وہ اپنی بولیاں بول کر اُڑ گئی

February 15, 2020

ابھی کل ہم یعنی زہرہ آپا اور میں نثار عزیز بٹ کی تحریروں کے بارے میں باتیں کر رہے تھے، موقع تھا جشنِ ادب جو آصف فرخی اور افسر سید نے کراچی آرٹس کونسل میں منعقد کیا تھا اور آج صبح اصغر ندیم سید نے بتایا، نثار عزیز بھی چلی گئیں۔ نثار عزیز نے کالج کے زمانے سے لکھنا شروع کیا تھا۔ پہلا ناول ہی ’’نگری نگری پھرا مسافر‘‘ بہت پڑھا گیا، اصغر بٹ سے شادی ہوئی۔ وہی طریقہ تم گھر میں۔ میں نوکری پر، پھر بھی بہت دنیا دیکھی اور لکھا۔ کے پی میں پاکستان کی تحریک پر ناول لکھا اور اب اپنی یادداشتیں مرتب کر رہی تھیں۔

نثار سیاسی رہنما، سرتاج سے ڈیڑھ سال بڑی تھیں ایک زمانے میں لاہور میں ہم خواتین لکھنے والیوں یعنی حجاب امتیاز علی، جمیلہ ہاشمی، ادا جعفری، نثار عزیز بٹ اور میں نے مل کر من و سلویٰ کے نام سے ادبی محفلوں کا آغاز کیا۔ اس میں انتظار حسین، مسعود اشعر، اصغر ندیم سید، سید انور سجاد، زاہد در، جاوید شاہین اور منو بھائی کو بھی شامل کیا۔ ہر ایک، ایک ڈش اور نئی تحریر لے کر آ جاتا۔ جتنے دن ہم سب اکٹھے رہے وہ چلتی رہیں۔ ہمیں دیکھ کر دوسرے ادیبوں نے بھی اپنی اپنی منڈلی بنا لی اور جیسا ہوتا گیا ہے قافلۂ سالار رخصت ہوتے گئے اور آخر کو وہ شمع بجھ گئی۔ کراچی میں ادب، فیسٹول، ذاتی ہمت سے ان دو افراد نے کیا تھا۔ فنڈز کی کمی کے باعث کانفرنس کے موضوعات میں پولیس، سرکار، ٹرانسپورٹ کشمیر، خارجہ پالیسی سب ہی کچھ تھا یا پھر دس بارہ کتابوں کا اجراء تھا۔ وہ تو احمد شاہ کے تعاون سے آرٹس کونسل کی کشادگی اور احمد شاہ کی دریا دلی کام آ گئی۔ ورنہ احتجاجی ادب پر گفتگو ہو تو احمد فراز، حبیب جالب، ظہیر کاشمیری، سرور بارہ بنکوی، خالد علیگ، جوش اور فیض صاحب کے علاوہ استاد دامن، شیخ ایاز، سلیم شاہد، اجمل خٹک اور یاد نہ رہے۔

ہماری زہرہ آپا تو کلاسیک سے مثالیں دیتی رہیں۔ ان کو اس آشوب کے 72سال میں ہونے والی شاعری یاد نہیں آئی۔ عارفہ کو میں اور فہمیدہ یاد آ گئیں۔ اس طرح کئی موضوعات پر بولنے والوں کی کمی بہت محسوس کی گئی۔ ادب فیسٹول کو باقاعدہ ٹرسٹ بنا کر چلانا پڑے گا کہ یہ لہر نئے موضوعات پر نئے لکھنے والوں کو سامنے لائے۔ اس طرح ترجمے کی اہمیت اور دوسری زبانوں کے ادب میں اور اس سے کیا کیا تراجم ہوئے، ہمارے ملک کے ادب کو کہاں کہاں عزت ملی، کیا کیا کام ہوئے، یہ موضوع بہت اہم اور گمبھیر تھا۔ صرف بولتے رہنے سے تو ادب نہیں بنتا۔ صحافت اور اظہار پر جو پابندیاں لگائی جا رہی ہیں یہ نہ جمہوریت ہے، نہ آزادی اور نہ آزادیٔ اظہار۔

اس وقت جو سب سے اچھا سیشن رہا وہ دوزخ نامہ تھا۔ یہ ناول بنیادی طور پر ایک بنگالی ادیب نے لکھا پھر اس کا انگریزی ترجمہ ہوا۔ وہاں سے آصف نے لے کر انعام ندیم کو ترجمے کیلئے دیا۔ اس ترجمے میں انعام ندیم نے اتنے خوبصورت فقرے سجائے ہیں کہ جی خوش ہو گیا۔ ریسنگر بال، بنگالی کے ادیب تھے۔ انہوں نے بہت سے دیگر مشہور ناول لکھے، 2017میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے اس ناول کو بھی سرکاری عظیم ادب کا انعام دیا گیا۔بیان کچھ یوں ہے کہ دوزخ میں غالب اور منٹو کی ملاقات ہو جاتی ہے۔ وہ دونوں اپنے زمانے، اپنے اشعار اور تحریروں کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں، غالب نے جس طرح جوانی سے بڑھاپے تک اپنے ناگفتہ عشق اور پھر امرائو بیگم کے ساتھ ازدواجی زندگی میں سات بچوں کی پیدائش اور مر جانے کا ذکر کیا ہے۔ دلی کے 1857میں اجڑنے کا ذکر کیا ہے۔ مشاعروں میں ان کے شعروں پر طعنہ زنی، زندگی میں تنگ دستی اور ذوق کے علاوہ میر کے شعری محاکات کی جانب اشارہ کیا ہے وہ نثر انعام نے بڑی محنت سے تیار کی ہے۔

رہا منٹو کی زندگی، صفیہ کے ساتھ انکی زندگی اور عصمت آپا کے ساتھ ان کی چھیڑ خانی کے قصے، غالب واپس ان کو شاہ جہاں آباد لے جاتے ہیں۔ وہ کیا عجیب و غریب فقرہ کہتے ہیں کہ ایک روز شاہ جہاں آباد یعنی دلی بھی مقتل بن جائے گا۔ سچ ہے بڑے لکھنے والوں کے ذہن میں تو صدیاں ہوتی ہیں۔ آج شاہین باغ دہلی گزشتہ پندرہ دن سےمقتل ہی ہے کہ ہر مذہب کی عورتیں وہاں شہریت سے متعلق متعصبانہ قوانین اور کشمیر پر چھ ماہ سے مسلط کرفیو پر مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اور منٹو صاحب ترقی پسندوں پر بات کرتے ہیں کہ انہوں نے میری طرح گٹر، چولہوں پر بیٹھی عورتیں نہیں دیکھیں، انہوں نے توکچھ بھی نہیں دیکھا وہ تو کہانیاں گھڑ لیتے ہیں۔ پھر وہ جب خوشیا کی کانتا کی بھاگ بھری اور مردوں میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کوچوان، الیشر سنگھ، کلونت کور اور پھر لاپتا مسلمان، ہندو اور سکھ لڑکیوں کے قصے، جو دونوں طرف کے مردوں سے نالاں تھیں۔ وہ خود کو شہزادے سمجھ کر ان عورتوں کو اسلئے قبول نہیں کر رہے تھے کہ اتنے دن وہ کہاں تھیں۔

ایک اور اہم لطف کی بات یہ رہی کہ پولیس اور دوسرے سرکاری ملازم ریٹائر ہونے کے بعد اپنی یادداشتیں لکھتے ہیں ان کی ہر تیسری لائن واقع کے ساتھ یہ کہتی ہے ’’میں نے تو اختلاف کیا تھا‘‘ پھر بھی ساری عمر نوکری کی۔ میں نے جب پوچھا کہ اکثر بڑے افسر خود کو اپنے وقت کا حلاج لکھتے ہیں جبکہ ہر آمر کے ساتھ نوکری کی۔ اس وقت پھسپھسی ہنسی ان کے چہروں پر شرمندگی طاری کرتی ہے۔ سیدہ عابدہ حسین کی لکھی ہوئی کتاب جو زرداری صاحب پر تھی ، مارکیٹ سے اٹھوا لی جاتی ہے۔ محمد حنیف کی کتاب کا اردو ترجمہ اچانک غائب ہو جاتا ہے۔ شاید اگلی کانفرنس میں ان موضوعات پر بات ہو سکے۔