’’جمشید نسروانجی ‘‘ جنہیں بابائے کراچی کہا جاتا تھا

February 13, 2020

اختر حسین

جمشید نسروانجی ہیں، جنھیں بابائے کراچی کہا جاتا تھا۔ ان کا پورا نام جمشید نسروانجی رستم جی مہتا تھا۔ وہ 1886 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی عوامی خدمات کا آغاز 1915 سے کیا۔ گل حسن کلمتی اپنی کتاب "سندھ جا لافانی کردار" (سندھ کے لافانی کردار) میں لکھتے ہیں کہ 1919 میں جب انفلوائنزا کی بیماری نے کراچی میں وبا کی شکل اختیار کی تو انھوں نے دن رات عوام کی خدمت کی، جس کے نتیجے میں وہ عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ وہ 1922 میں کراچی میونسپلٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ اور اکتوبر 1932 تک اس عہدے پر کام کرتے رہے۔یہ کراچی کے باسیوں سے ان کی محبت کی دلیل ہے ۔

کراچی شہر میں بسنے والے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کا کوئی شمار نہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ کسی جانور کو بھی دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ معروف ادیب اجمل کمال اپنی مرتبہ کتاب ’کراچی کی کہانی‘ میں جمشید نسروانجی کے بارے میں پیر علی احمد راشدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ؛ "میں (علی محمد راشدی) 1930 کے آس پاس میں بندر روڈ (حالیہ ایم اے جناح روڈ) سے گذر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتہ پیدل ایک گدھے کو لے کر جانوروں کے اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر کار ڈرائیور پیچھے چلاتا آرہا تھا۔ تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔

جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹی کرائی۔ ڈاکٹر کو بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کریں، تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے۔ چارے کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرادی۔ دوسری طرف گدھے کے مالک کو ہدایت کی کہ جب تک گدھا پوری طرح صحت یاب نہ ہو جائے اور گاڑی میں جوتنے کے قابل نہ ہو جائے۔

اُس وقت تک وہ اپنی مزدوری کا حساب ان سے لیا کرے۔ ‘‘یہ کہتے ہی کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔ جناب یہ تو جمشید کے دور میں شہر میں جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک حقیقت تھی۔ آج اسی کراچی میں حال یہ ہے کہ اگر کوئی انسان کسی حادثے میں زخمی ہو جائے تو اُسے اسپتال پہنچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ کیا لوگ تھے جو کراچی شہر میں بیمار یا زخمی جانوروں کا بھی خیال رکھتے تھے۔

جمشید یادگاری کمیٹی کی 1954 میں چھپی کتاب میں لکھا ہے کہ جمشید نسروانجی ہر صبح یہ دعا کرتے تھے؛ اے خدا میں ہر روز تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں اے خدا مجھے کارآمد بنا اے خدا مجھے بے ضرر بنا اے خدا مجھے شفاف رکھ اے خدا مجھے اپنا ذریعہ بنا میں یہی دعا کرتا ہوں۔ جئے سندھ تحریک کے بانی علیحدگی پسند رہنما سائیں جی ایم سید اپنی کتاب’’ 'جنب گزریم جن سیں‘‘ (میری زندگی کے ہم سفر) میں جمشید نسروانجی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی والی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔ جداگانہ انتحابات کی وجہ سے کامیابی کے لیے ان کا انحصار ہندو ووٹرز پر ہوتا تھا۔ لیکن انھوں نے اس کی پرواہ نہ کی۔

سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بعد 1937 میں وہ ضلع دادو سے سندھ اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور آزاد حیثیت میں اسمبلی کے رکن رہے۔ سندھ اسمبلی کے ہندو اراکین نے چھوٹی بڑی باتوں پر حکومت کی حمایت اور مخالفت شروع کی۔ چوں کہ وہ ہندو ووٹرز کی وجہ سے منتخب ہوئے تھے۔ اس لیے ان سے تقاضا کیا جانے لگا کہ وہ ہندو اراکین کی حمایت کریں۔ اس بات پر ناراض ہو کر انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔

اس وقت کی سندھی سیاست میں یہ بڑی اہم بات تھی۔ اکثر مسلم اراکین ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفاد کی قربانی دے رہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جب انہوں نے محسوس کیا کہ غیر مسلم اور ایمان دار کارکنوں کے لیے ملکی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ سیاست سے دستبردار ہو گئے۔ جمشید نسروانجی صحت عامّہ کے حوالے سے خاص طور پر فکر مند رہتے تھے۔ انھوں نے اپنی والدہ گل بائی کے نام سے صدر میں جہانگیر پارک کے قریب ایک میٹرنیٹی ہوم قائم کیا۔

وہ سیاست کو بُرا نہیں سمجھتے تھے لیکن سیاست میں تشدد کو بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ اُن کی پوری زندگی سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ سیاست کو ہی تبدیلی کا ذریعہ مانتے تھے۔ وہ ایک خدا ترس انسان تھے اور ان کا ماننا تھا کہ لڑائی جھگڑے سے مسئلے حل نہیں ہو سکتے۔ اس معاملے میں وہ مہاتما گاندھی سے بہت متاثر تھے.

تقسیم ہند سے قبل انگریزوں کی حکومت کے خلاف پورے ہندوستان میں ہڑتال کا اعلان کیا گیا۔ یہ ہڑتال کراچی میں بھی ہوئی اس موقعے پر دکانیں اور مارکیٹیں بند رہیں۔ پولیس نے ہڑتال کو ناکام بنانے کے لیے کاروائی کی اور ایک بچے کو گرفتار کر لیا۔ پولیس اس نتیجے پر پہنچ گئی تھی کہ ہجوم کو متشر کرنے کے لیے گولی چلائی جائے۔ عین اس موقع پر جمشید نسروانجی وہاں پہنچ گئے اور ہجوم اور پولیس کے بیچ آ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کون ہے جو بچے کو آزاد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انھوں نے کہا کہ سب سے پہلے پولیس گولی انھیں مارے۔ ان کی جرات اور بہادری نے پوری صورت حال کو قابو میں کر لیا۔

پولیس پیچھے ہٹ گئی۔ بچے کی رہائی کی وجہ سے ہجوم بھی منتشر ہو گیا۔ یہ تھے جمشید۔ حاتم علوی یادگاری کتاب میں شائع اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ جس وقت جمشید نسروانجی نے کراچی میونسپلٹی کی صدارت سنبھالی، اُس وقت کراچی کی سڑکیں پکی نہیں ہوتی تھیں۔ اُن کے دور میں ان سڑکوں کی لمبائی چودہ میل تھی لیکن جب جمشید نے اپنا عہدہ چھوڑا تو اُس وقت کراچی میں 76 میل لمبی پکی سڑکیں موجود تھیں۔ ان سڑکوں پر تارکول کی تہہ بچھائی گئی تھی، جس کے سبب یہ سڑکیں چمکتی ہوئی نظر آتی تھیں۔

تقسیم کے وقت تک کراچی کی سڑکیں بالکل برابر تھیں۔ ان سڑکوں پر گڑھوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ آج ان سڑکوں کی جو حالت ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

حاتم علوی اپنے مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ کراچی میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا آغاز باقاعدہ ان ہی کے دور میں ہوا۔ جب آرٹلری میدان کے علاقے میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا کام مکمل ہوتا، اس وقت کے قوانین کے مطابق کسی بھی ادارے کو پانی کے استعمال کا ٹیکس عمارت کی تعمیر پر آنے والی لاگت کے حساب سے ادا کرنا ہوتا تھا۔ انہی دنوں آرٹلری میدان میں واقع چیف کورٹ (سابقہ سپریم کورٹ، موجودہ سندھ ہائی کورٹ) کی عمارت کو بھی پانی فراہم کیا جانے لگا۔

چیف کورٹ کی عمارت 30 لاکھ میں مکمل ہوئی تھی۔ اس حساب سے چیف کورٹ کو 7 فیصد ٹیکس ادا کرنا تھا۔ اس وقت کی بیوروکریسی اتنا بھاری ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ بلاآخر جمشید نسروانجی نے ٹیکس نہ ادا کرنے کی صورت میں چیف کورٹ کا پانی بند کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ یہ اطلاع ملتے ہی نوکر شاہی میں ایک ہلچل مچ گئی۔ مبمئی سے ایک سرکاری افسر دوڑا دوڑا کراچی پہنچا۔ آخر کار یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کر لیا گیا۔