متحدہ، پیپلز پارٹی کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے پر آمادہ؟

February 06, 2020

پی ٹی آئی کی حکومت کے سندھ کی دو بڑی جماعتوں پی پی پی اور ایم کیو ایم سے تعلقات معمول پر نہیں آسکے آئی جی سندھ کی تبدیلی کا معاملہ ہنوز وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان وجہ تنازع بناہوا ہے تو ایم کیو ایم کی دوبارہ کابینہ میں واپسی بھی حل طلب مسئلہ بنا ہوا ہے۔ گرچہ وفاقی حکومت نے اتحادیوں کو منانے اوراتحادی جماعتوں کے ساتھ رابطوں کے لیے 3 مختلف کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ رابطوں کا یہ عمل مزید مضبوط اور باضابطہ ہونا چاہیئے تاکہ تمام حکومتی اتحادیوں کے درمیان رابطوں میں کسی قسم کی کمی نہ رہے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم نے وزیردفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف کی مختلف کمیٹیاں تشکیل دینے کی ہدایت کی۔

ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے ساتھ رابطے کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی میں اسدعمر(کنوینر)اور ان کے ساتھ عمران اسماعیل ، فردوس شمیم نقوی اور حلیم عادل شیخ شامل ہیں۔تاہم گزشتہ ہفتے سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے ایک وفد کے ہمراہ ایم کیو ایم کے عارضی مرکز کادورہ کیا اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو دوبارہ کابینہ میں شمولیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تاہم ایم کیو ایم نے مطالبات تسلیم کئے بغیر دوبارہ کابینہ میں شمولیت سے انکار کردیا۔ کہاجارہا ہے کہ ایم کیو ایم نے مزید ایک اور وزارت کا مطالبہ کیا ہے لیکن ایم کیو ایم کے ذرائع نے اس بات کی تردید کی ہے ان کاکہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے مطالبات وزارت کے لیے نہیں عوام الناس کے لیے ہے۔

ایم کیو ایم کے عارضی مرکز پر ایم کیوایم کے رہنماؤں خالدمقبول صدیقی، عامرخان، امین الحق، کشور زہرا اوردیگر نے چیئرمین سینٹ اور ان کے وفدکا استقبال کیا۔اس موقع پر چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی حیثیت کو پاکستان کے لئے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان نے ہمیشہ پسے ہوئے طبقے کی حمایت کی ہے اور بلوچستان کے عوام کی حمایت پر ہم انکے شکر گزار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے مسائل کو پیچھے رکھ کر ملک کی ترقی کےلئے کام کریں، ہم قومی ایشو پر ایک ساتھ ہیں ۔ایم کیوایم یا کسی بھی پارٹی کے لیے میرا جو کردار ہوگا وہ ادا کروں گا ۔

خالد مقبول صدیقی کا وزارت سے علیحدہ ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ خالد مقبول صدیقی سمجھدار آدمی ہیں، ان کو چاہیے واپس آجائیں تاکہ لوگوں کی خدمت کابینہ میں بیٹھ کرکرسکیں۔چیئرمین سینیٹ نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم یا کسی بھی پارٹی کے لیے میرا جو کردار ہوگا وہ ادا کروں گا اور پاکستان کے لئے کسی بھی شخص کے گھر جانے کے لیے تیار ہوں،صادق سنجرانی نے ایم کیو ایم رہنما خالد مقبول صدیقی سے کہا کہ آپ کی کابینہ سے علیحدگی کی خبر سنی تو دلی افسوس ہوا ، انشا اللہ جلد ہماری پارٹی کے سربراہ جام کمال بھی ایم کیوایم پاکستان کے مرکز کا دورہ کرینگے۔ ڈاکٹر خالدمقبول صدیقی کو کابینہ میں واپسی کا سوچنا چاہیئے۔

اس صورتحال میں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ایم کیو ایم کو ایک بار پھر وفاقی حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہاہے کہ ایم کیو ایم کو سوچنا چاہیئے کہ وہ کیوں ایسی جماعت کا ساتھ دے رہی ہے جس نے کراچی کے شہریوں کو مشکلات میں ڈال دیا ہے، لوگوں کامعاشی قتل ہورہا ہے انہوں نے ایم کیو ایم کوپیشکش سے متعلق سوال پر چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہاکہ وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم کے بلدیاتی مسائل اور پولیس سمیت دیگر مطالبات حل نہیں کیے، ہمیں ملکر عوامی مسائل کے حل کے لیے کوششیں کرنی چاہیئے۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان کافی نظریاتی اختلافات ہیں لیکن جہاں تک کراچی کے شہریوں کے تحفظات ہیں میں سمجھتا ہوںکہ ہمیں ان مسائل کو ملکر حل کرنا چاہیئے۔

وہ وعدے جو عمران خان نے عوام کے ساتھ کئے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا گیا، ہم سے پانی کے منصوبوں پر سندھ حکومت کے ساتھ ملکر کام کرنے کا وعدہ کیا گیا لیکن وزیراعظم نے اس پریوٹرن لے لیا جبکہ نوکریوں اور گھر کے وعدے بھی پورے نہیں کئے گئے۔ اگروفاقی حکومت عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کررہی تو مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ ایم کیو ایم خودکہتی ہے کہ وہ کراچی کے عوام کے ساتھ ہے اور ان کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے اور یہ مانتی ہے کہ وفاقی حکومت نے کوئی کام نہیںکیا تو یہ اس کے ہاتھ میں ہے کہ وفاقی حکومت چھوڑے اور عوام کے مسائل حل کرے۔

بلاول بھٹو کی پیشکش کے جواب میں ایم کیو ایم کے رہنما کنورنوید جمیل نے کہاہے کہ پی پی پی کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ ممکن ہے۔پیپلزپارٹی کے ساتھ اپوزیشن میں رہ کر ورکنگ ریلیشن شپ قائم کی جاسکتی ہے پیپلزپارٹی کراچی سے 85 فیصد ریونیووصول کرتی ہے انہیں چاہیئے کہ وہ مسائل حل کرے، وزیراعظم عمران خان نے ہمیں4 ماہ قبل خود ایک اوروزارت دینے کا کہا تھا کنورنوید نے کہاکہ جب کراچی اور حیدرآباد کے مسائل حل نہیں ہوں گے تو ہمارا وزارت لینے کا کیا فائدہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ہم سے 2 معاہدے کئے جوبہادر آباد اور بنی گالا میں ہوئے تھے۔ انہوںنے ہمارے 12 مطالبات شہری مسائل کے حل پر اب تک عمل درآمدنہیں کیا۔

جبکہ وفاقی وزیراسدعمر نے وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ سے ملاقات میں یقین دہانی کرائی ہے کہ سندھ میں وفاق کی مالی اعانت والے منصوبوں کو جلد مکمل کیا جائے گا۔ دوسری طرف سندھ کے وزیراعلیٰ نے کہاہے کہ بعض منصوبوں پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہےاسدعمرنے کہاکہ حکومت کے فور منصوبے کی جلد تکمیل کے حوالے سے مکمل تعاون کرے گی۔ ترقیاتی امور پر سیاست نہیں ہوگی۔ منصوبوں کی تیزی سے تکمیل یقینی بنانے کے لیے ایس آئی ڈی سی ایل بورڈ کے اجلاس باقاعدگی سے ہورہے ہیں۔

کراچی سرکلر ریلوے اہم منصوبہ ہے۔منصوبہ بندی کمیشن اور ای اے ڈی کو ہدایت کی گئی ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے پر عملدرآمد کے حوالے سے کام کی رفتار تیز کی جائے وفاقی حکومت کے فور اور دیگر اہم منصوبوں کے لیے سندھ کی بھرپور مدد کرے گی۔ سیدمرادعلی شاہ نے کہاکہ سندھ حکومت منصوبوں کی بروقت تکمیل کے سلسلے میں وفاق سے مکمل تعاون کرے گی۔دوسری جانب آئی جی سندھ کی تبدیلی کے حوالے سے پی پی پی اور پی ٹی آئی میں ڈیڈلاک برقرار ہے ، ممکن ہے کہ آئی جی سندھ کی تبدیلی کافیصلہ ہوجائے اس ضمن میں وفاق نے دس نام شارٹ لسٹ کئے ہیں جبکہ سندھ حکومت نے کہاہے کہ ہم مزید نام نہیں دیں گے۔