تلک نہ ہوتا تو میں بھی مر جاتا

March 03, 2020

پرانی دلّی کی گلیوں میں ویرانی ہے، وحشت ہے، ہر طرف خوف کے سائے ہیں۔ یہی شہر ہے جہاں کبھی تم حکمران تھے، آج اسی شہر میں تمہارے بہن بھائی زندگی کی بھیک مانگ رہے ہیں، موت خوف بن کر اُن کا پیچھا کر رہی ہے۔

شمال مشرقی دلی اجڑے دیار کا منظر پیش کر رہی ہے۔ جعفر آباد، بھجن پورہ، موج پور اور مصطفیٰ آباد یہ سب علاقے کھنڈرات بن گئے ہیں، یہاں سب کچھ جلا دیا گیا، کئی زندہ انسانوں کو آگ میں جھونک دیا گیا۔ دلی میں ہر طرف دھواں تھا، سیاہ دھویں کے بادل دلی کے آسمان کو چھو رہے تھے۔

دلی کی ہر کہانی دکھی کر دینے والی ہے مگر محمد سلیم کی کہانی میں کئی موڑ ہیں، ہر موڑ پر دکھ، غم سے ملتا ہے، دونوں مل کر خوب روتے ہیں۔

ایک ہندو خاتون رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے محمد سلیم کہتا ہے ’’میں شیو وہار میں رہتا ہوں، پریم وہار کی گلی نمبر ایک میں میرا گھر ہے، میں گزشتہ پینتیس برسوں سے وہاں رہ رہا ہوں۔

میرے آس پاس کچھ ہندوئوں کے گھر ہیں، جونہی جلائو گھیرائو کرنے والے آئے تو محلے کے ہندوئوں نے گھر کے باہر کھڑی کار کا بتایا، وہ میری کار لے گئے پھر اُنہوں نے کار کو پھونک دیا، کار کو آگ لگا کر انہوں نے میرے الماریوں کے کارخانے کو جلایا، قریب ہی میرا بھائی ایک جھگی میں رہتا تھا۔

انہوں نے میرے بھائی کی جھگی کو آگ لگائی، اسے پکڑ کر گلی میں لائے، اسے کھڑا کرکے دو گولیاں ماری گئیں، میرا بھائی گر گیا، وہ گر کر زخمی حالت میں اٹھا تو اسے پھر گرا دیا گیا، بس پھر وہ اٹھ نہ پایا، اُسے پانچ چھ افراد نے پکڑ کر جلتی آگ میں پھینک دیا۔

میں ایک ہندو کے گھر کی چھت سے یہ سب دیکھ رہا تھا، اگر میں بھی وہاں جاتا تو وہ مجھے بھی زندہ نہ چھوڑتے، میرے چار بچے ہیں، میں ان چھوٹے بچوں اور بیوی کو لے کر ایک ہندو دوست کی چھت پر چلا گیا، گویا میں نے پناہ لی، انہوں نے مجھے چھت پر تالا لگا کر بند کر دیا کہ کہیں مجھے مار نہ دیا جائے۔ اس دوران گھر کا سامان لوٹ لیا اور پھر گھر جلا دیا گیا۔ میں بیوی بچوں سمیت جس ہندو کے گھر پر تھا۔

انہوں نے ہمیں کھانا کھلایا، رات کو ساڑھے نو بجے اس ہندو نے مجھے کہا کہ سلیم بھائی اگر تم میرے گھر سے اسی طرح نکلو گے تو یہ ہندو مجھے نہیں چھوڑیں گے بلکہ مجھے کہیں گے کہ تم غدار ہو، اگر آپ کو جانا ہے تو پھر میں آپ اور آپ کے بچوں کو تلک لگا کر، ہندوئوں کا پورا روپ دے کر گھر سے نکالتا ہوں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔

ہم سیدھا نہیں جا سکتے تھے لہٰذا ہم نے پچھلی گلی لی، پتا نہیں میں کہاں کہاں گھومتا رہا، میرے بیوی بچے مجھ سے بچھڑ گئے۔ بس پھر خدا کا کرنا مجھے ایک رستہ مل گیا جو مجھے محمڈن بستی کی طرف لے آیا، یہاں دانش اور شمشیر بھائی سے میری بات ہو چکی تھی، میں نے گلی کے نکڑ پر تلک مٹایا تو کچھ لڑکوں نے پوچھا، تم ہندو نہیں ہو، میں نے کہا نہیں۔ میں مسلمان ہوں، ہندوئوں کے علاقے سے آیا ہوں۔

اگر آج یہ تلک نہ لگاتا تو میں مر جاتا۔ اللہ کا شکر ہے میرے بیوی بچے دانش بھائی کے گھر پہنچ گئے۔ اب میرے بھائی کی لاش وہاں پڑی ہوئی ہے، جلی ہوئی لاش ہے مگر میں اسے دفن کرنا چاہتا ہوں، پولیس مجھے دھمکیاں دیتی ہے، تھانے بلاتی ہے۔

میں کہتا ہوں کہ مجھے بھی مروانا چاہتے ہو، میرا رہا ہی کیا ہے، گھر جل گیا، کاروبار کو آگ لگ گئی، میرے پاس کچھ بھی نہیں، میں بہت پریشان ہوں۔ میں اکیلا رہ گیا ہوں، پولیس مجھے دھوکا دے رہی ہے، میں پولیس کے ہتھے نہیں چڑھنا چاہتا، وہ سب ہندوئوں کا علاقہ ہے، وہ مجھے مار دیں گے‘‘۔

دلّی میں کسی ایک محمد سلیم کی یہ حالت نہیں بلکہ دلی کے ہر محمد سلیم کو قیامت کا سامنا ہے، بھارت کے سب سلیموں کو غلامی کے تھپیڑے پڑ رہے ہیں۔ اس تکلیف دہ صورتحال پر ستاون اٹھاون مسلمان ریاستوں کے حکمران چپ ہیں، کوئی بھارت سے احتجاج بھی نہیں کر رہا۔

سب کے سفارتی، تجارتی تعلقات ہیں۔ شاید ان نام کے مسلمان حکمرانوں نے وہ حدیث مبارکہ نہیں پڑھی جس میں سب مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے۔

مسلمان حکمرانوں کو اپنے بہن بھائیوں سے زیادہ اپنی تجارت سے غرض ہے، اپنے خون سے زیادہ مال سے محبت ہے۔ پتا نہیں ان مسلمان حکمرانوں کو قبریں بھی یاد ہیں یا نہیں، ممکن ہے انہیں یہ خیال ہی نہ آتا ہو کہ کسی نہ کسی دن انہیں اللہ کے ہاں پیش ہونا ہے، کسی نہ کسی روز اپنے پیارے رسولﷺ کو شکل دکھانی ہے، سب بےفکر حکمران ہیں، غلامی پر خوش ہیں، غلام ہی مرنا چاہتے ہیں۔

خواتین و حضرات! مسلمان حکمرانوں کو چھوڑ دیجئے، ذرا ایک ارب ستر کروڑ مسلمانوں کی طرف دیکھئے، ان کا سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ ’’.اس وڈیو کو زیادہ سے زیادہ شیئر کرو، جس نے یہ وڈیو شیئر نہ کی، اس کا نقصان ہو جائے گا‘‘۔

جیسی مسلمان حکمرانوں کی حالت ہے قریباً ویسی ہی مسلمان عوام کی عادات ہیں، ایک مشاعرہ میں شمع ان کے سامنے آئی تو اہلِ لکھنٔو میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ یہ کون حضرت ہیں، کہاں سے آئے ہیں؟ میر تقی میرؔ نے ڈبڈبائی آنکھوں سے محفل کو دیکھا اور پھر گویا ہوئے کہ؎

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو

ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی جہاں رُوزگار کے

اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے