پانچ سالہ دورِ حکمرانی

March 20, 2013

جناب خالدالمعینا سعودی عرب کے معروف انگریزی اخبار عرب نیوز کے ایڈیٹرانچیف ہیں۔ وہ 1960ء کے اواخر اور ستّر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پاکستان میں مقیم رہے۔ وہ کراچی یونیورسٹی میں انگریزی زبان وادب کے طالب علم تھے اور وہ اردو بھی بڑی روانی سے بولتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ستّر کی انتخابی مہم اپنے عروج پر تھی۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر سننے کا بڑا اشتیاق تھا۔ وہ پیپلزپارٹی کے ایک دوست کے ساتھ بھٹو صاحب کی تقریر سننے کراچی کی ایک کارنر میٹنگ میں گئے جہاں عوام کا جوش وجذبہ دیدنی تھا۔ بقول خالد المعینا بھٹو آندھی کی طرح آئے اور بگولے کی طرح چلے گئے۔ وہ خوب گرجے، برسے اور انہوں نے عوام کی قسمت بدل دینے کے بڑے بڑے دعوے کئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ پیپلزپارٹی کے ایک لیڈر کے گھر گئے جہاں ایک مختلف بھٹو بزبان انگریزی پھلجڑیاں چھوڑ رہے تھے۔ انہوں نے ترنگ میں آکر کہا میرا مقصد عوام کی قسمت بدلنا نہیں بلکہ مکمل اقتدار کا حصول ہے۔ خالدالمعینا کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب کی کرشماتی شخصیت کا یہ تضاد دیکھ کر میں نے دل میں کہا کہ اب اس قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔پہلے روز سے پیپلزپارٹی کا ہدف خوشحالی نہیں حکمرانی ہے، بھٹو صاحب نے وعدہ تو روٹی، کپڑا اور مکان کا کیا تھا مگر انہوں نے صنعتوں، کارخانوں اور کاروباروں کو قومیا کر عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا۔ یہی پالیسی محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے دونوں ادوار حکومت میں اختیار کی اور انہوں نے اپنے شوہر آصف علی زرداری کو کرپشن اور مال بنانے کی کھلی آزادی دے رکھی تھی۔ انہوں نے بھی روٹی،کپڑا اور مکان کے نعرے کی طرف کوئی توجہ نہ دی ۔تاہم آصف علی زرداری کے زیر سایہ اور زیر نگرانی بننے والی پیپلزپارٹی کی پانچ برس تک بلا روک ٹوک جاری رہنے والی حکومت ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سروے کے مطابق پاکستان کی 65 سالہ تاریخ کی بدترین حکومت رہی ہے۔5سال میں قومی خزانے کے 180کھرب روپے اس حکومت نے لوٹے اور انہیں بیرون ملک بنکوں میں منتقل کرایا۔ 2008ء میں پنجاب سب سے زیادہ کرپٹ صوبہ تھا مگر 2010ء میں صوبہ خیبرپختونخوا سب سے زیادہ کرپٹ صوبہ ابھر کر سامنے آیا اور اے این پی کی حکومت نے بھی دونوں ہاتھوں سے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ پیپلزپارٹی نے سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اپنے اتحادیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی کہ خود بھی کھاؤ پیو مزے کرو اور ہمیں بھی ہاتھ رنگنے دو۔
کراچی میں ایم کیو ایم، اے این پی اور دوسری کئی سیاسی جماعتوں کے جدید ترین اسلحے سے لیس عسکری گروپوں نے نشانہ کشی سے عام شہریوں کو ٹھکانے لگانے،گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کرنے، پلاٹوں پر قبضے کرنے اور بھتہ وصول کرنے میں نئے ریکارڈ قائم کئے۔ اس دوران سندھ کی صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ کے کسی حکم پر عملدرآمد کیا اور نہ ہی وہ ہائیکورٹ کے احکامات کو خاطر میں لائی۔ اس سارے دور حکمرانی میں اگر جہاز نہیں اڑتے تھے تو نہ اڑا کریں، ٹرینیں نہیں چلتی تھیں تو نہ چلا کریں، ملیں اور کارخانے نہیں کام کرتے تھے تو نہ کیا کریں، غریبوں کو روزگار نہیں ملتا تو نہ ملا کرے، بجلی نہیں آرہی تھی تو نہ آیا کرے، گیس نہیں ملتی تو نہ ملا کرے، عوام بھوکے مرتے ہیں تو مرتے رہیں، سڑکیں گداگروں سے بھرتی ہیں تو بھرا کریں انہیں اس کی کوئی پروا نہیں۔ اس دوران صدر آصف علی زرداری اور اُن کے ساتھی ذاتی خزانہ بھرتے رہے، امریکہ، انگلستان، فرانس، اسپین اور متحدہ عرب امارات میں اپنے کاروباروں کو مزید وسعت دیتے رہے۔ پاکستان میں کراچی، اسلام آباد، نواب شاہ وغیرہ کے بعد لاہور میں بھی انہوں نے اپنا محل تعمیر کرالیا۔96 وزیروں کی فوج ظفر موج کے ایک ایک وزیر کاسالانہ خرچہ 16کروڑ روپے اور ایک ایک وزیر کو عالیشان گھر رہائش کے لئے دیا گیا ۔ہر وزیر کو ماہانہ 50ہزار یونٹ فری بجلی دی گئی ،علی ہذا القیاس ان پانچ سالوں میں اس غریب ملک کو ایک ایک وزیر اربوں میں پڑا ہے۔حکومت کا بنیادی کام لوگوں کی جان ومال کی حفاظت ہوتا ہے مگرجتنا ان پانچ سالوں میں عوام کا خون بہایا گیا ہے اتنا گزشتہ 65برس میں نہیں بہایا گیا۔ دہشت گری عروج پر رہی قتل وغارت گری عروج پر رہی، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عروج پر رہیں، بھتہ خوری عروج پر رہی، چوری اور سینہ زوری عروج پر رہی اور اس سارے منظر نامے میں حکومت ایک خاموش تماشائی بنی رہی اور مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قتل وغارت گری اور لوٹ مار پر اپوزیشن نے بھی ایوان کے اندر اور باہر کوئی جاندار احتجاج نہ کیا۔ پیپلزپارٹی نے ان پانچ برس میں لوگوں کے منہ سے روٹی، اُن کے تن سے کپڑا اور اُن کے سر سے چھت چھین لی ہے اور ستّر فیصد اس عوام کے رستے ہوئے زخموں پر نمک پاشی کے لئے پیپلزپارٹی نے اپنا نیا منشور جاری کیا ہے۔
اسکا منشور وہی روٹی، کپڑا اور مکان ہے اور ہم مزدور کو کم از کم 18 ہزار تنخواہ دیں گے۔ مزدوروں کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کیلئے ٹکٹ بھی دیں گے۔ یہ منشور پیش کر کے پیپلز پارٹی نے خود اپنے خلاف چارج شیٹ جاری کر دی ہے۔ جو جماعت گزشتہ 42برس میں چار بار برسراقتدار آکر غریب عوام کو نہ روٹی دے سکی، نہ کپڑا مہیا کر سکی اور نہ ہی انہیں اپنی چھت سے نواز سکی تو اس سے بڑی وعدہ خلافی اور نااہلی اور کیا ہو گی۔گزشتہ پانچ برس میں پیپلزپارٹی سیاہ و سفید کی مالک رہی۔ اسے فوج کی طرف سے کوئی خطرہ تھا نہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی چیلنج درپیش تھا اور نہ ہی بیوروکریسی سے کوئی شکایت تھی۔خوشحالی اور امن و سلامتی کے حوالے سے پنجاب کا جائزہ لیا جائے تو اس کا پانچ سالہ ریکارڈ بھی کسی طرح قابل رشک نہیں۔
صرف اتنا ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پنجاب میں اس بار دوسرے صوبوں کی نسبت کم کرپشن تھی۔ خادم اعلیٰ کے کریڈٹ میں لاہور کی میٹروبس سروس اور لیپ ٹاپ کی تقسیم صرف دو چیزیں ہیں۔ وہ بارہا ترکی تشریف لے گئے مگر وہ ترکی سے اُن کا وژن اپنے ساتھ نہیں لائے۔ ترکی کا وژن یہ ہے کہ ہر تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ شخص کے لئے روزگار کی ضمانت، عوام کے جان و مال کی مکمل حفاظت، ہر شہری کے لئے میڈیکل انشورنس، اپنی زبان میں ہر بچے کے لئے یکساں تعلیم، چائلڈ لیبر کا مکمل خاتمہ، گداگری کا نام و نشان بھی نہیں۔ ان میں سے تو ایک کام بھی خادم اعلیٰ نے نہیں کیا۔ نہ توانائی کا بحران حل کیا نہ صوبے کو کوئی مستقل اقتصادی بنیاد فراہم کی، نہ غریبوں کے لئے مفت تعلیم کا بندوبست کیا نہ طبقاتی تعلیم کا خاتمہ کیا۔ خادم اعلیٰ نے چند دانش اسکول تو ضرور قائم کر دیئے مگر پنجاب میں ہزاروں اسکول ایسے ہیں جہاں طلبا و طالبات کے سروں پر چھتیں نہیں۔ تیسری قوت کا بھی بڑا شور ہے دیکھنا یہ ہے کہ 23 مارچ کو عمران خان مینار پاکستان پر کیا منشور دیتے ہیں اور اس پر عملدرآمد کا کیا پروگرام پیش کرتے ہیں۔ سابق صدر مشرف بھی اسی اُمید پر آرہے ہیں کہ یہاں تیسری سیاسی قوت کی بے حد ضرورت ہے۔ فی الحال تو عوام گزشتہ پانچ سالہ دورِ حکمرانی کے لگائے ہوئے زخموں سے چور چور ہیں۔