فرسٹریشن: وزرا اور بیورو کریسی!

February 23, 2020

سیاستدان اپنی ایک سیاسی زندگی میں کئی جنم لیتا ہے، پھر اسی زندگی میں کبھی ہیرو ہوتا ہے کبھی ولن۔ دوسری طرف بیوروکریٹ ہے جو مسند اقتدار پر براجمان سیاست دان کا مستقل قلم اور قلم دان بھی، یہ ہیرو ہوتا ہے نہ ولن مگر پوری ’’فلم’’۔ سیاست دان اگرچہ تجربہ کار بھی ہو مگر بیوروکریٹ کی ’’سنجیدگی’’ اور تبسم کو سمجھنا اس کے بس کا روگ کم ہی ہے۔ سیاستدان جتنا بھی متین ہو اس کا سامنا اس ’’فطین’’ ساتھی سے ہے جو اسے اقتدار کے جہیز میں ملتا ہے، اور جہیز بھی وہ جو اس سے قبل بھی استعمال میں رہا، اب ہم اسے سیکنڈ ہینڈ جیسی اصطلاح تو نہیں دیں گے۔

سب باتیں اپنی جگہ جب تک بیورکریٹ کی لیاقت اور سیاست دان کی ریاضت ایک صفحہ پر نہ ہوں تب تک عوام اور حکومت کو منزل کے نشانات نہیں ملتے۔ جاننے پر آئیں تو پھر ہم کچھ ایسے بیوروکریٹس کو بھی جانتے ہیں، جو سیاسی سزاؤں کو سہنے کے باوجود سیاسی و فلاحی جزاؤں کے گمنام بانی تھے۔ کم لوگ اس بات سے آشنا ہیں کہ، موٹروے سلمان فاروقی کا برین چائلڈ تھا، گونگے بہروں کے اسکولوں کی بنیاد انہوں نے رکھی تھی بعدازاں جن کی تعداد بڑھنی چاہئے تھی مگر کم ہوئی۔ جب دنیا میں ڈیجیٹل ٹیلی فوننگ کا انقلاب آیا تو پاکستان استفادہ کرنے والے ابتدائی ممالک میں شامل تھا، یہ سہرہ بھی سلمان فاروقی کے سر تھا، وہ جب وفاقی محتسب بنے تو انہوں نے تاریخ رقم کی کہ، ان کی میز پر کوئی ایسی فائل نہ تھی جو فیصلے یا ڈائریکشن کی منتظر ہو۔ حالانکہ وہ جج نہ تھے اور ان سے قبل اس عہدے پر کئی ریٹایرڈ جسٹس براجمان رہ چکے تھے مگر یہ رزلٹ نہ دے سکے۔ اس کے باوجود میں کہتا ہوں کہ، کاش آصف زرداری نے انہیں وفاقی محتسب لگانے کے بجائے اپنے دور حکومت میں ایوان صدر میں ایک چھوٹا سا دفتر دیا ہوتا، وہ ایسے ایسے ترقیاتی منصوبے متشکل کرکے دیتے کہ زمانہ یاد کرتا!

اس کالمی پیش منظر کا پس منظر یہ ہے کہ، گزشتہ ہفتے ایک وزیر اور تین بیوروکریٹس سے گفت و شنید ہوئی تو کچھ ’’دریافتیں’’ عمل میں آئیں، ایک وفاقی سیکرٹری کا نقطہ نظر تھا کہ ہم پروٹوکول کو فراموش کردیتے ہیں وہ سیاسی ہو یا آفیشیل، ان کا ایک تجزیہ قابل تحریر ہے کہ، بنگلہ دیش میں انتہائی سیاسی پولرائزیشن کے باوجود کہا ’’آنرایبل پرائم منسٹر’’ جاتا ہے۔ مگر اس کے کہنے اور کہلوانے میں دونوں اطراف سے ایک پروٹوکول درکار ہے۔

اسی طرح ایک وفاقی بابو جو ایک وفاقی وزیر کی ریل پیل کے من کو نہ بھایا اور دوردارز کی سزا کاٹ رہا ہے وہ غریب خانے پر تشریف لایا تو اس کا کہنا تھا کہ، میں بھی اداروں کے درمیان بطور ’’برج بلڈر’’ فعل سرانجام دینا چاہتا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ استعفی دے دوں۔ ہم نے عرض کیا، اوہ بابا سیٹ نہ چھوڑنا ورنہ اس ستم گر زمانہ میں دوست اور زبان ساتھ چھوڑ جائیں گے سو پرو ڈیموکریٹ کا کردار ادا کرنا ہے تو سیٹ ہی پر بیٹھ کر کرو۔ رہی ہماری بات، تو ہم سے لوگ سچ کی سچائی کی ،علامت بننے لگیں تو ’’ملزم‘‘ پکار اٹھتا ہے کہ ہم ’’بلیک میل‘‘ کرنے لگے ہیں!

یوں ایک بہت بڑی سیکرٹری صاحبہ سے بات ہورہی تھی جسے بحکم وزیر اعلی ایک انکوائری آفیسر مقرر کیا گیا وہ بھی ایک وائس چانسلر کی، گویا ایک وائس چانسلر کو موقع دیا گیا کہ حال دل بیان کرلے جبکہ چیف منسٹر انسپکشن ٹیم تو اس شیخ الجامعہ کو فارغ کرنے کا حکم صادر کرچکی تھی۔ یہ محترمہ دبنگ اور دیانتدار ہیں جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے میں معروف ہیں مگر وزیراعلی کا حکم اس تک پہنچے بھی تو! جب ان سے اس انکوائری کی ذمہ داری کا پوچھا تو انہیں معلوم ہی نہ تھا جبکہ متعلقہ سیکرٹری جس نے کیس بھجوانا تھا انہیں آرڈرز 2جنوری 2020 کو مل چکے تھے جو وزیراعلیٰ کے احکامات کے باوجود دو سو گز کا فاصلہ ڈیڑھ ماہ میں طے نہ کر سکے! یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ، ایسے میں سیاسی کامیابیاں فاصلہ کیسے طے کریں؟

آج جہاں سارا کالم گفتگووں کی نذر ہوگیا وہاں ایک مکرم وزیر کی بپتا بھی ملاحظہ فرمالیجئے۔ کل ہی ان کا کہنا تھا کہ ’’ مجھے کسی نے درست سمجھایا تھا، صوبائی وزیر نہ بننا، رول آف بزنس کے تحت ادارے کا سربراہ سیکرٹری ہوتا ہے، وزیر نہیں، اور وفاق میں وزیر! ‘‘یہ محترم وزیر کی نہیں اس کی فرسٹریشن کی لفاظی تھی جو موجودہ نظام پر ایک بہت بڑا سوال ہے! اور اس کا جواب ہی تبدیلی لا سکتا ہے، باقی سب افسانے!

ملت کے ماتھے کا جھومر کئی سیاست دان اور بیوروکریٹس یہاں موجود ہیں اور مٹھی بھر کلنک کا ٹیکہ بھی لیکن جاگنے والوں کیلئے چشم بینا ضروری ہے کہ جمہوری گلشن کا کاروبار چلے! قائد اعظم سے ذوالفقار علی بھٹو تک کی سیاست اور فراست سے جام اٹھائے جاسکتے ہیں جو جمہوری آب حیات ہیں، اور ایوبی و ضیائی زہر کے تریاق دریافت کرنا بھی ممکن ہے گر ذرا قول و فعل کے تضاد کو ٹھکانے لگا دیں۔ کاش 18ویں ترمیم کا اسٹڈی سرکل بھی ہو ان ایوانوں میں۔ بہرحال بڑے صوبے میں رولز آف بزنس کے تغیر کی ضرورت ہے۔

المختصر، کوئی سیاستدان سوسائٹی کی پہیلی ہے یا خوبصورتی اس کا اندازہ اس کے ذاتی رجحانات اور آئیڈیلزم سے لگتا ہے مگر بہتر ججمنٹ کیلئے ضروری ہے کہ ذاتی منشا اور آئیڈیلزم کا آمیزہ مدنظر رکھ لیا جائے۔ بلاشبہ بیوروکریٹس باکمال ہستیاں ہیں گر یکسانیت کی بیماری کا شکار نہ ہوں حالانکہ انہیں معلوم ہے ’’یکسانیت کا مرض’’ ان کے لئے ہی نہیں امور ریاست کے لئے بھی جان لیوا ہے۔ افسوس کہ یہ نادان تبدیلیاں اور اندھے انقلاب جب آبی بخارات بن کر ہوا ہو جائیں تو پیچھے رہ جانی والی بیورو کریسی ایک نئی دلدل بن جاتی ہے۔ بہتر مستقبل کیلئے ریاست کی سیاست اور بیوروکریسی کی فراست کو یہ سب سمجھنا ہوگا!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں009230046479