تحریکِ آزادیٔ صحافت میں فاضل راہو کا کردار

February 06, 2020

گزشتہ کالم اس بات پر ختم ہوا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کراچی سے شروع ہونے والی آزادیٔ صحافت کی چوتھی تحریک کے دوران مجھ سمیت ملک بھر کے جو صحافی، طالبعلم، مزدور اور کسان گرفتاری کے بعد کراچی سینٹرل جیل میں رکھے گئے تھے، ان میں مجھ سمیت 20سے 25قیدیوں کو حیدرآباد سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا۔ کسی زمانے میں جب نیشنل عوامی پارٹی کے رہنمائوں اور کارکنوں پر حیدرآباد سازش کیس چل رہا تھا تو اس وقت کے سربراہِ مملکت ذوالفقار علی بھٹو کی خصوصی ہدایات پر ایک ایئر کنڈیشنڈ ’’ڈائننگ ہال‘‘ تعمیر کرایا گیا تھا۔ حیدرآباد سازش کیس کے قیدی اس ڈائننگ ہال میں کھانا کھاتے تھے۔ خوش نصیبی سے ہمیں بھی اسی ’’سیل‘‘ میں رکھا گیا مگر اس وقت وہاں ایئر کنڈیشنر نہیں چل رہا تھا۔ ہال خاصا وسیع تھا اور اس کی فرش بندی بہت خوبصورت تھی۔ بہرحال میں بات کر رہا تھا کہ جیسے ہی ہمیں اس سیل میں بند کیا گیا تو دس پندرہ منٹ کے اندر ایک جونیئر جیلر سیل کے سیخ دار دروازے پر آکر کھڑے ہوئے اور میرا نام پکارنے لگے۔ میں گیا، جیلر نے اپنا ہاتھ سلاخوں سے اندر کرکے مصافحہ کیا اور میرا ہاتھ اپنی طرف کھینچ کر ایک کاغذ تھمایا اور میرے کان میں کہنے لگا کہ یہ چٹ فاضل راہو نے آپ کیلئے دی ہے۔ آپ یہ پڑھ کر کاغذ پر اس کا جواب لکھ دیں، آدھے گھنٹے بعد میں چٹ لے جائوں گا۔ میں چٹ پڑھنے لگا۔ فاضل راہو نے لکھا تھا کہ مغل صاحب! ہم آپ کو حیدرآباد میں خوش آمدید کہتے ہیں، اب آپ لوگ ہمارے مہمان ہیں، آپ سے وقت بوقت رابطہ ہوتا رہے گا۔ فی الحال آپ سے گزارش ہے کہ فوری طور پر کاغذ پر وہ ساری چیزیں لکھیں جن کی آپ کو جیل میں ضرورت پڑے گی۔ یہ چیزیں آپ کو سیل کے اندر پہنچا دوں گا۔ میں نے ایک الگ کاغذ پر فاضل راہو کا تہِ دل سے شکریہ ادا کیا اور بڑے ادب سے گزارش کی کہ فاضل صاحب آپ کی بڑی مہربانی مگر ہماری قیادت نے آزادیٔ صحافت کی تحریک شروع کرتے وقت پالیسی تیار کی تھی کہ گرفتار ہونے والے جیل کے باہر سے کوئی چیز نہیں منگوائیں گے بلکہ جیل مینوئل کے تحت جو ملے گا، وہی استعمال کریں گے لہٰذا آپ کی مہربانی! ایسی کوئی زحمت نہ کیجئے گا۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے ایک سامان سے لدی بوری ہمارے سیل میں پہنچا دی۔ ایسی کون سی چیز تھی جو اس بوری میں نہیں تھی ہم حالانکہ حیدرآباد سینٹرل جیل میں بند تھے مگر ہمارے رابطے کسی نہ کسی طرح کراچی میں تحریک کے محرکین سے بھی تھے۔ خاص طور پر خیرپور جیل میں بند منہاج برنا سے اور باہر کی دنیا کے دیگر حلقوں سے بھی رابطے تھے۔ ان حلقوں سے ہمیں پتا چلا کہ اس وقت تک چونکہ تحریک کو 20، 25دن ہو چکے تھے تو ہماری وہ قیادت جو یہ تحریک چلا رہی تھی، کی اطلاعات کے مطابق اب اگر ایک اور ماہ تحریک چلتی تو مزید صحافیوں کی آمد شاید برائے نام رہ جاتی۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ تحریک کی محرک قیادت تین افراد یعنی پی ایف یو جے کے سربراہ نثار عثمانی، ایپنک کے سیکرٹری جنرل حفیظ راقب اور سینئر صحافی احفاظ الرحمٰن پر مشتمل تھی۔ یہ قیادت انڈر گرائونڈ رہ کر تحریک چلا رہی تھی۔ قیادت نے طے کیا کہ اگر اس تحریک کیلئے صحافیوں کی آمد ختم ہو جاتی ہے تو انڈر گرائونڈ کمیٹی کے تینوں ممبران عثمانی صاحب، راقب صاحب اور احفاظ الرحمٰن ریگل چوک پر خود گرفتاری پیش کریں گے۔

ان تینوں رہنمائوں نے ایک تفصیلی ڈیکلیریشن بھی تیار کیا تھا جو ان کی گرفتاری کے وقت پریس کیلئے جاری کیا جانا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ اگر یہ ڈیکلیریشن پریس میں آتا تو یہ پاکستان کی سیاسی اور صحافتی تاریخ کا ایک انمول اور مثالی ڈیکلیریشن ہوتا مگر یہ ڈیکلیریشن پریس کیلئے جاری کرنے کا موقع ہی نہیں آیا۔ یہ بات ملک بھر میں پھیل گئی کہ صحافیوں کی تعداد محدود ہونے کی وجہ سے یہ تحریک زیادہ عرصے تک چلنے کا امکان کم ہے لہٰذا سارے ملک سے اس سلسلے میں کئی حکمت عملیاں سامنے آنے لگیں۔ ایک ڈویلپمنٹ یہ ہوئی کہ عوامی تحریک کے فاضل راہو نے کراچی میں سینئر صحافیوں کو پیغام بھیجا کہ آپ اپنی تحریک بند نہ کریں جب تک حکومت صحافیوں کے آگے سرنڈر نہیں کرتی، عوامی تحریک روزانہ کسان، مزدور، طالبعلم حتیٰ کہ صحافی بھی گرفتاری کیلئے پیش کرے گی۔ ایک دوسری ڈویلپمنٹ یہ ہوئی کہ ایپنک کے چیئرمین منہاج برنا نے طے کیا کہ وہ بھوک ہڑتال شروع کریں گے، ساتھ ہی انہوں نے مختلف جیلوں میں قید سینئر صحافیوں کو بھی خطوط لکھ کر اپنے اس فیصلے سے آگاہ کیا۔ برنا صاحب کا ایک ایسا خط ایک دن مجھے بھی سینٹرل جیل حیدرآباد میں ارسال کیا گیا۔ اس خط میں برنا صاحب نے لکھا تھا کہ میں چاہوں گا کہ آپ کی جیل سے بھی کچھ لوگ رضا کارانہ طور پر بھوک ہڑتال پر بیٹھیں۔

(نوٹ:گزشتہ قسط میں جن صحافیوں کو کوڑے مارنےکا ذکر کیا گیا تھا، ان میں ناصر زیدی، اقبال جعفری اور خاور نعیم ہاشمی بھی شامل تھے)