان کی مسلسل مانیٹرنگ کی گئی ہے۔ ان میں ہونے والی حرکت اور دبائو کے مطالعے سے پیش گوئی کرنا ممکن ہے کہ اس فالٹ پر کب ایسی حرکت ہوگی جو بڑے نقصان کا باعث بنے گی لیکن پیش گوئی کتنی بھی انہماک سے کی جائے اس میں غلطی کا امکان تو رہتا ہے۔ اب اگر کسی بڑے صنعتی اور آبادی والے شہر کے بارے میں اعلان کردیا جائے کہ یہاں اگلے سال فلاں وقت اس شدت کا زلزلہ آنے والا ہے۔

تو اس شہر کے تمام ترقیاتی منصوبے بند ہوجائیں گے اور کچھ نہ کچھ آبادی کا انخلا بھی ہوگا۔ تو پھر زلزلہ نہ بھی آئے تو ناقابل تلافی نقصان تو ہوجائے گا۔ اس لئے ماہرین ارضیات اس بات پر متفق ہیں کہ پیش گوئی کے بجائے پوری توجہ زلزلے سے آگاہی اور اس سے بچائو کی تیاری پر ہو۔ سب سے پہلے تو شہریوں کو معلوم ہو کہ ان کا شہر کس سیسمک رسک زون میں واقع ہے۔ پھر وہ اپنی تعمیرات کے دوران انجینئرز سے تقاضا کریں کہ تعمیر بلڈنگ کوڈ کی ہدایات کے مطابق ہورہی ہیں یا نہیں۔

زلزلے سے آگاہی کا تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ شہری آبادی کو معلوم ہو کہ زلزلے کی صورت میں انہیں کیا کرنا ہے۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ سراسیمہ نہ رہا جائے۔

زلزلے انسانی تاریخ کا حصہ ہیں۔ کئی شہر صفحہ ہستی سے زلزلوں کے باعث مٹ گئے۔ بہت سوں نے اس کا مقابلہ کیا ۔ آج اس جدید دور میںاسٹیل کا استعمال زیادہ ہو رہا ہے ،جس بلڈنگ میں اسٹیل کا استعمال زیادہ ہوگا وہ اتنی ہی لچکدار ہوگی ۔ اسٹیل سے تیار کردہ بلڈنگ بھی زلزلے کے واقع ہونے پر پنڈولم کی طرح جھولے گی، مگر زلزے کے گزر جانے پر واپس اپنے مقام پر اپنی بنیادوں پر کھڑی ہوگی۔زلزلے کی آگہی اور سنجیدگی سے بلڈنگ کوڈ کی تعمیل زلزلے سے بچائو کا سب سے موثر ہتھیار ہے۔