پولیو اور دانتوں کا مہنگا علاج

February 09, 2020

پاکستان میں پولیو کے کیسز میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں پنجاب اور کراچی میں چار چار کیسز سامنے آئے ہیں۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پولیو کیسز کی تعداد 150سے زائد ہو گئی ہے۔ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں صرف تین ممالک ایسے ہیں جہاں پولیو کے کیسز سامنے آئے ہیں، ایک پاکستان، دوسرا افغانستان اور تیسرا نائیجیریا۔

حکومت کروڑوں خرچ کرکے پولیو کی ویکسین منگواتی ہے اور پولیو کے قطرے پلانے کیلئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دیتی ہے۔ کئی بار تو پولیو کی ٹیمیوں پر قاتلانہ حملے بھی ہو چکے ہیں مگر پھر بھی وہ اپنا کام جاری رکھتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پولیو کے قطرے پلانے کے باوجود پولیو کے کیسز کیوں ہو رہے ہیں؟ کیا پولیو کے قطرے مقررہ مقدار اور وقت پر نہیں پلائے جاتے؟ یا پھر ویکسین کو مقررہ درجہ حرارت پر محفوظ نہیں رکھا جاتا؟ یا پھر ہمارے پانی میں پولیو کا وائرس پایا جاتا ہے؟ جیسا کہ ابھی کچھ عرصہ قبل اخبارات میں خبر آئی کہ لاہور کے بعض علاقوں کے پانی میں پولیو کا وائرس پایا گیا ہے۔ کیا حکومت نے اس خبر کے آنے کے بعد ان علاقوں کے پانی کو بہتر کرنے یا اس پانی سے پولیو کے وائرس کو ختم کرنے کیلئے کچھ کیا؟

کیا ہمارے لوگ مقررہ خوراک نہیں پیتے یا ایک مرتبہ پولیو کے قطرے پلا دیے اور باقی کی خوراکیں نہ دیں۔ اب تک کسی بھی حکومت نے اس حوالے سے کوئی تحقیقات نہیں کیں کہ آخر پولیو کے کیسز کیوں ہو رہے ہیں۔ اسے تحقیقات کرنا چاہئیں کیونکہ یہ ایک عوامی مسئلہ ہے۔ پولیو کا مطلب ہے زندگی بھر کی معذوری۔ دنیا کے تمام ممالک میں وقت کے ساتھ ساتھ شعبۂ صحت میں بہتری اور جدید طریقہ علاج آ رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں شعبۂ صحت پہلے سے زیادہ خراب ہو رہا ہے۔ اس میں موجودہ حکومت کا کوئی قصور نہیں، اصل میں پچھلے 72برس میں آنے والی ہر حکومت نے شعبۂ صحت اور تعلیم کو بہتر بنانے کے دعوے تو بہت کیے لیکن عملاً دونوں شعبے ہی ایک ایسی تجربہ گاہ بنے رہے جس میں ہر کسی نے اپنی سمجھ کے مطابق تجربے کیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شعبۂ صحت کے تمام مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں۔ مریضوں کو ہر قسم کی ادویات مفت فراہم کی جائیں۔ ظاہر ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں صرف وہی مریض آتے ہیں جو علاج کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ حکومت کو چاہئے کہ تمام کلینیکل ٹیسٹ فری کرے اور جو رقم زکوٰۃ اور دیگر ذرائع سے حاصل ہوتی ہے، وہ مریضوں کے علاج معالجے پر خرچ کرے تاکہ سب کو سہولت میسر ہو۔ پولیو کی ویکسین جن آئس باکسز میں رکھی جاتی ہے، ان کا بھی جائزہ لیا جائے کہ ان میں ویکسین کتنے گھنٹے محفوظ رہ سکتی ہے۔ اگر ہمیں قوم کو پولیو کی معذوری سے بچانا ہے تو حکومت کو بڑے سخت اور ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔

پاکستان میں اس وقت دانتوں کا علاج پرائیوٹ سیکٹر میں انتہائی مہنگا ہو گیا ہے۔ بعض ڈاکٹروں نے اپنی مرضی کے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں۔ ایک ہی طرح کے علاج کے ایک ڈاکٹر تین سے پانچ ہزار فیس لے رہا ہے جبکہ دوسرا ڈاکٹر 18سے 25ہزار۔ دانتوں کو درست اور سیدھا کرنے کے لئے بریسز (تار) لگانے کے پچاس ہزار سے تین لاکھ روپے لیے جاتے ہیں۔ دوسری جانب سرکاری اسپتالوں میں بڑی معمولی نوعیت کا علاج میسر ہے، وہاں پیچیدہ اور دانتوں کو بہتر بنانے کے تمام علاج نہیں ہوتے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس حوالے سے کوئی پالیسی بنائے، ایک ہی طرح کی تعلیمی قابلیت اور تجربہ رکھنے والے ڈینٹل سرجنوں کی فیسیں بھی ایک ہی طرح کی ہونی چاہئیں۔ اس سلسلے میں حکومت سروے کرے اور ڈینٹل سرجنوں کے پرائیوٹ سیکٹرز میں ریٹ مقرر کرے۔ ایک ریاست کے اندر حکومت کا کام ہے کہ وہ پرائیوٹ سیکٹر میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اور ان کی فیسیوں کا بھی جائزہ لے۔ اگر ہیلتھ کیئر کمیشن اتائیوں کو پکڑ سکتا ہے تو ان کا یہ بھی کام ہے کہ ڈاکٹرز کی فیسیوں پر بھی نظر رکھیں۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے ڈاکٹر محمد اجمل خان کے زیر نگرانی بڑا زبردست کام کیا، اب ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد پچھلے ایک سال سے اس ادارے کی کارکردگی نہ ہونے کا برابر رہ گئی ہے۔ کبھی یہ ادارہ ڈاکٹروں، پرائیویٹ اسپتالوں اور کلینکوں تک کو چیک کرتا تھا بلکہ پرائیویٹ اسپتالوں کے کمروں کے کرائے تک کا تعین کرتا تھا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہڈیوں کا ایک ڈاکٹر پانچ ہزار روپے ہر وزٹ کے لیتا ہے اور بعض ایسی ادویات لکھ دیتا ہے جو صرف اُسی کی کلینک سے ملتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کوئی متوسط طبقے کا فرد کسی پرائیویٹ دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے نہیں جا سکتا اور تمام سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز توجہ اپنے پرائیویٹ کلینکس پر دیتے ہیں۔وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد سے ڈاکٹر اور مریضوں کی بہت سی توقعات وابستہ ہیں کیونکہ انہوں نے خود ایک مدت تک پی ایم اے کے پلیٹ فارم سے ڈاکٹروں کے حقوق، دو نمبر ادویات اور صحت کے شعبے کی بہتری کیلئے آواز بلند کی ہے۔ آج شعبۂ صحت ان کی جانب نظر لگائے بیٹھا ہے کہ وہ اس شعبے کو ایک آئیڈیل شعبہ بنانے کیلئے اقدامات کریں۔ اس ملک میں غریب عوام کے لیے کچھ نہیں، صحت کی سہولتیں تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پرائیویٹ ڈینٹل کلینک کا تو یہ حال ہو چکا ہے کہ غریب اور متوسط طبقہ ان کلینک سے علاج تو دور انکے پاس سے گزرنے کا بھی نہیں سوچ سکتا۔ پاکستان میں اگر صحت کا شعبہ بہتر ہو جائے تو پچاس فیصد بیماریاں ختم ہو جائیں گی باقی بیماریاں ہاتھ دھونے، اچھی خوراک اور ایک نمبر ادویات سے ختم ہو جائیں گی۔