کیا جمشید دستی کی گرفتاری واقعی جرم پر ہوئی یا سیاسی انتقام پر

February 13, 2020

پہلی بار حکومت مہنگائی کے ہاتھوں زچ ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اشیائے ضروریہ کے نرخ بڑھا دیئے جاتے ہیں اور اس کا کوئی ٹھوس جواز بھی نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح دراز ہوتا گیا تو حکومت کے خلاف عوام کے اندر جو ابال پیدا ہورہا ہے وہ ایک بہت بڑے احتجاج کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے۔ اگرچہ اب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مہنگائی کے ایشو پر احتجاج کرنے کی حکمت اختیار کی ہے تاہم اس وقت دونوں جماعتوں کی جو عوام میں عدم مقبولیت ہے اور جس طرح یہ عوام سے کٹ چکی ہیں اس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ مہنگائی کے ایشو پر بھی عوام کو متحرک کرسکیں۔

جب آٹے کا بحران آیا تو سب حیران تھے کہ بیٹھے بٹھائے اتنی قلت کیسے پیدا ہوگئی کہ آٹا مارکیٹ سے غائب ہوگیا اور اس کی قیمت تقریباً دوگنا ہوگئی ۔ اب وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ٹوئیٹس میں بار بار اس بات کا اظہار کیا ہے کہ جو لوگ آٹے کے بحران میں ملوث ہیں انہیں سخت سزائوں کا سامنا کرنا پڑے گا ، لیکن یہ بات اتنی آسان اس لئے نظر نہیں آتی کہ جن لوگوں کے خلاف اس بحران میں ملوث ہونے کی وجہ سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں ان کا تعلق خود حکومتی حلقوں سے ہے۔

کہا یہ جارہا ہے کہ فروری کے دوران ہی وزیراعظم ایسے سخت اقدامات اٹھانے والے ہیں جن سے مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والوں کے خلاف قانون کا شکنجہ کس دیا جائے گا۔ ادھر وزیر اعظم اپنے اقتصادی مشیروں کو یہ ہدایت بھی دے چکے ہیں کہ بنیادی ضروریات اشیا کی فراہمی کو ہر صورت عوام کی پہنچ میں لایا جائے ۔گویا مہنگائی ایک ایسا عنصر بن گئی ہے جو حکومت کی اصل اپوزیشن ہے اور جس کی وجہ سے حکومت کی مخالف سیاسی جماعتیں کو کچھ کئے بغیر وہ سیاسی نتائج حاصل کررہی ہیں جن کی وہ خواہش مند ہیں۔

کیا موجودہ معاشی حالات میں حکومت عوام کو کوئی ریلیف دینے میں کامیاب ہوسکے گی ؟ کیا صرف وزیر اعظم کے سخت اقدامات کی وجہ سے مہنگائی پر قابو پایا جاسکے گا ؟ کسی مربوط انتظام اور لائحہ عمل کے بغیر عوام کو مہنگائی کے عفریت سے نجات مل سکتی ہے ؟ کیا آئی ایم ایف کے سخت مطالبات کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر جو دبائو ہے اس کا خاتمہ صرف حکومت کے سخت اقدامات سے ممکن ہے ؟ جب مارکیٹ میں اشیا ہی موجود نہیں ہوں گی تو ان کی سستے داموں فراہمی کیسے ممکن بنائی جاسکے گی ؟

مثلاً چینی بنانے والے کارخانوں کے مالکان نے یہ مؤقف اختیار کررکھا ہے کہ ٹیکسوں اور گنے کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے چینی کے نرخ بڑھے ہیں ، جب مالکان خود یہ تسلیم کررہے ہیں کہ قیمتیں بڑھ چکی ہیں تو پھر حکومت اپنے اقدامات سے انہیں کیسے کم کرسکتی ہے ؟ تاوقتیکہ چینی پر سیلز ٹیکس میں کمی نہ لائے جائے یا بجلی اور گیس کی قیمتوں میں شوگر ملوں کے لئے ردوبدل کرکے انہیں قیمتیں کم کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔

ادھر ایک بار پھر کامیابی کی امید لگا کر مولانا فضل الرحمن نے حکومت کے خلاف اپنی تحریک کا شیڈول جاری کردیا ہے اور 22 فروری کو کراچی میں پہلے جلسے کا اعلان کیا ہے ، ادھر مذہبی جماعتوں اور کارکنوں کو متحرک کرنے کے لئے جے یو آئی کے رہنما سرگرم نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں سینیٹر حمد اللہ ملتان کے دورے پر آئے اور میڈیا سے ملاقات کئے بغیر انہوں نے مختلف رہنمائوں اور کارکنوں سے رابطے کئے اور انہیں حکومت کے خلاف تحریک کے دوسرے مرحلے کے بارے میں آگاہ کیا ۔

جنوبی پنجاب میں بھی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لئے لائحہ عمل بنایا جارہا ہے ۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے شیڈول میں اس کا اعلان ہی نہیں کیا لیکن امکان یہی ہے کہ مارچ کے وسط میں ملتان میں بھی ایک بڑا جلسہ حکومت کے خلاف منعقد کیا جاسکتا ہے جس میں جنوبی پنجاب کے تمام شہروں سے جے یو آئی ، جمعیت علمائے پاکستان اور دیگر ہم خیال جماعتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں کو ملتان پہنچنے کے لئے کہا جائے گا ۔

سابق ایم این اے جمشید دستی مولانا فضل الرحمن کے پہلے دھرنے میں بھی شامل ہوئے تھے اس بار بھی ان کی شمولیت کا امکان ہے، بشرطیکہ ان کی ضمانت ہوئی ہو اور وہ اس مقدمے سے رہا ہونے میں کامیاب ہوگئے جو مبینہ طور پر بلوچستان کی ایک اعلیٰ شخصیت کے دبائو پر ان کے خلاف درج کیا گیا اور جس میں ان کی ملتان میں چھاپہ مار کر گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ یہ مقدمہ ایک آئل ٹینکر کو زبردستی ہتھیانے کے الزام میں درج کیا گیا۔ اس آئل ٹینکر میں 45لاکھ کا ڈیزل موجود تھا ۔ ڈکیتی کی دفعات کے تحت درج ہونے والے اس مقدمے کو جمشید دستی کی گرفتاری کئی سوالات چھوڑ گئی ہے ۔

یہ مقدمہ واردات کے کئی روز بعد درج کیا گیا اور اس کی وجہ مدعی نے یہ بتائی ہے کہ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ آئل ٹینکر جو افراد لے گئے ہیں وہ کون ہیں ۔ پرچہ میں درج تفصیلات کے مطابق جب اس نے چند دن بعد ان لوگوں کو مظفر گڑھ کے نزدیک ایک ہوٹل پر بیٹھے دیکھا تو پہچان لیا اور ان سے آئل ٹینکر واپس کرنے کا مطالبہ کیا، جو دھمکیوں پر اتر آئے جس کی وجہ سے اسے تھانے میں مقدمہ درج کرانا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ جب اس سے زبردستی یہ آئل ٹینکر چھینا گیا تھا تو اس نے فوراً پولیس سے رجوع کیوں نہیں کیا ؟

اور کیوں اتنے دن تاخیر کے بعد یہ مقدمہ درج کرایا، مدعی کا تعلق سریاب روڈ کوئٹہ سے ہے اور ذرائع کے مطابق یہ آئل ٹینکر کوئٹہ کی جس شخصیت کا ہے وہ بلوچستان حکومت میں خاصا اثرورسوخ رکھتا ہے، اس کے دبائو پر یہ مقدمہ درج ہوا ہے اور جمشید دستی کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ کیا یہ گرفتاری واقعی کسی جرم پر ہوئی ہے یا ان سے سیاسی انتقام لیاگیاہے ؟