خمارِ گندم (آخری قسط)

March 08, 2020

کھانے کی تاریخ و ارتقاء، فلسفہ، حقائق، روایات اور تجزیات

ناراض دلہے والے تقریب چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ بعدازاں دلہن والوں نے تیس کلو بریانی تحفتاً دلہے والوں کے ہاں بھیجی لیکن وہ واپس آگئی۔ دراصل دلہے والوں کو چکن نہیں بلکہ مٹن بریانی پسند تھی۔ جو لوگ وطنِ عزیز سے ہجرت کرجاتے ہیں ،وہ اپنی تہذیب، مٹی اور خاندان کے علاوہ یہاں کے پکوانوں کو بھی شدّت سے یاد کرتے ہیں۔ پوری ایک نسل گزرتی ہے کھانوں کا ذائقہ زبانوں سے اُتارتے ہوئے۔ بچپن کی یادیں بھی کھانوں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ بہت سے کھانوں یا مسالوں کی مہک سے بچپن کی یاد یں بیدار ہوجاتی ہیں۔ مٹّی کی ہنڈیا میں ہلکی آنچ پر پکا آلو گوشت گاؤں کی یاد دلا دیتا ہے، تو بچپن میں کنوارے چشموں کا ٹھنڈا ٹھار تازہ پانی پینے والا، کبھی شیشے کی بوتلوں میں مِلنے والا فرانسیسی پانی پی کر بھی اُس طرح سیراب نہیں ہوسکتا۔ جس نے آنکھوں کے سامنے تازہ ’’بَڑے‘‘ (بھلے)تل کر نکلتے دیکھے ہوں اور ان سے بنے دہی بَڑوں سے بچپن میں لُطف اندوز ہوا ہو، وہ فیکٹری میں بنے بَڑوں میں وہ پہلا سالطف کہاں پائے گا۔ کھانا پکانا ایک آرٹ ہے۔ یہ فنونِ لطیفہ میں حسِ لمس و حسِ شامہ و حسِ ذائقہ کو بہ یک وقت مطمئن کرتا فن ہے۔ اسے فقط پیٹ بھرنے کا ذریعہ سمجھنا کوڑھ عقلی ہے۔ یہ تو وہ فن ہے جو سینہ بہ سینہ، نسل درنسل منتقل ہوتا ہے۔ تہذیب یافتہ اقوام سیکڑوں برس پرانے ریستورانوں، قدیم گھرانوں اور پکوان کی کتابوں میں ان پکوانوں کو محفوظ رکھے چلی آرہی ہیں۔ وہاں یہ بیش قیمت ضرور ہیں، نایاب نہیں۔ پاکستان کےبھی چند خاندانوں اورگھرانوں میں پکوانوں کی شان دار تراکیب محفوظ چلی آتی ہیں۔ چند روز بعد یہ معاملہ بھی قصّۂ پارینہ ہوا چاہتا ہے، فقط چند روز بعد۔

ریستورانوں، گھرانوں اور پکوان کی کتابوں کو چھوڑیے، یہ جزئیاتِ غذا، تراکیب ونسخہ ہائے بیش قیمت جدید تہذیب یافتہ اقوام نے اپنے سنجیدہ ادب میں محفوظ کرلیے ہیں۔ فِکشن ہی کا معاملہ لیجیے، ان کے قدیم وجدید فِکشن میں کئی کہانیاں باورچی خانے کی زندگی کے گرد گھومتی ہیں، بہت سے ناول اور افسانوں میں انداز و آدابِ طعام کو مرکزی وثانوی کرداروں کی زندگیوں کا ناگزیر جزو بنا دیا گیا اور بے شمار کتابوں میں کرداروں کی خوراک اور اطوارِ طعام سےان کی تہذیب، شائستگی، گنوارپن، طمع، پُرمسرت پُرخوری یا اداسی ظاہر کی جاتی ہے۔ اُن کا کھانا اُن کی معاشی حیثیت اور نفاستِ طبع کا پتا بھی دیتا ہے۔ اگر ایک شخص پیالے میں انگلیاں ڈال کر اُنھیں چاٹ رہا ہے یا رُکابی کو منہ لگا کر یوں شوربا پی رہا ہے کہ اُس کے قطرے داڑھی سے ہوتےقمیص پردھبّےڈال رہے ہیں تو اس کی شخصیت کو بیان کرنے کے لیے مصنف کو بیانیے میں خود اُترنے کی ضرورت نہیں۔

فرانسیسی ناول نگار، ایمائیل زولا نے 1873میں شائع ہونے والے اپنے معرکۃ الآرا ناول ’’شکمِ پیرس‘‘ (The Belly of Paris) میں تمام معاشرتی طبقوں کو پیرس میں سامانِ خوردونوش کے بازاروں کے پسِ منظر میں گُھلتامِلتا دکھایا ہے۔ یہ ناول فرانسیسی محنت کش طبقے اور سیاسی ہیجان کی عمدہ تصویر کشی کرتا ہے۔ ان سب پرکھانے پینے کی اشیا کی اشتہا آمیزمہک، رنگین و خُوشبودار ماحول، طرح طرح کے ذائقے اور ہرقسم کے مشروبات کا لطیف بیان حاوی رہتا ہے۔ ویسے بھی ایمائیل زولا منڈی اوربازار میں دکان داروں، تاجروں، بیوپاریوں اور دلالوں کی گہما گہمی، پیرس کے سَرد موسم میں ریستورانوں میں بھاپ اُڑاتے گرم کھانوں اور گلی کُوچوں کے نکڑوں پر ایک ڈبل روٹی کو ترستے مفلوک الحال لوگوں کی عکّاسی اورغذائوں میں الفاظ کے ذریعے رنگ اور ذائقہ پیدا کرنے کے لیے معروف ہے۔نوبل انعام یافتہ معروف امریکی ادیب، ارنسٹ ہیمنگوے کےپیرس میں قیام کی یادداشتوں پر مبنی 1964میں شائع ہونے والی کتاب ’’اے موویبل فِیسٹ‘‘ میں ہیروں کی طرح دمکتے بیان میں وہاں کے کیفے، مے خانوں اور بیکریوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہیمنگوے کو کھانے اورمشروبات کا اپنی تحریروں میں بارہا تذکرہ کرنے پر خوردونوش کا عمدہ نقّاش مانا جاتا ہے۔

اگر بات ان بین الاقوامی تحریروں کی جانب آئے، جو پاک وہند کے طعام کو خُوب صُورت انداز میں بیان کرتی ہیں، تو کینیڈا کے ادیب، رچرڈ موریسس کا2010 کاناول، جس پر2014 میں کام یاب فلم بھی بنائی گئی، ’’ایک سو فِٹ کا سفر‘‘ ایک ایسے ہندوستانی لڑکے کی کہانی بیان کرتا ہے، جو کھانے کا عُمدہ ذوق رکھتا ہے۔ حسن حاجی نامی مسلمان لڑکے کی دل کش زندگی بمبئی، فرانسیسی الپس سے ہوتی ہوئی پیرس تک چلی آتی ہے۔ وہ اپنے محبت بھرے گھرانے کو ایک انڈین کھانوں کا ریستوران چلاتا دیکھتے ہوئے ایک ایسی فرانسیسی شیف کےہاں کھانا پکانے کی تربیت لیتا ہے، جو اپنے لیے تیسری مرتبہ عُمدہ ریستوران وپکوان کا امتیازی انعام حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس ناول کی ایک خُوب صُورتی اس کے مرکزی کردار کا یوں مدھم پڑتے جانا ہے کہ بالآخر دیگر نمایاں کردار اپنے تمام تر دمکتے اوصاف کے ساتھ نمایاں تر ہوجائیں۔

پاک وہند میں چینی کھانا نہایت مقبول ہے۔ ایمی ٹین (Amy Tan) ایک چینی امریکن مصنّفہ ہے، جس کی وجۂ شہرت اس کا ناول ’’دی جوائے لَک کلب‘‘ (The Joy Luck Club)ہے۔ اس میں چار ادھیڑپن سے بڑھاپےکی جانب سفر کرتی چینی عورتوں کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو باقاعدگی سے ماہ جونگ کھیلنے اکٹھی ہوتی ہیں، اپنے بچّوں کے بارے میں باتیں کرتی ہیں اور چینی کھانے کھاتی ہیں۔ ناول میں اس نے کھانے، کھانے کے گرد چند دوست، خوراک بہ طور علامت اور کئی نسلوں پرمحیط چینی تارکینِ وطن کے امریکا میں تجربات کا احاطہ کیا ہے۔ ویسے یہ تذکرہ بھی برمحل ہے کہ چین کی موجودہ نوجوان نسل کو مُلک کی معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنے کی جانب نصابی اور تعلیمی طور پر اس بُری طرح مصروف کیا گیا کہ وہ اپنی حقیقی چینی ثقافت و خوراک سے کٹ گئے۔ آج کی نسل اپنے روایتی پکوانوں کی تیاری سے ناواقف ہے اور یہ عام گھرانوں میں میسّر نہیں۔ ایسے پکوان فقط بازاروں، ریستورانوں اور ہوٹلوں میں پیشہ ور شیف تیارکرتےہیں۔ مشہور ادیبہ، چترا بنرجی دیو کارُونی کا انعام یافتہ اور مستند ناول ’’مسالوں کی حکم ران‘‘ (Mistress of Spices) بھارتی ناولز کی ہر اُس فہرست میں شامل ہے، جسے جنوبی ایشیائی ثقافت و مزاج سمجھنے کےلیےضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس ناول میں ٹِلو نامی لافانی جوان عورت کی کہانی ہے، جو مسالوں کی ایک دکان کی مالکن ہے اور اِن کے خواص اور اُن کے شفائیہ اثرات سے غیرمعمولی واقفیت رکھتی ہے، البتہ ایک رومان اُسے ایسے دوراہے پر لے آتا ہے، جہاں اُسے اپنی موجودہ ماورائی خوبیوں والی زندگی اور ایک عام انسان کی زندگی میں سے انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ یہاں اسےاحساس ہوتاہےکہ مسالوں کی وہ شفائیہ خوبیاں جواُسےاپنی غیرمعمولی ماورائی صلاحیتوں کی وجہ سے معلوم ہوجاتی ہیں، ہر مرض کا علاج کرسکتی ہیں،مگر ایک عورت کی ناآسودہ نسوانی خواہشات کاشافی علاج نہیں کرسکتیں۔ اردو ادب میں پکوانوں اورخوراک کا سرسری یاضمنی تذکرہ تو ضرور موجود ہے، مگر اُن کی تفصیل اگرموجود ہے تو خواتین ادیبوں کے ہاں۔ اور ہمارا ادب تب تک حقیقی زندگی کا عکّاس نہیں ہوسکتا، جب تک یہاں کے وسیع خاندانی نظام کی اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے ساتھ عکّاسی نہ کرے۔ اردو ادب میں عورتیں خاندانی زندگی کی بہتر عکّاس ثابت ہوئی ہیں۔ اسی طرح خوراک کا زیادہ بھرپور بیان عورتوں کی تحریروں میں ملتا ہے۔ اے آر خاتون سے لے کر خدیجہ مستور اور رضیہ بٹ تک خواتین ادیب پاکستانی فرد کی حقیقی زندگی کی بہترین عکّاسی میں عُنصرِ خوراک کو خُوب برتتی ہیں۔ شمس الرحمان فاروقی اپنے شان دار ناول ’’کئی چاند تھےسرِ آسماں‘‘ میں پکوانوں کی تفصیل بیان کرکےاِس صنف میں بھی نمایاں ترین ادیب ٹھہرتے ہیں۔ ہندوستان کےخالدجاوید کے ہاں بھی اردو ناول ’’نعمت خانہ‘‘ متذکرہ موضوع کو چُھوتا ہے۔ اے حمید کے ہاں سماوار، چائے، امرت سر کے کُلچوں اور کشمیری پکوانوں کاخُوب تذکرہ ہے۔ دیگر مرد ادیبوں نےبھی اس موضوع کو چُھوا ہے، پرفقط چُھوا ہے۔ راقم نے اپنی خاکوں کی کتابوں ’’دروازے‘‘ اور’’سُرخاب‘‘ میں شکیل عادل زادہ کےساتھ عمدہ کھانوں سے لےکر منشا یاد کے دَور کے روایتی دیہی کھانوں تک قریباً ہردوسرے خاکے میں خوراک کو ایک ناگزیر جزو کے طور پر لیا۔ اسی موضوع کا پاکستانی انگریزی ادیبوں میں سب سے زیادہ تذکرہ ایچ ایم نقوی کے ناول ’’عبداللہ کو سیک کی منتخب تحریریں ‘‘ میں ملتا ہے، جس میں کراچی کے چائے خانوں اور ہوٹلوں کے علاوہ قیمہ آلو، بریانی، سجّی، سکنجبیں، پراٹھوں، نہاری، نارنجی پلاؤ، روح افزا اور پاکولا وغیرہ تک کا تذکرہ ہے اور یہ تذکرہ شہر کے ماحول کی نقّاشی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

چند لوگوں نے خواب دیکھا تھا اور وہ خواب تھا، ’’عالمی معاشرے‘‘ کا۔ مساوی حقوق سمیت تمام شہری برابر مراعات حاصل کریں۔ تعلیم، صحت، خوراک، زندگی اور تفریح کے مواقع ہر کسی کو بہم میسر ہوں، اِن لوگوں میں برٹرینڈرسل جیسے عظیم فلسفی سے لے کر عام لوگ تک شامل رہے ہیں، البتہ ’’عالمی خوراک‘‘ کا تصوّر نیا ہے۔ اسے ’’متبادل خوراک‘‘ کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ اس میں انسان کے لیے تمام ضروری لوازم شامل ہوں گے، سوائے ذائقے کے۔ اور شاید ذائقہ بھی شامل کیا جاسکے، مگر اس میں وہ مولوی مدن کی سی بات کہاں۔ ایک تحقیق کے مطابق ایک عام آدمی اپنی زندگی کے بتیس ہزار گھنٹے کھانے پینے میں صرف کرتا ہے۔ کھانے کے تنّوع اور اس کی بنیادی ضرورت سے بڑھ کر تعیّش میں شامل ہونے کی ایک علامت کھانے سے متعلق بے شمار رسائل اور الیکٹرانک میڈیا پروگرامز ہیں، مگرآج بھی تیسری دنیا میں جب ایک شخص ہزاروں روپے کے کھانے کا لقمہ اُٹھاتاہے، تو اِسی شہر میں کوئی دوسرا شخص کچرے کے ڈھیر سے پھینکے ہوئے کھانے کی طرف لپکتاہے۔ خوراک صرف زراعت، بین الاقوامی تجارت، تیکنیکی ارتقاء، صحت، معیشت، مذہب، جنگ وجدل اور دیگر علوم ہی سے منسلک نہیں بلکہ انسانی نفسیات و معاشرت کی خبر بھی لے کر آتی ہے۔ کسی شخص کی کھانے پینےکی پسند سے اُس کی شخصیت کُھل کر سامنے آجاتی ہے۔ لارسن اورسٹوری کی اکیسویں صدی کی تحقیق کے مطابق بچّے وہ کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں، جو اُن کے پسندیدہ کردار یا لوگ کھاتے ہیں، نہ کہ وہ پکوان، جو اُن کے والدین پسند کرتے ہیں۔ وہ کھانے میں اپنے بڑے بھائی بہنوں اور ہم جولیوں کی پسند کو ترجیح دے کر اس کی نقل کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ایک وسیع پیمانے پر کی گئی ساڈیلا اور بارو کی امریکی تحقیق کے مطابق، جس میں انھوں نے لوگوں کی خوراک کی پسند سے اُن کے مزاج وغیرہ کو جانچا، فاسٹ فوڈ کھانے والے لوگ زیادہ تر مذہبی اور روایت پسند متوسّط طبقے سے تعلق رکھتےہیں، جو پولیسٹر کپڑے کابنا لباس پہنتے ہیں، صحت بخش خوراک کو جمہوریت پسند اور آزاد خیال لوگ زیادہ پسند کرتے ہیں، سبزی خور(جن میں اب یورپیئن اور امریکیوں کی بڑی تعدادشامل ہوچُکی ہے) عموماً صلح جُو لوگ ہوتے ہیں، جو قیمتی گاڑیوں سے جلد مرعوب ہوجاتے ہیں، جب کہ کھانوں کے انتخاب میں مخصوص ذوق اور خاص پسند رکھنے والے لوگ نفیس مزاج کے آزاد رَو اور انفرادیت پسند افراد ہوتے ہیں۔ یوں جب ایک آدمی کے سامنے اس کا فرمائشی پکوان رکھا جاتا ہے، تو وہ صرف ایک رُکاب کھانا نہیں ہوتا، بلکہ ایک ’’جامِ جہاں نُما‘‘ ہوتا ہے، جس میں وہ ہزاروں برس کی انسانی تحقیق، جستجو اور جدّت کو نہ صرف دیکھ سکتا ہے بلکہ سونگھ اور چکھ بھی سکتاہےاوروہ مَن پسند کھانا اُس آدمی کی فطرت، مزاج اورطبقے کی خبر بھی دیتاہے۔