آج بیٹیوں، نواسیوں، پوتیوں سے باتیں کریں

March 08, 2020

آج اتوار ہے۔ خواتین کا عالمی دن۔

ایک ہنگامہ برپا ہے۔ عورت مارچ ہو یا نہ ہو۔ کون سے نعرے لگیں۔ عورت کیا ہے، کیا نہیں ہے۔ اصل مقصد کہیں پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ ہم جذباتی قوم ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ ہم پیغمبر آخر الزماںؐ کی امت میں سے ہیں۔ سب سے بڑا اعزاز اور شان تو ہماری یہ ہے۔ پھر ہم ایسے خطّے میں آباد ہیں جہاں آٹھ دس ہزار سال پہلے سے تہذیب و تمدن کے آثار ملے ہیں۔ جہاں صدیاں اپنے دامن میں شائستگی، سلیقہ اور قرینہ لیے گزرتی رہی ہیں۔ جب ہمارا مذہب اسلام رہتی دُنیا تک کے لیے اکمل کیا گیا ہے تو قادرِ مطلق نے اس میں سارے آتے زمانوں کے تقاضوں اور ضرورتوں کا اہتمام رکھا ہے۔ یہ ہمارے سمجھنے اور اسکالرز کے سمجھانے پر منحصر ہے۔ آزادیٔ نسواں کا مفہوم بھی متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم قبیلوں کی طرز پر رہنے والے اپنی رسوم و قیود کو اسلامی قیود و حدود کا نام دے دیتے ہیں۔ اس لیے پھر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب سوشل میڈیا پر عورت مارچ کے نعروں پر لفظی جنگیں چھڑی ہوئی ہیں۔ ایسی ایسی اصطلاحات استعمال ہو رہی ہیں کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ یا تو وہ ساری تعلیم بےکار ہے۔ جو دینی مدارس، اسکولوں، کالجوں یونیورسٹیوں میں دی جا رہی ہے یا ہم اس پر عمل نہیں کرتے، یا پھر وہاں یہی کچھ پڑھایا جا رہا ہے جس کا اظہار سڑکوں اور موبائل فونوں پر ہو رہا ہے۔ عورت کے نام پر سینکڑوں تنظیمیں بنی ہوئی ہیں۔ جنہیں غیر مسلم ملکوں کی حکومتیں لاکھوں ڈالرز کا عطیہ دیتی ہیں۔ ان ممالک کے آزادیٔ نسواں کے اپنے معیار ہیں۔ یہ ممالک ہم میں سے اکثر کی پسند ہیں۔ ان کے ویزے، گرین کارڈ اور شہریت حاصل کرنے کے لیے ہم بےتاب رہتے ہیں۔ ہمارے علما، سیاسی رہنمائوں اور اکثر خاندانوں کی اولادیں وہاں منتقل ہو چکی ہیں۔ اگر ہمیں وہاں کے معاشرے اتنے پسند ہیں کہ ہم وہاں جاکر قیام کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ ہمارے معاشرے کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے مالی امداد بھی دے رہے ہیں پھر ہمیں اعتراض کیوں ہے۔

چلیے۔ چھوڑیے اس بحث کو۔ لسان العصر (اپنے زمانے کی زبان) اکبر الٰہ ا ٓبادی کہہ گئے ہیں۔

مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں

فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں

ہم یہ کرتے ہیں کہ جو دن عورت سے موسوم رکھا گیا ہے اسے اپنی بیٹیوں، پوتیوں اور نواسیوں کے ساتھ گزاریں۔ بات کرکے دیکھیں کہ ان کے کیا خیالات ہیں۔ عورت دن کے حوالے سے ان کے کیا سوالات ہیں۔ یہ مت سوچیں کہ انہیں کچھ خبر نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ جو اسمارٹ فون ان کے ہاتھ میں ہے، یہ جادو کی ڈبیا ہے۔ پوری معلوم دنیا اس میں سمائی ہوئی ہے۔ یہ ہم بڑوں سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں۔ ان کے ذہنی آفاق ہم سے کہیں زیادہ بلند اور کہیں زیادہ وسیع ہیں۔ آپ انہیں کچھ سکھانے کے لیے بیٹھیں تو ممکن ہے کہ آپ ان سے کچھ سیکھ کر اٹھیں۔ زمانہ آگے بڑھ رہا ہے۔

اتوار کو جب آپ کو ان سے مکالمہ کرنا ہو تو پہلے سے تیاری کر لیا کریں۔

میرے سامنے کئی کتابیں سجی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ یورپ میں نشاۃ ثانیہ اور احیائے علوم کا آغاز مسلمانوں کی کتابوں کی بدولت ہوا۔ صرف ایک کتاب کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ مارک گراہم کی تصنیف How Islam Created the Modern World۔ چھٹی صدی عیسوی سے مسلمانوں نے کیسے یونانی علوم کو عربی میں منتقل کیا۔ بغداد کیسے فلسفے، سائنس، میڈیکل، فلکیات، انجینئرنگ اور بحریات کی تدریس و ترویج کا مرکز بنا۔ یہود و نصاریٰ اس امر کا اعتراف کر رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکی اور یورپی اسکالرز نے تاریخ اسلام کا جتنا از سر نو تفصیلی مطالعہ کیا ہے مسلمان اسکالرز نے بھی نہیں کیا۔ بچوں کو بتائیں کہ احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں۔ جن علما اور مصنّفین کی تحریروں سے یورپ تاریک دَور سے نکل کر روشن عہد میں منتقل ہوا ہم ان کی اولادوں میں سے ہیں۔ کاش ہم ان کی تصنیفات براہِ راست پڑھ سکیں۔ یہود و نصاریٰ نے تو صرف بچوں کے لیے بھی الگ سے کتابیں مرتب کی ہیں۔ جن میں تصدیق کی گئی ہے کہ مسلمانوں نے کائنات کو جاننے کے لیے کیسے کیسے آلات ایجاد کیے۔

عورت کی آزادی میں بھی ہم مسلمان کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ جنوبی ایشیا جو سب سے پسماندہ ہے، غربت کا مرکز ہے، یہاں عورت کو حکمرانی کا حق دیا گیا۔ بھارت، سری لنکا، بنگلا دیش، پاکستان میں 1970ء سے خواتین منتخب ہوکر وزارتِ عظمیٰ سنبھالتی آ رہی ہیں۔ امریکہ میں تو اب تک کوئی خاتون صدر نہیں بن سکی ہے۔ عورت کو ووٹ کا حق بھی مردوں کے ساتھ ہی مل گیا ہے۔

یہاں بیٹیوں، پوتیوں، نواسیوں کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا آرڈن کے بارے میں بھی بتائیں کہ اس نے گزشتہ سال انتہا پسند سفید فام کے مسجد پر حملے کے بعد کس فراست سے کام لیا کہ دنیا بھر میں اسے بہترین حاکم کہا جانے لگا۔ اسی طرح 10دسمبر 2019سے فن لینڈ کی وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہونے والی ثنا میریلا میرین کا بھی ذکر کریں کہ یہ سوشل ڈیمو کریٹ کس احسن طریقے سے ملک چلا رہی ہے۔ اس کی کابینہ میں بھی عورتیں زیادہ ہیں۔ ان کے ظاہری حسن پر نہ جائیں۔ ان کی باطنی خوبیوں کی بات بھی کریں کہ ان ملکوں میں جھوٹ نہیں بولا جاتا۔ عہدے میرٹ پر ملتے ہیں۔ جاگیر داریاں نہیں ہیں۔ مافیا نہیں ہیں۔ کوئی ادارہ دوسرے اداروں کے امور میں مداخلت نہیں کرتا۔

بیٹیوں، پوتیوں، نواسیوں کے حوصلے بلند کریں۔ انہیں تاریخ پڑھنے اور سمجھنے کی طرف راغب کریں۔ نہ صرف اپنی تاریخ بلکہ یہود و نصاریٰ کی بھی۔ جذبات پر پھروسہ نہ کریں۔ تحقیق و تنقید اپنے روز مرہ میں شامل کریں۔ عورت کی تعلیم ہی اس کی سب سے بڑی محافظ اور معاون ہے۔ اس کی گود میں آئندہ صدیاں پلتی ہیں۔