محال سہنا، وبال جینا، پڑ گیا لہو پینا!

February 27, 2020

لو جی گل جنگلاں تے آگئی جے۔ عوام جنگل اور اس سے منسلک جنت کی تصویر کشی پر نہال ہورہے ہیں، کروڑوں تو جلسے میں نہ ہونے کے باوجود، ناچ ناچ کر بےحال ہو چکے ہیں۔ چاروں طرف داد و تحسین کی رباعیوں کا کرونا وائرس پھیل چکا، اس وائرس سے امان حاصل کرنا ناممکن ہوا چاہتا ہے، ایک حمایتی نے تو تحقیقی فیچر کا حوالہ دیتے ہوئے اس کا دفاع ہی یوں کیا کہ عوام جان لیں جنگلوں میں کم ازکم 11خاصیتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ جنگلوں سے ہمیں سانس لینے کیلئے تازہ اور صحت بخش آکسیجن بلا تعطل فراہم ہوتی رہتی ہے۔ جنگل درختوں سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ لوگ جنگلوں میں رہائش بھی رکھ سکتے ہیں۔ جنگل ہمیں ٹھنڈک اور تازگی فراہم کرتے ہیں۔ جنگلوں سے بارشیں آتی ہیں اور یہ آندھیوں اور سیلابوں کی روک تھام کرتے ہیں۔ جنگل زمین کے کٹائو کو روکتے ہیں۔ جنگل گندی ہوا کو صاف کرتے ہیں۔ جنگل پھل دیتے ہیں۔ جنگل لکڑی دیتے ہیں پھر اس سے مکان بنتے ہیں جو پھر روزگار کی پیدائش کا باعث ہوتے ہیں۔ جنگل سیاحت کو فروغ دیتے ہیں۔ جنگل معاشروں کا ایک مضبوط ستون ہوتے ہیں۔ جنگلوں کے فوائد پر مبنی تجویز کے تبادلے کے وقتے جب ایک نوجوان نے سوال کیا کہ عالی مرتبت اس ڈیم کا کیا بنا جو بننا تھا تو اس غریب زادے کو تقریب سے ہی نکال دیا گیا۔ دورِ اقتدار کے دو سال ختم ہونے کو ہیں لیکن ناقدین ہیں کہ روش بدلنے کو آمادہ ہی نہیں ہیں۔ پہلے انہوں نے اس بیان کا خواہ مخواہ ہی خوب مذاق اڑایا کہ اصل سکون قبر میں ہوتا ہے، اب وہ کان کھول کر سن لیں کہ نئے پاکستان میں صرف بارہ موسم نہیں بلکہ 36بھی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً احتساب و پروپیگنڈا کا موسم، عوام کو کھلم کھلا سبز باغ دکھانے کا موسم، ہر خاص و عام سے جھوٹے وعدے کرنے کا موسم، نوکریاں دینے کا اعلان کرکے نہ دینے کا موسم، ایک کروڑ گھر بنانے کا اعلان کرکے منصوبے کو مشکل قرار دینے کا موسم ، صبح دوپہر شام کرپشن کےخلاف پروپیگنڈا کئے جانےکا موسم، سیاسی ڈاکوئوں کو ساتھ ملائے رکھنے کا موسم، منہ بند کرنے کیلئے اپوزیشن کو پابندِ سلاسل کرنے کا موسم، اپوزیشن کو عدالتوں سے نااہل کروانے کا موسم، آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنے کے اعلانات کرنے کا موسم، معاشی تباہی کے آغاز پر اچانک آئی ایم ایف کے پاس جانے کا موسم، مہنگائی کو مصنوعی قرار دئیے جانے کا موسم، عوام کو مہنگائی کے سونامی میں دھکیلنے کا موسم، مختلف ملکوں کی سرحدیں آپس میں ملانے کا موسم، روحانی ٹیکوں اور حوروں کا موسم، چینی اور آٹا مافیا کو معاف نہ کرنے کے اعلان کا موسم، شوگر مافیا کو پکڑ کر 80ارب کی سبسڈی دینے اور میٹرو ٹرین نہ چلانے، سبسڈی نہ دینے کے اعلان اور دوست صنعتکاروں کو 450ارب کے قرض معاف کا موسم، بحران پیدا ہونے کے باوجود امیر دوستوں کو سبسڈی دینے کا موسم، یوٹرن لیتے رہنے اور عمل کی درستی پر اصرار کرنے کا موسم، ورلڈ کپ جیت کو انفرادی فعل ثابت کرنے اور دہراتے رہنے کا موسم، کرکٹ اور وزارتِ عظمیٰ ایک جیسے قرار دینے کا موسم، ناکامی پر وزارتِ عظمیٰ اور کرکٹ کا فرق بتانے کا موسم، شہباز شریف کی میٹرو بس کو بدنام کرنے کا موسم، پشاور میں مہنگی ترین میٹرو بس شروع کر کے اور مکمل نہ ہونے پر اسکے دفاع کا موسم، سابقہ دور کے منصوبوں پر نئی تختیاں آویزاں کرنے کا موسم، نفرتوں کے چلن کو عام کرنے کا موسم، حکومت پر تنقید کو ذاتی قرار دیکر ہرگز برداشت نہ کرنے کا موسم، پسندیدہ صحافیوں کو کھلے عام نوازنے کا موسم، ناقد میڈیا ہائوسز کو گستاخ قرار دیکر ان پر کریک ڈائون کرنے کا موسم، ناپسندیدہ صحافیوں کو بےروزگار کرنے کا موسم، کارخانوں کو بند کرکے لنگر خانے اور پناہ گاہیں کھولنے کا موسم، سکہ بند ڈاکوئوں کو ساتھ ملائے رکھنے کا موسم، منافقت کو طول دئیے رکھنے کا موسم، مودی کو فون کرتے رہنے کا موسم، کشمیر کا سفیر بن کر باتیں بنانے کا موسم، ٹرمپ ملاقات کو فتح مشہور کرنے کا موسم، مرغی، انڈے، کٹے، بھینسیں اور بکریاں بانٹنے کا موسم، ریاستِ مدینہ کی سوچ کا پروپیگنڈا کرنے کا موسم جاری ہے۔ اب جنگی بیریاں اگانے کا موسم آن پہنچا ہے، لوگو، کان صاف کر لو، اب بیریوں پر جنگلی بیر لگیں گے۔ شہد کی چھوٹی اور بڑی مکھیاں اس پر بلاامتیاز شہد کے چھتے بنائیں گی، دیہاتی اس جنگلی شہد کو شہروں کو بھیجیں گے، شہروں میں موجود ڈسٹری بیوٹر اندرون ملک بیچ کراور برآمد کرکے ڈالر کمائیں گے۔ جب ڈالر آئیں گے تو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھیں گے جب یہ بڑھیں گے تو غیرملکی قرضہ ادا کردیں گے جب غیرملکی قرضہ ادا ہو جائے گا تو مہنگائی کم ہو جائے گی پھر ہم آئی ایم ایف سے آزاد ہو جائیں گے۔ جب آئی ایم ایف سے آزاد ہو جائیں گے تو بجلی اور گیس کے بل مفت ہو جائیں گے۔ ہر طرف روزگار ہی روزگار ہوگا۔ کام کرنے والے نہیں ملیں گے۔ باہر سے لوگوں کو بھرتی کرکے یہاں لانا پڑے گا۔ بنگلا دیش کو اسمارٹ فون بنانے دیں، بھارت کو چاند پر اترنے کی تیاری کرنے دیں لیکن ہمیں تو بیری کے درخت اگانے اور جنگلوں کی طرف جانا ہے۔ کون ہیں یہ لوگ اور کہاں سے لاتے ہیں یہ زبردست اسکیمیں؟ اے لوگو اپنے اذہان کھولو، دور رس نتائج پر مبنی میانوالی کی جنگلی تجویز کو اپنائو اور اپنی زندگیوں میں نیا سبز باغ اگائو! وہ کہتے ہیں گھبرانا نہیں لیکن زبان زد عوام تو یہ ہے کہ ’محال سہنا، بن گیا وبال جینا، نہ ملا تریاق تو، پڑ گیا لہو پینا‘۔