نئے سیاسی اور سماجی منظر کے ممکنہ کردار

March 21, 2013

اگر آپ نے حالیہ برسوں میں سیاسی بیانات اور اخباری کالموں پر غور کیا ہو تو ایک نیا لفظ آپ کی نظر سے گزرا ہو گا۔لفظ تو شاید نیا نہیں، اسے ایک نئے مفہوم میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ ’حکمران نااہل ہیں‘ ’حکمرانوں کو سبق سکھا دیا جائے گا‘۔ ماضی میں یہ لفظ لاریوں کے عقب میں لکھے نعروں میں استعمال کیا جاتا تھا۔ ٹریڈ یونین کے کارکن یا کالج کے طالب علم آپے سے باہر ہوتے تھے تو اسی دو ٹوک لہجے میں نعرے بلند کرتے تھے لیکن اب یہ لفظ مستند سیاسی رہنما بھی استعمال کر رہے ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جمہوریت میں حکمران اور رعایا کا کوئی تصور نہیں۔ حکمران کا مطلب ہے حکم چلانے والا۔ جمہوریت میں حکمرانی نہیں، حکومت ہوتی ہے اور وہ ایک نیابتی ذمہ داری ہے۔ جمہوریت میں حکم چلانے کا تصور نہیں۔ عوام اپنی آزادانہ رائے سے کچھ شہریوں کو یہ امانت سونپتے ہیں کہ وہ ایک مقررہ مدت کے لئے حکومت کا انتظام سنبھالیں اور ایسے قوانین اور پالیسیاں بنائیں جن سے عوام کا معیار زندگی بلند کیا جا سکے۔ بچوں کیلئے تحفظ ، نوجوانوں کے لئے خوشی اور بزرگوں کے احترام کی ضمانت دی جا سکے۔
غیر آئینی چھتر چھایا سے پاک جمہوریت کی پہلی میعاد اپنے اختتام کو پہنچی۔ ذرائع ابلاغ کے کچھ حصوں کی یکطرفہ کرم نوازیوں کے طفیل یہ تاثر عام ہے کہ حالیہ جمہوری دور عوام کو کچھ نہیں دے سکا۔ اس تاثر کو مضبوط کرنے میں جمہوریت کے دیگر بدخواہوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے تاہم یہ تاثر پورا سچ بیان نہیں کرتا۔ حالیہ جمہوری دور میں ساختیاتی اعتبار سے بہت سے اہم مرحلے طے کئے گئے۔ اس دوران ایسے ضابطے تشکیل دیئے گئے جن پر حقیقی جمہوریت کی عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے دستور کا پارلیمانی تشخص بحال کیا گیا۔ صوبائی خود مختاری کا دائرہ وسیع کیا گیا۔ قومی وسائل کی تقسیم کا فارمولا طے کیا گیا۔ بلوچستان کے استثنیٰ کے ساتھ وفاق کی دیگر اکائیوں میں باہم اعتماد پیدا ہوا۔ سیاسی اختلاف کے ضمن میں تحمل اور برداشت کی روایت پیدا ہوئی۔ ان اقدامات میں جہاں حکومت نے وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا، وہاں حزب اختلاف نے بھی وسعت نظر سے کام لیا۔ دوسری طرف یہ بھی درست ہے کہ جمہوری عمل کا دوسرا اور کہیں زیادہ اہم حصہ نظر انداز ہوا۔ معیشت کی بحالی کیلئے ضروری اقدامات نہیں کئے جا سکے۔ صنعت اور زراعت میں کسی دور رس منصوبے کے آثار نظر نہیں آئے۔ دہشت گردی کے خلاف رائے عامہ تذبذب کا شکار رہی۔ امن و امان اور انسانی حقوق کی صورتحال دگرگوں رہی۔ تعلیم اور صحت عامہ جیسے شعبوں میں بہتری پیدا نہیں ہو سکی۔ انتخابی مہم کی گرماگرمی اپنی جگہ لیکن غالباً اس مرحلے پر مناسب ہو گا کہ سیاسی قیادت سے یہ تقاضا کیا جائے کہ آئندہ جمہوری میعاد کے دوران جمہوریت کے حقیقی وظیفے یعنی عوام کے معیار زندگی میں بہتری لانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ عوام کا معیار زندگی معیشت سے تعلق رکھتا ہے۔ معیشت کی اپنی ایک منطق ہوتی ہے جس کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے اجتماعی زندگی کے دیگر تمام شعبوں میں مطلوبہ تبدیلیاں لانا پڑتی ہیں۔ ہم اپنی خارجہ پالیسی اور داخلی ترجیحات میں مناسب تبدیلیاں لائے بغیر معیشت کو صحیح راستے پر نہیں ڈال سکتے۔ معاشی ترقی کیلئے پانی سے چلنے والی موٹر کار کے منصوبوں، بیرونی امداد اور ترسیلات زرکے من و سلویٰ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے پیداواری بنیاد کو وسیع کیا جاتا ہے اور سرمایہ کاری کے لئے موزوں ماحول پیدا کیا جاتا ہے۔ بیرونی منڈیوں کے ساتھ موافق تعلقات استوار کئے جاتے ہیں۔ محصولات کی ادائیگی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ بظاہر یہ اقدامات معمول کا معاملہ نظر آتے ہیں لیکن ان کے لئے قومی ترجیحات میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور عوام کے ان طبقات کی نشاندہی بھی ضروری ہے جو ان تبدیلیوں میں اپنے لئے بہتری کا سامان دیکھ کر ان کی تائید کر سکیں۔
اب سے 45 برس پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کے طرز کہن کو تبدیل کرنا چاہا تو انہوں نے تین طبقات کا انتخاب کیا۔ کسان ، مزدور اور طالب علم۔ ساٹھ کی دہائی کے آخر میں طالب علم دنیا بھر میں تبدیلی کا نشان تھے۔ مزدوروں اور کسانوں کے لئے آواز بلند کرنا بھٹو صاحب کی سہ جہتی سیاست کے اشتراکی پہلو کا تقاضا تھا۔ دس برس بعد ضیاء الحق نے پاکستان کا دھارا رجعت پسندی کی طرف موڑنے پر کمر باندھی تو اس نے بھی تین طبقات کا انتخاب کیا تاہم ضیاء الحق کا رخ محروم طبقات کے بجائے درمیانے طبقے کی طرف تھا۔ جس میں اسے تاجر، ملّا اور پیشہ ور یعنی تنخواہ دار گروہ کی حمایت ملی۔ آج کا پاکستان مذہبی پیشوا اور شہری متوسط طبقے کے تصور عالم کا شاخسانہ ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ضیاء الحق کے زیر سرپرستی طبقات کو غیر سیاسی ہیئت مقتدرہ سے بھی پوری پوری مدد ملی۔ آج تین بنیادی حقائق تبدیل ہو چکے ہیں۔ غریب اور امیر میں خلیج بڑھنے کے باعث درمیانہ طبقہ سکڑ چکا ہے اور محروم طبقے کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ فرقہ واریت اور دہشت گردی کے باعث ریاست اور معاشرے کے تار و پود بکھر رہے ہیں۔ تیسری تبدیلی یہ ہے کہ اطلاعات کے مطابق ہیئت مقتدرہ سیاسی عمل میں مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتی۔ ان تینوں عوامل کی موجودگی میں ایسی سماجی تبدیلی کیلئے نئے طبقات کی نشاندہی کرنی چاہئے جو پاکستان کے موجودہ رجعت پسند کردار کو تبدیل کر سکیں۔
عورتیں پاکستان کی آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ ان کے خلاف امتیازی قوانین اور سماجی تعصبات ختم کر کے انہیں فعال معاشی سرگرمیوں میں شریک کئے بغیر معیشت کو مقابلے کے قابل نہیں بنایا جا سکتا۔ دنیا کے تمام معاشروں کی طرح پاکستان میں بہت سے گروہ عددی اعتبار سے اقلیت کا درجہ رکھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ گروہ ریاستی اور سماجی سطح پر امتیاز کے باعث اجتماعی دھارے سے کٹ چکے ہیں یا گہرے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اگر انہیں معاشی، قانونی اور سماجی سطح پر مساوی رتبے اور حقوق کا یقین دلایا جائے تو اس سے نہ صرف رواداری اور قومی یکجہتی کی غیر معمولی فضا پیدا ہو گی بلکہ معاشی طور پر بھی ناقابل یقیں بہتری پیدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت ہے۔ دنیا بھر کے نوجوانوں کی طرح ہمارے بچے بھی شخصی آزادیوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کی سہولتیں فراہم کرنا ایک اہم ترجیح ہے لیکن اگر آج کی دنیا میں محض بنیادی ضروریات کی فراہمی سے بچوں کو مطمئن کرنا ممکن ہوتا تو تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ممالک کے بچے باگ تڑا کر مغرب بھاگنے کے خواب نہ دیکھتے۔ ہمارے بچوں کو ثقافتی آزادی کی سخت ضرورت ہے۔ موجودہ صورت میں تو اچھی تعلیمی کارکردگی دکھانے والے بچوں کی اکثریت ترک وطن کر جائے گی۔ ہم جس ممکنہ افرادی قوت کی مدد سے ترقی کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ ادھورے رہ جائیں گے۔ تحریک انصاف نے اپنی سیاست کا رخ نوجوانوں کی طرف کرکے درست قدم اٹھایا ہے لیکن عمران خان کی سیاسی اور سماجی اقدار نوجوانوں کی وجودی ضروریات پوری نہیں کر سکتیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ بچے تعلیم تو کمپیوٹر اور مالیات کی پائیں اور ان کی تفریح بغداد اور فرغانہ سے درآمد کی جائے۔ معیشت اور سماجی اقدار میں چولی دامن کا تعلق ہے۔ اگر پیداواری سرگرمیوں میں نوجوانوں کی شرکت یقینی بنانا ہے تو ہمیں موجودہ سماجی گھٹن دور کرنا ہو گی ورنہ ہمارے نوجوان وزیرستان کے قاری حسین محسود کی بنائی جنت کی تصویریں دیکھ کر خودکش بمبار بنتے رہیں گے۔