عورت گھر کی رانی، دل کی ملکہ

March 08, 2020

دُنیا بَھر میں ہر سال آٹھ مارچ کا دِن ’’یومِ خواتین‘‘کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس موقعے پر خواتین کے حقوق اُجاگر کرنے سمیت ان سےکی جانے والی زیادتیوں اور صنفی امتیازات کے خلاف بھی آواز بُلند کی جاتی ہے۔نیز، معاشرے میں عورت کے مقام، مرتبے اور قوموں کی ترقّی میں ان کے کردار پر بھی بحث مباحثہ ہوتاہے،جس کا بنیادی مقصد مساوات کو فروغ دینا ہے۔ یہ سب کچھ درست اور بجا ہے، بے شک ان پر بات ہونی چاہیے۔

مَرد و عورت اللہ تعالی کی بہترین تخلیق ہیں۔ دینِ اسلام میں ان دونوں کے حقوق اور فرائض متعین ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ انسانی معاشرے اور تہذیب میں عورت کا ایک منفرد اور ممتاز کردار ہے۔جس کا اندازہ اس سے لگایئے کہ گھر کی چھوٹی سی دُنیا، جو معاشرےکی بنیادی اکائی ہے،اُس گھر کی تعمیر اور بقا میں عورت، مَرد سے زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت کے نرم و نازک وجود ہی سے ایک نیا انسان اس دُنیا میں جنم لیتا ہے اور عورت کی گود اس کی پہلی پناہ گاہ کہلاتی ہے۔ اُس کی محبّت اور توجّہ ہی بچّے کی زندگی اور نشوونما کی ضمانت ہوتی ہے ۔ روتاہوا بچّہ ماں کو ڈھونڈتاہےاووہ ماں ہی ہے، جو اپنے بچّے کی غوں غاںبھی سمجھ کر، اُس کی سب ضرورتیں پوری کردیتی ہے۔ ماں ہی ٹوٹے ہوئے کھلونے جوڑتی اور زخم کھائے دِل پر مرہم رکھتی ہے۔بے ترتیب، بکھری چیزوں کو سلیقہ دینا، صُبح کے ہنگامہ خیز لمحوں کو سمیٹنا عورت ہی کا کمال ہے۔

دوپہر کی کڑی دھوپ ہو یا ڈھلتی شام، گھر واپس آنے والوں کو گھر میں موجود عورت کے محبّت بَھرے وجود کا یقین ہی دوبارہ توانائی دیتا ہے۔ ’’کب،کہاں، کیوں، کیسے، کیا ہوا؟‘‘ یہ کہانیاں عورت ہی سُنتی ہے اور اُسی کے چہرے کی مُسکراہٹ تسلی کا باعث بن جاتی ہے۔بلاشبہ ہر قوم، ہر تہذیب میں گھر بنانے اور گھر سمیٹنے میںعورت کا کردارناگزیر رہا ہے۔ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے روایتی تہذیبی کردار عورت کی شان میں کمی نہیں لاتے، اس کے فخر و امتیاز میں اضافہ کرتے ہیں۔ جدید دَور کے تقاضے سخت ہیں۔ معاش کی دوڑ، معاشرت کی ذمّے داریاں عورت چاہے،نہ چاہے، کہیں مجبوراً کہیں خوش دِلی سےنبھا ہی رہی ہے، لیکن اُسے بحیثیت عورت بھی اپنا بنیادی کردار ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔

اسلام دینِ فطرت ہے اور انسان کی بھلائی کا پَیام بَر بھی۔ خالقِ کائنات نے عورت کو نرم مٹّی سے گوندھا اور اس کی گُھٹی میں محبّت، نرمی اور دِل جوئی رکھی۔ عورت کے ہر روپ کو شرفِ منزلت بخشا، اس کی تعریف و تو صیف کی۔ہر رشتے میں اس کے حقوق کی حفاظت کی۔ گھر کے مَردوں کو عورت سے حُسنِ سلوک کی تلقین کی،تواس کے جان ومال کے تحفّظ کا بھی انتظام کیا۔رفیقِ زندگی کے انتخاب میں اس کی رضامندی کو سامنے رکھنے کا حکم دیا۔عدالت اور ریاست دونوں کو عورت کے حقوق کی ادائیگی کا ذمّے دار بنایا۔عورت کو گھر کا نگہبان بنایا،تو گھریلو ذمّے داریوں کی ادائیگی پر اُس کی پیٹھ بھی تھپکی ۔

خاندان کو قائم رکھنے کے لیے جب ایک عورت اپنی انا قربان کرکےشوہر کی رضامندی ، خوش نودی کو مقدّم رکھتی ہے، تو اسلام اُسے جنّت کی بشارت دیتا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، بڑے نصیب کی بات ہے۔اسلام نے عورت سے صرف ایک مطالبہ کیا، گھر بنانے، اُسے سمیٹنے اور گھر کو جنّت کا رُوپ دینے کا۔پیارے نبیﷺنے بیٹیوں سے محبّت کا حکم دیا، شفقت سے پالنے، ان کی بہترین تربیت کی تعلیم دی۔ بیوی سے حُسنِ سلوک، اس کے نان نفقے کی ذمّےداری شوہر کے لیے لازمی قرار دی، تو ساتھ یہ بھی فرمایا، ’’تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘ توعورت اپنے گھر کی راعی ہے اور اس سے اُس کے گھر کے بارے میں سوال ہوگا ۔

یہ حقیقت ہے کہ معاشرے میں افراتفری کا عالم ہے، گھروں میں بے سُکونی کا راج ہے۔ عورت پر گھر سے باہر کی ذمّے داریاں بھی ہیں، تو گھر کی بھی، لیکن سمجھ دار عورت کو خود سوچنا ہوگا کہ ان ذمّے داریوں میں توازن کس طرح برقرار رکھنا ہے، کہاں رُکنا ہے اور کہاں سے واپس ہو جانا ہے۔گھر بنانا اور گھر بنانے کے لیے قربانیاں دینا، زندگی کے سرد و گرم،اونچ نیچ برداشت کرنا اور اپنے جسم و جاں کو تھکانا جبر اور مصیبت نہیں، راحت ہے۔ اپنے گھر کو آباد کرنے کے ساتھ تعلقات نبھانا، رشتوں کی نازک ڈور سنبھالنا اور معاملات کو ٹھیک رکھنا بھی عورتوں کے حصّے کا کام ہے، جو انہیں کرنا چاہیے۔ بے شک، عورت گھر کی ملکہ، دِل کی رانی ہے، لیکن عورت کو ایک بار پھر اپنے بنیادی فرائض کوسمجھنا، اُن کی ادائیگی کا شعور بیدار کرنا ہوگا کہ اکیسویں صدی سوالیہ نظروں سے عورت کی طرف دیکھ رہی ہے۔