امریکا اور طالبات پھر مذاکرات کی میز پر

February 19, 2020

جرمنی کے شہر میونخ میں گزشتہ دنوں امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کی افغانستان کے صدر اشرف غنی سے ملاقات ہوئی،جس میں افغانستان عارضی فائر بندی اور امن قائم کرنے کے منصوبے پربات ہوئی ہے۔ اس دوران دوہا قطر میں بھی افغان رہنمائوں اور امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے بھی بات چیت کاسلسلہ آگے بڑھایاہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر عارضی فائر بندی اور امن قائم ہوتا ہے تو بات چیت آگے بڑھے گی اور معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔ طالبان کے ترجمان نے بتایا کہ یہ عارضی امن سات سے دس تک کا ہو گا۔ امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر دوطرفہ طور پر اس وقت کا سمجھ بوجھ سے استعمال کیا جائے اور وقت ضائع نہ کیا جائے تو اس پر دوجانب فریقین کا فائدہ ہے۔

امن مذاکرات امریکی اور افغان وفد کے مابین بند کمرےمیں ہوں گے۔ متعلقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ستمبر 2019ءمیں بھی زلمے خیل زاد نے ایسی ہی ملاقات کا اہتمام کیا تھا جس کے لئے صدر ٹرمپ نےکیمپ ڈیوڈ کی جگہ مقرر کی تھی مگر پھر اچانک صدر ٹرمپ نے یہ ملاقات منسوخ کر دی۔ تب طالبان رہنمائوں نے بھی مزید مذاکرات سے انکار کر دیا تھا۔ اس دوران اطلاع آئی کہ کابل میں ایک حملے کے دوران ایک امریکی فوجی ہلاک اور چند زخمی ہوگئے ہیں۔

بعد ازاں نومبر میں صدر ٹرمپ نے اعلان کیا مذاکرات ہوں گے مسودہ تیار کر لیا گیا ہے۔ خلیل زاد نے خطہ ٔ کا دورہ شروع کیا توانہوں نے پاکستان میں افغان مسئلے پر بات کی پھر وہ طالبان رہنمائوںسے ملے اس کے بعد افغان صدر اشرف غنی کو بریفنگ دی، دوبارہ امن معاہدہ کی کوشش کے حوالے سے صدر ٹرمپ نےکہا کہ افغانستان مسلح کارروائیاں روک دے۔ تشدد بند کیا جائے ۔پر امن ماحول میں مذاکرات ہوں۔

افغان صدر اشرف غنی اور عبد اللہ نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ اس مرتبہ امن مذاکرات کامیاب ہوں گے اور توقع ہے کہ معاہدہ بھی طے پا جائے گا۔ البتہ صدر اشرف غنی نے کہا کہ ہم پائیدار امن مکمل فائر بندی اور پر امن میکنیزم چاہتے ہیں افغان عوام کی بھی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ ملک میں پائیدار امن قائم ہو۔

گزشتہ ہفتہ امریکی صدرنے اسٹیٹ آف دی یونین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بہادر جنگجو سپاہیوں نے گزشتہ سال باوجود بار بار بم دھماکوں اور پر تشدد کاروائیوں کے ،ہمیں یہ موقع دیا کہ ہم پھر مذاکرات کر سکیں۔ اب یہ ممکن ہو سکا ہے ،تاہم صدر ٹرمپ نےامریکی عوام سے وعدہ کیا کہ طویل افغان جنگ کا خاتمہ کیا جائے گا۔ وہاں امن قائم کرنے کے بعد امریکہ اپنے فوجی وطن واپسی بلوائے گا۔ وائٹ ہائوس کے ذرائع کے مطابق افغانستان میں بارہ ہزار فوجی ہیں ان میں سے کتنے سپاہی واپس بلوائیں گے اور کتنے وہاں تعینات رہیں گے، یہ واضح نہیں ہے ۔کیا امریکا واقعی مکمل انخلاء پر راضی ہے ،یہ بھی سوال ہے۔

گزشتہ ہفتے مذاکرات کے بارے میں خبریں عام تھیں کہ اچانک کابل کی فوجی اکیڈمی کے قریب ایک خود کش بم دھماکہ ہوا جس میں کم از کم چھ افراد ہلاک اوربارہ زخمی ہوئے اس واقعہ پر دونوں جانب تشویش ہے۔اس سے قبل نومبر 2019 میں جو بم دھماکہ ہوا تھا اس میں تیرہ امریکی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس دھماکے کی کسی گروپ نے ذمہ داری قبول نہیںکی تھی۔ یہ صورت حال افغان حکومت اور طالبان ہر دو جانب کے رہنمائوں کو ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغان رہنما بہر طور امن معاہدہ کرنا چاہتےہیں، کیوں کہ 2001سے اب تک اس لاحاصل جنگ میں ایک لاکھ ستاون ہزار شہری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔

افغان ذرائع کے مطابق گزشتہ چار برسوں میں مشرقی افغانستان کے علاقوں میں امریکی بمباری سے بہت نقصان ہوا ہے۔ اس علاقے میں بتایاجاتا ہے کہ عراق اور شام سے فرار ہونے والے داعش کے دہشت گردوں نے اوپر کا رخ کیا اور وہ یہاں اپنی جگہ بنانا چاہتےہیں۔ خیال ہے کہ یہ دہشت گرد افغانستان کے مختلف علاقوں میں روپوش ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ افغانستان میں پھر دہشت گرد ی کا فتنہ نہ سر اٹھا لے۔آزاد ذرائع کہتے ہیں افغانستان میں غربت، پسماندگی، مایوسی اور بیروزگاری نوجوان طبقے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ وہ اگر کسی گروہ کے بہکائے میں آتے ہیں تو یہ حیرت کی بات نہیں ہے۔ داعش کا اول نعرہ جہاد ہے جس سے نوجوان غریب طبقہ زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

افغانستان کی جیل میں قید داعش کے آٹھ قیدیوں نےامریکیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ ہماری تنظیم کو عراق اور شام میں شدید نقصان اٹھانا پڑا اور قابض علاقے بھی ہاتھ سے گئے، مگر پھربھی تنظیم اس لئے قائم و دائم ہے کہ ایک جاتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ تنظیم کے درجنوں علاقائی کمانڈر ہلاک ہوئے مگر نئے آنے والوں نے ان کی جگہ سنبھال لی ہے۔

ان قیدیوں سے حاصل ہونے والی معلومات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تنظیم ٹوٹ پھوٹ کے بعد بھی باقی ہے۔ افغان طالبان کی اکثریت ان کو ناپسند کرتی ہے ،کیوں کہ دونوں جانب مسلک اور نظریہ کا فرق واضح ہے۔ اس مناظر میں امید ہے امریکی اور افغان طالبان جلد کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔