سائنس دانوں کے باعث دنیا تباہی کے دہانے پر...؟؟

April 05, 2020

صاحبِ ادراک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا میں جتنی ترقّی ہوئی، وہ سائنس کی بدولت ہوئی ، لیکن سائنس کی تعریف میں مبالغے کی حد سے آگے نکل جانا اور اسے یَک سر رحمت قرار دینا قطعاً درست نہیں۔ عصرِ حاضر میں دنیا نے ایٹمی اور کیمیائی اسلحے کے نتیجے میں بنی نوع انسان اور تمام جان داروں کو نابود کرنے کا سامان کیا ہے۔ ایک جانب، ٹیکنالوجی کی بعض دریافتوں نے انسان کوروبوٹ بناکر فطرت سے دُورکردیا ،تو دوسری جانب، انسان فطرت سے دوستی کے بجائے محاذ آرائی پر اُتر آیا ہے۔ اگر اسی تناظر میں کہا جائے کہ جاہل سائنس دانوں نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، تو بہت سے اہلِ فکر و دانش کو یہ موقف برا لگے گا۔

ان دِنوں چین کے شہر، ووہان سے پھیلنےوالے ایک وائرس، کووڈ-19نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہوئی ہے،اب تک پاکستان سمیت دنیا کے 190سے زاید ممالک اس وبا کی لپیٹ میں آچُکےہیں۔ چین برق رفتاری سے عالمی معاشی دوڑ میں آگے بڑھ رہا تھا، نت نئی ایجادات میں مصروف تھا، لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اس کی معیشت کو کافی نقصان پہنچا۔ اب تو اس وبا نے اقوامِ عالم کو موت کے خوف میں مبتلا کردیا ہے۔یہی وبائی ہسٹیریا پاکستان میں بھی پھیل چُکا ہے۔لیکن شُکر ہے کہ ہمارے ہاں اب کچھ ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں، جس سے اس وبا پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

یہ بات بھی زیرِ غور ہونی چاہیے کہ پاکستان میں ہر سال آلودہ اور جوہڑوں کا پانی پینے سے بچّوں سمیت قریباً ڈھائی لاکھ افراد لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔اس بارے میں ایک کالم نگار نے لکھا ’’ اچھا ہے، اس طور سے آبادی کم ہو جائے گی۔‘‘ جس کے جواب میں لکھا گیا کہ ’’ اگر ہم ڈھائی لاکھ افراد کو بچانے کے قابل ہوتے، تو ایسی اموات ہوتیں اور نہ آبادی کی یلغار ۔ ‘‘اس طرح کی سوچ کو یہ علم بھی نہیں کہ سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیز کے جاہل سائنس دان منافعے کے لیے فارما سیوٹیکل کمپنیز کو وائرس پھیلانے کے نسخے بھی تھما دیتے ہیں ،خاص طور پر تیسری دنیا میں اس قسم کے وائرسز کبھی ڈینگی کے نام پر ،تو کبھی برڈفلو کی صُورت پھیلائے جاتے ہیں۔ بعد ازاں، ویکسین اور ادویہ دریافت کی جاتی ہیں اور ان کی برآمدات سے خُوب منافع کمایا جاتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں چند ڈاکٹرزکا ایک گروہ بھی ان ہی لوگوں کے ساتھ مل جاتاہے، جو امراض کی تشہیر کرکے اپنی ’’مربی‘‘ کمپنیزکی ادویہ مریضوں کو لکھ کردیتے ہیں،جس سے انہیں بیش بہا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام منافعے اور ہوس کی خاطر انسان کو برباد کرنے کی تمام حدیں پار کر رہا ہے۔ یہ تو سبھی مانتے ہیں کہ سائنس ، ٹیکنالوجی اور صنعت و حرفت کی ترقّی نے انسان کو بہت سی آسائشیں بہم پہنچائی ہیں ،لیکن اس امر سے چشم پوشی بھی نہیں کی جا سکتی کہ جدید صنعتی دوڑ اور نیوکلیائی اسلحے نے خوف ناک مسائل بھی پیدا کیے ہیں، جن کی وجہ سے پراکسی جنگوں میں انسانوں کی ہلاکت خیزیاں اور خون ریزیاںبھی جا ری ہیں ، تومنافع خوروں، اسلحہ ساز فیکٹریوں کو فروغ بھی دیا جا رہا ہے۔ شمالی یورپ کے کارخانوں کے دھوئیں، بخارات سے مل کر سیکڑوں میل دور تیزابی بارشیں ہو رہی ہیں، آبی پودوں کی تعداد کم ہونے لگی ہے۔

سوشل سائنس کے ماہرین ایک عرصے سے تحقیق کر نے کے ساتھ لکھ بھی رہے ہیں اور سائنس دانوں کومتنبّہ بھی کر رہے ہیں کہ ’’آپ نے انسان کو چالیس ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے سے صبر و محنت اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے سیّارے کو فتح کرنے میں لگا رکھا ہے، تو اس نے اپنا تسلّط دوسری تمام مخلوقات پر قائم کرکے فطرت کی وسیع قوّتوں کو مطیع کرلیا ہے۔‘‘دراصل انسانی تاریخ کو ٹالسٹائی کے ناول ’’وار اینڈ پیس‘‘ کے تناظر میں پرکھا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مصنّف نے انسانوں کی انسانوں پر فتح پانے کی اس ازلی خواہش کو، جو ہر دَور میں جنگوں کے حوالےسے برسرِپیکار رہی ہے، ناول کا موضوعِ سخن بنایا ہے۔ طاقت وَر انسانوں کے گروہ نے کم زوروں پر قابو پاکر ایک طبقاتی نظام کی بنیاد رکھی ،اس لیے طاقت وَر گروہ آغاز ہی سے اجڈ اور غیر مساوی مقابلے میں فتح یاب رہا۔

کرۂ ارض کا ایک بھی گوشہ اس کی جانچ پڑتال سے نہ بچ سکا۔ جانوروں کی کوئی بھی قِسم اس کے مقابلے میں نہ ٹک سکی ،اس نے دریاؤں ، سمندروں پر بھی مسلّط ہونے کی کوشش کی، جنگلوں اور زرخیز زمینوں کا صفایا کرنے میں منافع خوری اور ارتکاز ِدولت کو اتنا بڑھا دیا کہ دنیا کے دو ہزار سرمایا داروں کی دولت 4ارب عالمی آبادی کی مجموعی دولت سے بھی زیادہ ہو چُکی ہے۔

آج یہ طاقت وَر گروہ فضائے بسیط میں اُڑتا چلا جا رہا ہے۔ برٹرینڈرسل مغرب کے جانے مانے ریاضی دان اورفلسفی ’’معاشرے پر سائنس کے اثرات‘‘ میں جنگ اور سائنس کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’سائنس کا جنگ کے ساتھ تعلق بتدریج زیادہ گہرا ہوتا گیا ہے۔ یہ تعلق ارشمیدس سے شروع ہوا ،جس نے اپنےچچا زاد بھائی، سراکوس کے ظالم وجابر فرماںروا کی رومیوں کے خلاف 212قبلِ مسیح میں مدد کی ۔‘‘پلوٹارک کی ’’حیات مارسلس‘‘ میں جنگ میں استعمال ہونے والی اُن مشینوں کاذکر ہے،جو ارشمیدس نے ایجاد کیں ۔ 65سال پرانا رسل کا مضمون یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر دَورکا سائنس دان یا ٹیکنالوجسٹ ، سرمایا داروں اور طاقت وَروں کا ساتھ دیتا آیا ہے۔ ایک طرف دولت کا ارتکاز ،دوسری جانب اوزون کی تہہ میں سوراخ ،تیسری جانب بڑی طاقتیں ماحول میں بہتری لانے کے لیے کاربن ٹیکس ادا کرنے سے انکاری ہیں ۔خاص طور پر امریکا اس انکار میں پیش پیش ہے۔

یہ لوگ ہوس کے مارے سٹّہ باز اور سود خور ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ دنیا کے تمام صنعتی مراکز میں تیزابی دھوئیں، فیکٹریوں سے نکلا ہوا کیمیائی سیال، کیڑے مار ادویہ ، انٹرنیٹ ، سیلولرفونز اور دیگر برقی آلات کی فضا میں نہ نظر آنے والی لہریں بھیانک بیماریوں کا موجب بن رہی ہیں ،لیکن اس ٹیکنالوجی کے منفی اثرات کے بارے میں کوئی نہیں جانتا، نہ ہی کوئی پوچھتا ہے۔ اب آپ دیکھیں کیڑے مار ادویہ اور ان کا کثرت سے استعمال فصلوں کو آلودہ کر رہا ہے، لیکن محض منافع خوری کے لیے انسان کی بربادی کی جا ر ہی ہے۔ نسیم خور ہوائی جہازوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ،فضائی ہوا کو آلودگی سے دوچار کررہا ہے۔

سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ آلودگی کی وجہ سے انسانی امراض میں بھی طرح طرح کی پیچیدگیاں نظر آنے لگی ہیں۔ مثبت سوچ رکھنے والے سائنس دانوں کی بہت بڑی تعداد نہ صرف سائنس اور تعلیم بلکہ معاشرے کی موجودہ عمومی صورتِ حال سے مطمئن نہیں ۔انہیں علم ہے کہ بڑی اجارہ دارکمپنیاں نہ صرف وائرس پھیلاتی ،جنگوں کو ابلیس کے باغ کا آخری پھول سمجھتی ہیں، بلکہ بڑے سلیقے سے اپنا منافع کمانے کی خاطر سائنس کا غلط استعمال بھی کر رہی ہیں۔ ایک مشہور سرمایا دار، ریس موگ کا کہنا ہے کہ ’’ہم خوش نصیب ہیں کہ دنیا کا غریب جاہل ہے۔

یہی وجہ ہے جب قدرتی آفات اور بیماریوں کا نزول ہوتا ہے، غربت اور جہالت بڑھتی ہے اور جوں جوں غریبوں کے لیے طبقات کی اوپری پرتوں میں جانے کا امکان کم ہو جاتا ہے، توں توں ان کا دنیا کے بارے میں ایک بھٹکا ہوا نظریہ زیادہ مقبول ہو جاتا ہے۔ پھرٹیکنالوجی کی بجائے وہ جادو ٹونہ استعمال کرتے ہیں ، آزاد تحقیق کی بجائے لکیر کے فقیر بن جاتے ہیں،تاریخ کی بجائے دیومالائی قصّے کہانیوں سے مرغوب ہوتے ہیں۔ اسی لیے لوٹ مار کرنے والے عالمی سامراج کے حاشیہ بردار، پیروی میں جہالت پر وائرس کے حملے کرواتے ہیں اور کبھی کبھی چین جیسے مُلک میں بھی سائنس دان ذہانت کے گرداب میں پھنس کرکورونا وائرس کا شکار ہوجاتے ہیں۔‘‘

سیارۂ ارض کو درست حالت میں لانے کے لیے بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے، سائنس دانوں کو سرمائے کا اسیر نہیں ہونا چاہیے، انہیں اس عہد تشویش کو تبدیل کرنے کی طرف راغب ہونا چاہیے ۔اسی لیے جوزف اسٹک گلٹسنر، نوبل انعام یافتہ معیشت دان اور سابق عالمی بینک 2006ءکا مشیر، اپنی کتاب ’’نابرابری کی قیمت ‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’سرمایہ داری کو رحم دل بنانے کے لیے سوشل ازم کی آمیزش ضروری ہوگئی ہے۔‘‘ اس تجزیے کے حوالے سے پاکستان کو دیکھیں ،تو صاف نظر آتا ہے کہ ترقّی پاکستان میں دَم توڑ رہی ہے انسانی تربیت ناپید ہو رہی ، قدرتی وسائل کے لیے ہنرمند لوگ نہیں ،نہ کوئی تعلیم کا معیار ہے ۔زندگی کے معیاروں کا چڑھتا اور وسائل کا ڈوبتا سورج، سوائے وائرسز کی دہشت، جہالت کے اندھیرے ،وسائل کی بربادی، بھوک اور بے روزگاری کے اور کیا منظر پیش کرسکتا ہے…؟؟