سر رہ گزر

February 16, 2020

دن، رات، آپ اپنا تعارف

میڈیا گنبدِ بے دَر نہیں اس کے اندر سے سب کی آوازیں، کارکردگیاں ہو کر گزرتی ہیں۔ ہم میڈیا کے لوگ، لوگوں میں رہتے اُن سے ملتے رہتے ہیں ان کی سنتے رہتے ہیں، روشن دن ہو یا سیاہ رات، ثابت کرنے کو دلیل کی ضرورت نہیں پڑتی میڈیا سب کی ساری باتیں ظاہر کرتا ہے، کچھ نہ چھپانا اس کے وجود کے لئے خطرہ کیوں؟ وہ تو اس ملک کا خیر خواہ ہے البتہ اس کا خیر خواہ کوئی نہیں، میڈیا بحیثیت مجموعی مالی لحاظ سے ڈوب رہا ہے، چینلز ہوں یا اخبارات تنخواہیں دینے کی بھی سکت نہیں مگر اس کی روانی کبھی نہیں رُکتی، ’’انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کرے‘‘ اس کا موقف ہے آواز خلق کو بلند ہونے سے روکنا اس کا خود کو بند کرنے کے مترادف ہو گا، ذرائع اظہار مشکل میں ہیں پھر میڈیا حاکم ہو یا محکوم دونوں کو باخبر رکھتا ہے، کیا عام آدمی کے شب و روز انتہائی مشکل میں نہیں؟ کیا میڈیا سب اچھا کی تصویر دکھاتا رہے تو خبر کی صحت برقرار رہے گی؟ صرف شک کی بنیاد پر الزام دھر دینا اچھا نہیں بے جا، ستائش کی تمنا پوری کرنا میڈیا کے بس میں نہیں وہ جو دیکھتا ہے وہ من و عن پیش کر دیتا ہے، آج میڈیا بند کر کے دیکھ لیں یہ پھر بھی چلتا رہے گا کہ یہ حق اظہار حاصل کرنے کا ہنر جانتا ہے، کیا اس کا یہی قصور ہے کہ حکمرانوں کی جانب رخ کرنے والے سیلاب بلا کو حالات کے بگاڑ میں سنوارآنے کی امید دلا کر روک لیتا ہے؟ اچھی سمجھدار حکومت ذرائع ابلاغ کو پروموٹ کرتی ہے، اسے بے دست و پا نہیں کرتی، حقیقت کے چہرے کا سنگھار کرنا ڈسٹارشن ہے، تنقید فقط تنقید ہوتی ہے مثبت منفی نہیں ہوتی یہ نام تو دیئے جاتے اصل نام بگاڑنے کے لئے۔

٭٭٭٭

کھوئی والی گَل سُنا نی اڑیئے!

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے:عمران ترک صدر کا خیال کر لیتے کنٹینر والی گفتگو نہ کرتے، حیرانی ہے خان صاحب نے طیب اردگان کو کنٹینر والی ’’گَل‘‘ بھی سُنا دی، ان سے ترک صدر نے فرمائش تو نہیں کی تھی، ہم جو دور کا ڈھول سہانا بن گئے ہیں اسے سہانا ہی رہنا چاہئے ورنہ کون ہم سے گُھٹ کے جپھی ڈالے گا، مریم اورنگزیب اگرچہ تلخ نوا ہیں لیکن سہیلیوں کو کھوئی والی گل سنانے سے سختی سے منع کرتی ہیں، یہی اک بات ہے اچھی نون لیگ کی دیوانی کی، جس طرح سے حکومت حاصل کی اسی طرح ہی چل بھی رہی ہے، تاحال تو ریمپ پر کیٹ واک ہو رہی ہے، اللہ جانے کیا ہو گا آگے، خان صاحب اگر پروا کئے بغیر روٹھے عوام کیلئے کام کرتے جاتے تو وہ ہر خبر کو انجوائے کرتے، بھلے اپوزیشن والے ہائے ہائے کرتے، مریم کی بات میں پاکستان کی عزت کا خیال ہے، تعریف کا رسیا تنقید کو دشنام سمجھتا ہے۔ حکمران چاہے کسی بھی دور، ملک، قوم کے تھے یا ہیں تعریف، خوشامد سننے کے خوگر ہوتے ہیں، اور اس ہنر کے ماہر امیر وزیر مشیر یار دوست ہر حکمران کو ناکام، اور اپنی جگہ بناتے ہیں، تعریف کو شاید اس لئے اللہ تعالیٰ نے فقط اپنے لئے ریزرو کر دیا، حالانکہ اسے اسکی ضرورت نہیں، تاکہ تعریف انسانوں کو بیوقوف نہ بنا سکے؎

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

دانائے کل ﷺ نے فرمایا:’’بہترین بات مختصر اور مدلل ہوتی ہے‘‘ زیادہ بولنے سے پچھتاوا بڑھتا اور انسان بے وقعت ہو جاتا ہے، عمل وہ گویائی ہے جو سر چڑھ کے بولتی ہے، کھوئی والی گل عام کرنے سے وصل کے راستے بند ہو جاتے ہیں۔

٭٭٭٭

اجی کچھ تو بولیئے

کچھ دنوں سے حضرت شیخ خاموش ہیں، خدا کرے کہ ریلوے اب تو بول اٹھے، اس طرح ٹرین کے مسافروں کا بھی بھلا ہو گا، اور وہ مستعفی ہونے کو کوالی فائی کرنے سے بھی بال بال بچ جائیں گے، عدالت عظمیٰ کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے، شکر ہے عدالتیں جاگ رہی ہیں، ورنہ گراں خواب حکمران کب ایک آدھ آنکھ کھولتے، ممکن ہے ہماری لاعلمی ہو مگر وزیر ریلوے اب کچھ اوجھل اوجھل سے لگتے ہیں، ویلنٹائن ڈے کے موقع پر نہ جانے کسی نے انہیں یا کسی کو انہوں نے سرخ گلاب پیش بھی کیا ہو گا یا نہیں، ان میں ایک وصف یہ بھی ہے کہ کھل کر بولتے ہیں انداز بیان کا رخ کسی جانب بھی ہو ماہ رخ ہوتا ہے وہ چینلوں کی رونق اور محفلوں کی جان ہیں، اس لئے ریلوے کا کچھ بھی حال ہو ان کا ملال ان کی خاموشی ہم افورڈ نہیں کر سکتے، وہ گفتار سے ہر خالی جگہ پُر کر لیتے ہیں، اور جملہ صحیح لگتا ہے، ریلوے پٹڑی پر ہو نہ ہو وہ سامعین کو اپنی پٹڑی پر چڑھا لیتے ہیں گویا ٹرین کے مسافر اب پٹڑی کے مسافر ہیں جو اپنی جگہ پڑی رہتی ہے، اگلا اسٹیشن کیسے آئے، ایک بات اگر کسی کو بُری نہ لگے وزراء صرف سیاست آئے نہ آئے سیاست کرتے ہیں کام بیورو کریسی کرتی ہے مگر وہ ان دنوں ناراض ہے، اب تو کوئی کسی بیورو کریٹ کو یہ بھی نہیں کہتا شالا افسریاں قائم رہن بھاگ لگے رہن، تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق وہ عدالتوں میں افسری کا مظاہرہ کر بیٹھتے ہیں، اور ڈانٹ پڑ جاتی ہے بات ہو رہی تھی شیخ رشید ’’رجل رشید‘‘ ہیں۔ کنوارے ہیں اور دامن پہ کوئی داغ بھی نہیں وہ اُس طرح کے شیخ ہیں کہ؎

خلاف شرع مرا شیخ بولتا بھی نہیں

مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں

٭٭٭٭

’’تیر اور نشانہ‘‘

Oوزیراعظم عمران خان:فوج میرے ساتھ کھڑی ہے، میں کرپٹ نہیں اس لئے فوج سے نہیں ڈرتا۔

فوج جب ساتھ کھڑی ہو تو کوئی کرپٹ ہو نہ ہو، ڈرتا نہیں۔

Oوزیراعظم:دن رات محنت کر رہا ہوں، دنیا کے دیگر وزرائے اعظم سے میری تنخواہ کم ہے۔

کیا حُسنِ طلب ہے، داد دینا چاہئے۔

O عمران خان:میرے خلاف جھوٹی خبریں دوسرے ملک میں ہوں تو یہ چینلز بند ہو جائیں

شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

Oوزیراعظم نے ساتھیوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے خفیہ ایجنسی کو ڈیوٹی سونپ دی۔

یہ ہے وہ تیر جو نشانے پر بیٹھے گا اور اب بہت سی بہتری آئے گی عوام کا بھلا ہو گا۔ یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ میڈیا جھوٹی خبریں دیتا ہے یا سچی،