’’سلیکٹرز‘‘

February 03, 2020

خواجہ آصف کا ٹی وی چینل پر نشر ہونے والا تازہ انٹرویو تو میں نہیں دیکھ سکا لیکن ایک ٹاک شو میں اُن کے حوالے سے ایک تجزیہ کار نے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب کا کہنا ہے کہ سلیکٹرز کی جب وہ بات کرتے تھے تو اُن کا مطلب جہانگیر ترین اور شیخ رشید ہوتا تھا۔

چلیں! شکر ہے خواجہ صاحب نے یہ بات کلیئر کر دی ورنہ جو ہم سمجھتے تھے اُسے سوچ کر تو سلیکٹرز کا حوالہ دینے سے بھی ڈر لگتا تھا کہ کہیں کوئی ناراض نہ ہو جائے اور تجزیہ کرتے کرتے کہیں لینے کے دینے ہی نہ پڑ جائیں۔

اچھا ہوا ایک خوف تو دور ہوا اور کم از کم اب کھل کر سلیکٹرز کے بارے میں جو کہا سنا جا رہا ہے، اُس پر بات تو ہو سکتی ہے۔ امید ہے جہانگیر ترین اور شیخ رشید بُرا نہیں منائیں گے کیونکہ پاکستان اور اس کے مستقبل کا سوال ہے۔

ٹھیک ہے کہ سلیکٹرز ہی عمران خان اور تحریک انصاف کو اقتدار کے ایوانوں میں لے کر آئے لیکن نہ تو خواجہ آصف صاحب کی نون لیگ یا کسی دوسری سیاسی جماعت اور نہ ہی میڈیا سے تعلق رکھنے والے کسی فرد چاہے وہ تحریک انصاف اور عمران خان کی سیاست سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ کرتے ہوں، کو سلیکٹرز کی طرف دیکھنا چاہیے اور نہ اس بات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ خان صاحب کو تبدیل کریں یا ان کی حکومت کو چلتا کرکے کسی دوسرے کی حکومت بنوا دیں۔

سلیکٹرز کے کھیل کو کہیں نہ کہیں رُکنا ہے۔ اس کھیل نے ماضی میں پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا اور یہی وجہ ہے کہ ستّر سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم نے نہ کوئی سسٹم بنایا اور نہ ہی آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کا سبق سیکھا۔

جو آئین میں لکھا ہے وہ بہت اچھا ہے لیکن عمل نہیں ہو رہا، اور جو ہوتا رہا ہے وہ سب دیکھ کر دل روتا ہے۔

آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کہتے ہیں چلیں صدارتی نظام کا تجربہ کر لیں، کوئی کہتا ہے کہ قومی حکومت بنا دیں۔ کوئی پوچھے بھلا پہلے جو آئین کہتا ہے، جس نظام پر 1973ء کا آئین بناتے وقت ایک مثالی اتفاقِ رائے ہوا، اُس پر عمل تو کر کے دیکھیں، اُس کا نفاذ تو کرکے دیکھیں۔

کوئی حکومت چلتی نہیں، کسی حکومت کو چلنے نہیں دیا جاتا، حکومت غلط کام کرے تو اُس کے لیے پارلیمنٹ، عدلیہ کو چیک کا کردار ادا کرنا چاہیے لیکن پارلیمنٹ کو تو اتنا کمزور کر دیا گیا ہے کہ وہ آئینی طور پر ایک با اختیار ادارہ ہونے کے باوجود سلیکٹرز کی طرف ہی دیکھتی ہے، ہمارے پارلیمنٹ کے ممبران بھی سلیکٹرز کی فون کال پر ہی چلتے ہیں اور سلیکٹرز کے ساتھ تعلق کو اپنے لیے اعزاز اور طاقت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

یہاں ایک بار پھر میں اپنے قارئین کو باور کرواتا چلوں کہ جب میں سلیکٹرز کا حوالہ دیتا ہوں تو اسے خواجہ آصف کی وضاحت کے حوالے سے ہی دیکھا جائے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری بات کا جہانگیر ترین اور شیخ رشید پر کوئی اثر بھی ہوتا ہے یا نہیں لیکن میری اُن سے درخواست ہے کہ جو آج تک اُن یعنی سلیکٹرز کے نام پر ہوتا رہا، اُس کا جائزہ لیں، اُس پر غور کریں اور سچے دل سے یہ نتیجہ اخذ کریں کہ سلیکٹرز کے کھیل نے پاکستان کو کیا دیا ہے۔

آج اگر عمران خان سے ناخوش ہونے اور اُن کی حکومت کو چلتا کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں تو اسی بات کا فیصلہ کر لیں کہ خان صاحب کو کون لایا تھا اور گزشتہ سترہ، اٹھارہ مہینوں میں پاکستان کا کیا حال ہو چکا اور عوام کو کیسی کیسی مشکلات کا سامنا ہے۔

میری دونوں سلیکٹر حضرات سے درخواست ہے اب جیسے تیسے بھی خان صاحب آ گئے ہیں، اُنہیں چلنے دیں۔ ہاں! اگر آئینی طریقے سے اپوزیشن حکومت کے خلاف کوئی اقدام کرتی ہے تو ضرور کرے لیکن سلیکٹرز کو اس کھیل سے باہر ہی رہنا چاہیے کہ اسی میں پاکستان کی بھلائی ہے۔

الیکشن 2018ء مشکوک تھا، میں خان صاحب کی حکومتی پالیسیوں اور اُن کی کارکردگی سے بھی خوش نہیں لیکن اگر تحریک انصاف کی حکومت کو کسی سازش کے ذریعے ختم کیا جاتا ہے تو مجھے اس کا دکھ بھی ہوگا اور میں اس کی مخالفت بھی کروں گا۔ جہانگیر ترین اور شیخ رشید سے معذرت کے ساتھ!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)