بلوچستان میں 50 ایکڑ پر ایمرجنسی ہیلتھ سٹی کے قیام کا آغاز

March 26, 2020

پوری دنیا میں تیزی سے تباہی پھیلانے والے کرونا وائرس کی شدت میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ، بلوچستان حکومت جس نے پہلے دن سے اس وبا پر قابو پانے کے لئے کوششوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا کی جانب سے اقدامات کا سلسلہ بدستور جاری ہے ، صوبائی حکومت کی جانب سے وائرس سے ممکنہ طور پر بچاو اور اب تک اس وائرس کے مشتبہ افراد کے علاج و دیگر کو قرنطینہ میں رکھنے کے لئے مسلسل اقدمات کیے جارہے ہیں جب تک اس وائرس کی شدت ملک میں اتنی زیادہ محسوس نہیں کی گئی تھی تب تک بعض صوبوں کی جانب سے بلوچستان حکومت کو ایران سے ملک میں آنے والوں کے حوالے سے تنقید کا نشانہ ضرور بنایا گیا تاہم اب دیگر صوبوں نے بھی بلوچستان حکومت کے اقدامات کو سراہا ہے ان سطور کے تحریر کیے جانے تک بلوچستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 104 ہوگئی ہے۔

21 مارچ تک سرکاری سطح پر چیف سیکرٹری بلوچستان کیپٹن (ر) فضیل اصغر کی جانب بلوچستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 104 ہونے کی تصدیق کی گئی ہے سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ یہ تمام لوگ ایران سے آنے والے زائرین ہیں اور اس وقت کرونا کے تمام کیسز کوئٹہ میں ہی ہیں ۔ این ڈی ایم اے کی جانب سے صوبے کو تفتان کےلئے 600 اور چمن کے لئے 300 کنٹینر فراہم کئے جارہے ہیں جن میں تمام سہولیات موجود ہیں جبکہ پی ڈی ایم اے کو راش بیگز ، اشیاء خوردونوش کی فراہمی کے لئے ذمہ داری سونپ دی گئی ہے ، کم ازکم 2 ہزاروں مریضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آلات و ادویات خریدئے جارہے ہیں اور ان کے لئے ایک ایک کمرے کا سیٹ بنایا جارہا ہے جس میں ایک بستر اور باتھ روم ہوگا ، اس وقت تفتان میں 500 لوگ موجود ہیں جبکہ ایران سے مزید 1 سے 2 ہزار افراد کے آنے کی بھی توقع کی جارہی ہے۔

جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے 50 ایکڑ پر ایمرجنسی ہیلتھ سٹی کے قیام پر کام کا آغاز کردیا گیا ہے جہاں 2 ہزار افراد کی گنجائش کے ساتھ مکمل طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی ، حکومت بلوچستان کی جانب سے یہ میڈیکل سٹی چشمہ اچوزئی کے مقام پر بنائی جارہی ہے جدید سہولیات سے آراستہ میڈیکل سٹی میں 1 ہزار کمرے ، وارڈز ، دفاتر ہونگے میڈیکل سٹی کی تعمیر کا کام ایف ڈبلیو کو دیا گیا ہے اڑھائی ماہ کی مدت میں کام مکمل کیا جائے گا انجمن تاجران نے 22 مارچ سے کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں دو ہفتے تک تمام کاروبار بند رکھنے کا اعلان کردیا تاہم دودھ ، دہی ، سبزی ، گوشت ، میڈیکل اسٹور سمیت دیگر اشیاخورد و نوش کی دکانیں اس سے مستثنیٰ ہونگی ۔ جبکہ اس سے قبل صوبائی حکومت کی جانب سے اس وبا سے نمٹنے کے لئے ایک ارب روپے کا فنڈ قائم کردیا گیا ہے حکومت بلوچستان نے 19 مارچ سے صوبے بھر میں شاپنگ مالز ، مارکیٹس ، ریسٹورنٹ ، بین الصوبائی اور شہر کے اندر پبلک بسوں کو تین ہفتے کے لئے بند کردیا تھا ، محکمہ داخلہ و قبائلی امور کے جاری کردہ ایک اعلامیہ کے مطابق حکومت بلوچستان کی جانب سے کرونا وائرس کے لئے بنائی گئی۔

کور کمیٹی کے فیصلے پر عملدآمد کرتے ہوئے صوبے بھر میں شاپنگ مالز ، رش والی مارکیٹیں ، ریسٹورنٹ بند کردیئے گئے ہیں صرف ہوم ڈیلوی اور ٹیک اووے کے لئے کھلے رہیں گے ، محکمہ ماحولیات حکومت بلوچستان کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں ٹوٹنے کیلئے لنگر انداز ہونے والے ہر قسم کے بحری جہاز اور آئل ٹینکرز پر چار ہفتوں کیلئے پابندی عائد کردی گئی ہے ۔ اعلامیہ کیمطابق بعد از پابندی تمام ناکارہ بحری جہازوں کو گڈانی کے ساحل پر لنگر انداز ہونے کیلئے حکومت بلوچستان کے محکموں سے مکمل اور باقاعدہ اجازت نامہ اور کلئیرنس سرٹیفیکٹ طلب کرنا ہوگا ۔ صوبے میں جزوی لاک ڈاون کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ اگرچہ اب تک صوبائی حکومت نے مکمل کی بجائے جزوی طور پر لاک ڈاؤن کیا ایسی صورتحال میں شاپنگ مالز ، بڑی دکانوں ، ریسٹورنٹس سیمنا ہالز اور بہت ساری چیزوں کے نہ کھلنے سے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہ ہو لیکن اب بھی کوئٹہ شہر میں بعض مقامات پر لوگوں کا بلاجواز رش ہے بلوچستان حکومت لاک ڈاؤن کے حوالے سے مزید اقدامات اٹھائے گی اگر لوگ احتیاط نہیں کرینگے تو 100 فیصد لاک ڈاؤن کی طرف بھی جاسکتے ہیں ۔ اسی دوران بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن رہنماوں نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے اقدامات کی بجائے وفاقی اور صوبائی حکومت نے غیر سیجیدگی کا مظاہرہ کیا ۔

بلوچستان حکومت ہنگامی بنیادوں پر انسداد کرونا وائرس کیلئے پانچ سے دس ارب روپے مختص کرکے بنیادی ضروریات اور آلات کی دستیابی کو یقینی بنائے ۔ شہر کے گنجان آباد علاقوں میں کورنٹائن بنانا کوئٹہ کے لوگوں کو اجتماعی طور پر آگ میں جھونکنے کے متردادف ہوگا ، حکومت شہر سے دور کورنٹائن سینٹر قائم کرے ۔ جس پر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ صوبائی حکومت نے کوئٹہ کے چند مقامات پر موجود سرکاری عمارتوں میں آئسولیشن وارڈز اور قرنطینہ بنانے کیلئے پیشرف کی تاہم وہاں علاقہ مکینوں نے آکر کام کرنے نہیں دیا جو انتہائی افسوسناک ہے ، آئسولیشن وارڈز صرف زائرین کیلئے نہیں اگر کل خدانخواستہ کوئٹہ شہر میں یہ وبا ءپھیلتی ہے تو انہی عمارتوں میں لوگوں کو منتقل کریں گے ، گلی محلوں میں تو کسی کو آئسولیشن میں نہیں رکھا جاسکتا اور نہ ہی علاج کیا جاسکتا ہے دوسری جانب صوبائی وزراء اور حکومت بلوچستان کے ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں اپوزیشن کو آڑئے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن تنقید برائے اصلاح کرے 5 ہزار افراد کو قرنطینہ میں رکھنا آسان کام نہیں تھا جب سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کو یہ کام کرنا پڑا تو انہوں نے حکومت بلوچستان کی تعریف کی ، اب تک 4 ہزار سے زائد زائرین کو قرنطینہ میں رکھنے کے بعد ان کے صوبوں میں بھیجا گیا ہے ، انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ ہم 10ہزار لوگوں کو بغیر قرنطینہ میں رکھے انکے شہروں میں جانے دیتے ایسا کرنے سے ملک بھر میں مرض کئی گنا زیادہ پھیلنے کا اندیشہ تھا ہمیں عوام کے دکھ درد کا احساس ہے اور انہیں بہترین طبی امداد فراہم کریں گے ۔