دو نہیں، ایک پاکستان؟

March 02, 2020

ہمارے ہاں جب کبھی کسی بااثر شخص کے خلاف قانون کا گھیرا تنگ ہوتا ہے تو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اب کمزور ہی نہیں طاقتور لوگ بھی قانون کو جواب دہ ہیں مگر ایک آدھ مثال کے بعد پرنالہ وہیں کا وہیں رہتا ہے کیونکہ نشانِ عبرت بنائے گئے طاقتور شخص کو اس سے کہیں زیادہ طاقتور شخص کی خواہش اور فرمائش پر کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہوتا ہے اور یوں احتساب کی آڑ میں انتقام کا ایجنڈا مکمل ہونے کے بعد قانون دیگر طاقتور شخصیات کیلئے حسبِ سابق بھیگی بلی بن جاتا ہے۔

ہمارے ہاں کسی بااثر شخص کا حقیقی معنوں میں احتساب کس قدر مشکل ہے، اس کی زندہ مثال جنوبی پنجاب کے حقوق کا عَلم بلند کرکے اپنی سیاست مضبوط کرنے والے دو وزیر بھائی ہیں۔

جب گزشتہ عام انتخابات سے پہلے چند ارکانِ پارلیمنٹ کا ضمیر اچانک جاگ پڑا، مخدوم کی سربراہی میں صوبہ جنوبی پنجاب محاذ تشکیل دیا گیا تو عوام سے وعدہ کیا گیا کہ ان کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کیلئے پی ٹی آئی کی حکومت ابتدائی 100دن میں نئے صوبے کا تحفہ دے گی لیکن ڈیڑھ سال بعد جنوبی پنجاب کے لوگوں کو نیا صوبہ دینے کے بجائے گائے، بھینس اور مرغیوں کی خیرات دی جا رہی ہے۔

صوبہ جنوبی پنجاب پر ہو رہی سیاست پر پھر کبھی بات ہوگی، فی الحال اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ 2018ء میں رحیم یار خان کی تحصیل خان پور سے تعلق رکھنے والے ایک شہری رئیس احسن ایڈووکیٹ نے قومی احتساب بیورو کو درخواست دی کہ ان کے حلقہ سے منتخب ہونے والے ارکانِ پارلیمنٹ ایم این اے اور ایم پی اے کے اثاثہ جات میں مختصر عرصہ کے دوران کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے قومی خزانے کو لوٹ کر دولت سمیٹی ہے اور بیشتر اثاثہ جات انتخابی گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے گئے یا پھر ان کی مالیت کم ظاہر کی گئی ہے۔ نیب کے علاوہ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا۔ نیب کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب کسی شخص کے خلاف کوئی درخواست موصول ہوتی ہے تو سب سے پہلے اس کی چھان بین، جانچ پڑتال اور تصدیق کی جاتی ہے، شواہد اور حقائق کا جائزہ لیکر اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ آیا اس معاملے کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے یا نہیں۔

اگر کسی موقع پر یہ محسوس ہو کہ کیس بہت کمزور ہے یا پھر درخواست بوگس ہے تو اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ نیب ملتان نے تصدیقی عمل مکمل کرنے کے بعد ہیڈ کوارٹر کو دسمبر 2018ء میں جو مراسلہ ارسال کیا اس میں بتایا گیا کہ رکنِ اسمبلی منتخب ہونے سے پہلے ان کی فیملی کا انحصار 5702کنال زرعی اراضی پر تھا، اس کے علاوہ نہ تو ان کے پاس کسی قسم کے اثاثہ جات تھے اور نہ ہی فیکٹریاں اور کارخانے۔

2004ء میں وہ پہلی بار کابینہ میں شامل ہوئے تو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کا سفر شروع ہو گیا اور انہوں نے مروجہ طریقہ کار کے مطابق اپنے اہلخانہ کے نام پر اثاثہ جات بنانا شروع کر دیے۔

نیب رپورٹ کے مطابق دونوں بھائیوںنے مختصر عرصہ میں 4شوگر ملیں لگا لیں (یہ رپورٹ 2018ء کی ہے، اب مبینہ طور پر انکے اثاثہ جات میں مزید دو شوگر ملوں کا اضافہ ہو چکا ہے) نیب کی یہ رپورٹ جس میں ان شوگر ملوں کے نام بھی بتائے گئے ہیں، میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ دونوں بھائی چار پاور جنریشن کمپنیاں بنا چکے ہیں، چار کیپٹل انویسٹمنٹ کمپنیاں دولت سمیٹ رہی ہیں جبکہ ایک ایتھینول پروسیسنگ کمپنی بھی ان کی ملکیت ہے۔

نیب رپورٹ کے مطابق بڑے شہروں میں کئی قیمتی کوٹھیاں اور گھر بھی خریدے گئے ہیں جبکہ زرعی زمین جو 5702کنال تھی اس میں 2078کنال کا اضافہ ہو چکا ہے اور اب یہ زرعی زمین 7780کنال ہو چکی ہے۔ نیب کے مطابق اس فیملی نے بیرونِ ملک سے 797ملین روپے وصول کیے اور ایف بی آر کی انکم ٹیکس ریٹرن میں بیشتر رقوم کے ذرائع آمدن بتانے کے بجائے ’’دیگر ذرائع‘‘ اور ’’تحفہ‘‘ کی مبہم اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔

اگر اس طرح کے ہوشربا انکشافات کا سامنا کسی اپوزیشن رکن پارلیمنٹ سے متعلق ہوتا تو اسے فوراً دھر لیا جاتا لیکن چونکہ یہ معاملہ ایک وفاقی وزیر کا تھا، اس لیے ’’مٹی پائو‘‘ کی پالیسی اختیار کی گئی۔

شکایت کنندہ رئیس احسن ایڈووکیٹ کے بار بار استفسار کرنے کے باوجود نیب نے کسی قسم کی کارروائی نہ کی تو لاہور ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کر دی گئی۔ جیسا کہ کالم کے آغاز میں بتایا گیا ہے کہ 2018ء میں پہلی بار نیب سے رجوع کیا گیا اور کم و بیش دو سال کی قانونی جنگ کے بعد فروری 2020ء میں نیب نے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ دونوں بھائیوںکے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات سے متعلق کیس نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے اور نیب بورڈ نے ان دونوں کیخلاف انکوائری کی منظوری دیدی ہے۔ یوں لاہور ہائیکورٹ نے یہ درخواست نمٹا دی۔

اب مدعی رئیس احسن ایڈووکیٹ نے چیئرمین نیب کو درخواست دی ہے کہ بیشمار لوگوں کو شکایت موصول ہوتے ہی یا پھر تصدیقی عمل مکمل ہونے کے فوراً بعد گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

اس ضمن میں احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، آغا سراج درانی، مفتاح اسماعیل، آصف زرداری، حمزہ شہباز، فریال تالپور سمیت بیشمار مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر اس وفاقی وزیر کو نہیں چھوا جا سکتا کیونکہ ’’دو نہیں، ایک پاکستان‘‘ کی باتیں محض تقریروں میں ہی اچھی لگتی ہیں ورنہ طاقتور اور کمزور کیلئے ایک پاکستان کسی کو بھی وارے نہیں کھاتا۔