ڈاکٹر کی ذرا سی غفلت

February 23, 2020

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

یہ2017ء کی بات ہے،جب میری بیگم تیسری بار اُمید سے ہوئیں، تو ہم سب بہت خُوش تھے۔ گھر کے قریبی اسپتال سے باقاعدہ چیک اپ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس میں الٹرا ساؤنڈ اور دیگر ضروری ٹیسٹس شامل تھے۔ چھٹے مہینے میں معمول کے مطابق ایک روز الٹراساؤنڈ کی رپورٹ لے کر ڈاکٹر کے پاس گئے، تو ڈاکٹر کی نظر پچھلی فائل میں لگی رپورٹس پرپڑی، تو چونکتے ہوئے آہستہ سے بڑبڑائی ’’اوہو، یہ تو تیسرے مہینے کی رپورٹس ہیں۔‘‘ یہ سُن کر میرے کان کھڑے ہوگئے، مَیںنے بے چینی سے استفسار کیا، تو ڈاکٹر صاحبہ نے انکشاف کیا کہ ’’بےبی کا ہونٹ کٹا ہوا ہے اور دماغ میں پانی بھر گیا ہے۔‘‘ یہ سُنتے ہی میں نے گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میںسوال کیا اب کیاکرنا ہے؟

تو ڈاکٹر کہنے لگی ’’پریشانی کی بات نہیں،اس کی پلاسٹک سرجری ہوجائے گی۔ اور رہی بات دماغ کی، تو ہم ڈیلیوری کے بعد نیورو سرجن کو بلوالیں گے، وہ بتائیں گے کہ کیا کرنا ہے۔‘‘ پھر اس نے ہمیںمشورہ دیا کہ دیکھیے، ہوسکتا ہے کہ یہ رپورٹغلط ہو، آپ فلاں جگہ سے’’ڈوپلر الٹراساؤنڈ‘‘ کروالیں، شاید رپورٹ برعکس آئے۔ مگر اس بار بھی وہی رپورٹ آئی، تو ہمارے ایک عزیز نے اسٹیڈیم روڈ پر واقع ایک نجی اسپتال کی ایک ماہر گائناکالوجسٹ سے رابطے کا کہا۔ دوسری صبح ہم وہاںپہنچ گئے اور ڈاکٹر کے سامنے پریشانی کے عالم میں سارا کیس رکھ دیا کہ جب ہم نے تیسرے مہینے کی رپورٹ میں’’Anomaly Scan Advice ‘‘(اناملی اسکین ایڈوائس) لکھا دیکھا، تو اس بابت ڈاکٹر سے بارہا پوچھاکہ یہ ’’اناملی اسکین ایڈوائس‘‘ کیا ہے، کیوںلکھا گیا ہے؟،، مگر ڈاکٹر نے اس حوالے سے ہمیں کچھ نہیںبتایا اور کہا کہ کوئی خاص بات نہیں ہے، آپ اسے نظر انداز کریں۔‘‘

مگر پھر چھٹے مہینے کی رپورٹ دیکھتے ہوئے اچانک اس کی نظر تیسرے مہینے کی رپورٹ پر پڑی، تو وہ چونکی، مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ ہماری ساری پریشانی اور احوال سُن کر ڈاکٹر نے کہا ’’ٹھیک ہے، مَیں آپ کا سارا کیس سمجھ چُکی ہوں، یہ اُس ڈاکٹر کی غفلت ہے کہ جب تیسرے مہینے سے الٹرا ساؤنڈ رپورٹ میں ’’اناملی اسکین ایڈوائس‘‘ لکھا آتا رہا، تو کیوں نظر انداز کرتی رہی۔‘‘بہرحال، ہم نے مسئلے کا حل پوچھا، تو ڈاکٹر نے کہا’’ دیکھیے، یہ ایسا مسئلہ ہے جو ریورس ایبل نہیں ہے۔

آپ یہاں سے الٹراساؤنڈ کروائیں، پھر بات کرتی ہوں۔‘‘بہرحال، ہم نے ایک بار پھر الٹرا ساؤنڈ کروایا، جس نے ہماری پریشانی کو مزید بڑھادیا۔رپورٹس دیکھنے کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ بےبی کا Cleft palate یعنی تالو اور ہونٹ کٹا ہوا ہے اور اسے ’’Hydrocephalus‘‘ بھی ہے ۔ہم نے سوال کیا کہ کٹا ہونٹ اور تالو تو سمجھ میں آگیا، لیکن یہ دوسری کیاچیز ہے، تب ڈاکٹر نے بتایا کہ تالو کٹے ہونے کی وجہ سے اس کے منہ سے دماغ میں اضافی پانی چلا گیا ہے، جسےطبّی زبان میں ہائیڈرو سیفیلس کہا جاتا ہے، جس کے علامات کی نشان دہی تیسرے مہینے کی رپورٹ میںکردی گئی تھی۔

ظاہر ہے، ڈاکٹر کی باتیں ہمارے لیے تعجب خیز تھیں، میںنے فوراً سوال کیا ’’اس مرض کا علاج کیسے ہوگا؟‘‘ تو ڈاکٹر نے بتایا کہ ’’دیکھیے، آپ پریشان نہ ہوں، یہ نیورو سرجن کا کام ہے، وہ اس کے دماغ میںایک ’’shunt‘‘ ڈالے گا، جس کا پائپ پیشاب کی نالی سے جڑ جائے گا، جس کے بعد اضافی پانی پیشاب کے راستے خارج ہوتا رہے گا۔‘‘ میں نے کہا ’’ٹھیک ہے، مگر یہ بتائیے کہ پھر ’’shunt‘‘ نکلے گا کب؟‘‘ تو ڈاکٹر نے یہ بتا کر مجھے مزید صدمے سے دوچار کردیا کہ ’’یہ زندگی بھر لگا رہے گا اور تقریباً دس بارہ سال بعد جب بلاک ہوجائے گا، تو ایک بار پھر کروانا ہوگا۔‘‘ بہرحال، ڈاکٹر نے ہمیں کچھ ضروری ہدایات اور تسلیاں دیں، جس کے بعد ہم گھر آگئے۔

وہ ہفتہ 14 جولائی 2018ء کی دوپہر تھی، جب میرا بیٹا میری گود میں دیا گیا۔ اور وہی ہوا، جو رپورٹس آرہی تھیں۔اس کا ہونٹ اور تالو کٹا ہواتھا۔ لوگ اپنی اولاد کی پیدایش پر خوشی سے رو پڑتے ہیں، مَیں بھی رو رہا تھا، مگر غم اور پریشانی سے۔اسپتال کے میڈیکل اسٹوڈنٹس میرے بچّے کو جس طرح آآکر دیکھ رہے تھے،اس سے مجھے وحشت ہورہی تھی۔ مَیںاکیلا تھا ساتھ کوئی نہیںتھا، جو فیصلہ کرنا تھا، اکیلے ہی کرنا تھا۔ ڈاکٹرز کی ہدایت کے مطابق اسے وارڈ میں ایڈمٹ کروانا تھا، مگر میں اسپتال کے بچّہ وارڈ کا خرچہ اٹھانے سے قاصر تھا، لہٰذا بیگم کو اسپتال ہی میںرہنے دیا اور بچّے کو ڈسچارج کرواکر جناح اسپتال لے گیا۔

وہاں ڈاکٹروں نے تھوڑی دیر تک آکسیجن وغیرہ دینے کے بعد کہا کہ اسے گھر لے جائیں، اب یہ ٹھیک ہے۔ میں کیا کرتا، کہاں لےجاتا، وہ کٹے ہونٹ اور تالو کی وجہ سے فیڈ نہیں لے سکتا تھا۔ لامحالہ گھر لاکر اپنی والدہ کے سپرد کردیا، اسی دورانمیری بہن آگئی اورکسی نہ کسی طرح بچّے کو فیڈر سے دودھ پلایا۔ اللہ اللہ کر کے تین دن گزرے اور میری بیگم اسپتال سے ڈسچارج ہوگئی۔ دوسری صبح ہم فوراً ایک اسپتال گئے، تو پتا چلا کہ وہاں نیورولوجسٹ نہیں ہوتا، وہاںسے دوسرے اسپتال گئے، تووہاں کے ایک ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق بچّے کے دماغ کا سی ٹی اسکین کروایا۔

دوسرے روز سی ٹی اسکین رپورٹ دیکھ کر ڈاکٹر نے بتایا کہ بچّے کے دماغ میںنارمل سے زیادہ پانی ہے، لہٰذا shuntڈالنا ہوگا، مگر اس کے لیے آپ کو پہلے بچّے کا وزن بڑھانا ہوگا۔ اگر وزن نہ بڑھا اور ہائیڈروسیفیلس کی وجہ سے اس کے دماغ میںاضافی پانی کا دبائو بڑھ گیا،تو اس کا سر فٹبال کے سائز کا ہوجائے گا۔‘‘

اب ہمارے لیے یہ ایک چیلنج تھا کہ ہم اپنے بچے کا وزن کیسے بڑھائیں، ہم ہر ہفتے اس کا وزن چیک کرواتے اور دعائیں کرتے کہ وزن بڑھ جائے، مگر وزن تھا کہ بڑھ ہی نہیںپارہا تھا، اُس پر ہمارے دماغ میں ایک خوف یہ طاری کہ اگر ہائیڈروسیفیلس کے اثرات نمودار ہوگئے، تو کہیں shunt ڈالتے وقت وزن کی کمی کے باعث بچّے کی جان نہ چلی جائے۔ ہم بچّے کا وزن بڑھانے کے لیے دن رات تگ و دو کرتے رہے، مگر وزن بڑھ کے نہدیا۔ اسی دوران کسی نے ایک پرائیویٹ اسپتال کے نیوروفزیشن سے رابطہ کرنے کو کہا، تو ہم اُن کے پاس چلے گئے۔ انہوں نے معائنے کے بعد دماغ کا پلین (سادہ) سی ٹی اسکین کروانے کا مشورہ دیا، تومعلوم ہوا کہ ہمارے بچے کو ہائیڈرو سیفیلس نہیںبلکہ Hydranencephaly ہے۔

جو کہ ایک لاعلاج مرض ہے، اس میں shunt تو کیا، کوئی طریقہ علاج کارگر ثابت نہیںہوتا، کیوںکہ اگر اضافی پانی وینٹریکلز کے اندر ہوتا ہے، تو تب تو shunt ڈالا جاسکتا ہے، مگر ہمارے بچّے کے وینٹریکلز تو کیا، پورے سرہی میں پانی تھا۔ یعنی سارا دماغ پانی میںڈوبا ہوا تھا۔ ڈاکٹر کی پوری بات سننے کے بعد میںنے بے چارگی سے کہا ’’سر! دنیا چاند پر چلی گئی ہے، اس کا کوئی تو علاج ہوگا؟‘‘ مگر جواب میں مایوسی کے سوا کچھ نہ تھا۔ پھرمیںنے ڈاکٹر سے پوچھا کہ اس بچّے کا مستقبل کیا ہے؟ تو اُنہوں نے کہا ’’wait and watch بس، آپ اس کے ہونٹ کی سرجری کروالیں۔‘‘

بہرحال، وقت یونہی گزرتا رہا، اس دوران میرے پیارے بیٹے، محمد سالم عمران کو چیسٹ انفیکشن اور نمونیے کے باعث کئی بار اسپتال میں ایڈمٹ کروانا پڑا۔ لیکن جو قدرت کو منظور، 11 جنوری 2019 بروز جمعہ صبح بیگم نے تشویش ناک انداز میں بتایا کہ ’’یہ کچھ سُست سُست لگ رہا ہے،اسے دودھ دینے کے لیے بہت دیر سے اٹھا رہی ہوں، مگر اُٹھ نہیں رہا۔‘‘ فوری طور پر اُسے اسپتال لے کرگئے، تو اُسے فٹس’’fits‘‘(جھٹکے)پڑنے لگے، ڈاکٹروں نے ہر ممکن سعی کی، سی پی آر تک کیا ،مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ یوں ہمارا پھول جیسا بیٹا، محمد سالم عمران اتنی تکالیف اور اذیتوں سے نجات پاکر پُرسکون ہوگیا۔ بعد نمازِ عصر دبی سسکیوں اور کپکپاتے ہاتھوںسے میں نے خود اُسے لحد میں اُتارا۔

آج میرے بیٹے کو دنیا سے گئے ڈیڑھ سال بیت چکا ہے، لیکن اس کی مختصر زندگی کے واقعات ہمارے لیے ناقابلِ فراموش بن چکے ہیں۔ اُس کی کچھ دوائیں، پیمپرز، دودھ اور اُس کی ضرورت کا سامان میںنے اُسی اسپتال کوڈونیٹ کردیا، جہاں وہ تین بار داخل رہا تھا۔ البتہ اُس کی ’’کلف پیلٹنِپل‘‘ سنبھال کے رکھی ہے۔ راتوں کو اُس کے چیخنے کی آوازیں، اُس کا چہرہ، میرا اُس کے ہونٹوں پر بوسہ دینا اور بھیگی آنکھوں سے دُعا کرنا کہ یااللہ! یہ ٹھیک ہوجائے اور کَس کر سینے سے لگانا اب بھی یاد آتا ہے۔ کاش! وہ ڈاکٹر تیسرے مہینے کی رپورٹٹھیک سے دیکھ لیتی، تو شاید ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ بہرحال، وہ اب ہمارے لیے یادوں کا ایک ایسا تحفہ ہے، جو ہمیشہ ہمارے دِلوں میں رہے گا۔ جنّت کے پھول، محمد سالم عمران یادوں میںجیتے رہو۔ (عمران اسمعٰیل، کراچی)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔