انسان درندگی میں درندوں سے بھی آگے

March 23, 2013

ممتاز ہندوستانی صحافی اورکالم نگار جاوید نقوی نے اپنے سپہ سالارجنرل بکرم سنگھ کے ان معذرت خواہانہ خیالات سے مکمل اتفاق کیاہے کہ ہندوستان کی مسلح افواج کے خصوصی اختیارات کے ایکٹ (AFSPA) کو تبدیل ، ختم یا نرم کرنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ اس کے بغیر جموں و کشمیر میں ہندوستانی فوج پرعصمت دری، آبرو ریزی، گینگ ریپ اور قتل کے کھلم کھلا الزامات شدت اختیارکرجائیں گے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے اخلاقی دیوالیہ پن کی بدنامی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
جاوید نقوی کے الفاظ میں (AFSPA) کوتبدیل یا نرم کرنا اصل مسئلہ نہیں ہے۔اصل مسئلہ جموں کشمیر پرسے فوجی قبضہ اٹھانے کا ہے۔ کوئی فوج اپنے آپ کو سول انتظامیہ کی اتھارٹی کے تحت دیکھنا پسند نہیں کرتی۔ امریکی فوج بھی یہ نہیں کرسکتی ورنہ عراق، افغانستان کی تمام جیلیں فوجی قیدیوں سے بھری ہوئی ہوتیں۔ صحیح ہے کہ جسٹس ورما کمیشن نے حال ہی میں یہ تجویز کیا ہے کہ نئی دلّی میں بس کے اندر طالبہ کے گینگ ریپ کے بعد جنسی تشدد کے خدشات اور خطرات کوقابو میں لانے کے لئے (AFSPA) کو ختم یا نرم کیا جائے اورفوجیوں کو سول حکمرانوں کے سامنے قانونی طور پر جواب دہ بنایا جائے۔ خاص طور پر جنسی تشدد کی وارداتوں کا سول عدالتوں میں احتساب کیا جائے۔بفرض محال اگر ایسا ہوتا ہے توبھی سرعام قتل اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں اورلوگوں کو منظرعام سے غائب کردینے کے واقعات کا کیا تدارک ہوگا اور اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ فوجیوں کے فرائض میں نام نہاد باغیوں اور مخالفوں کوقابو میں لانے کے لئے ان کی عورتوں، بہنوں اور بچیوں کی عصمت دری بھی شامل ہے۔ اس لرزہ خیز صداقت کو قانونی ضابطے اور سول تہذیب کے تحت کیسے لایاجاسکے گا۔ ورما کمیشن کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ہندوستانی پارلیمینٹ نے آبروریزی کی وارداتوں کے خلاف ایک قانون صرف ایک تہائی ممبران پارلیمینٹ کی موجودگی سے پاس کیا دیگر تمام ارکان پارلیمینٹ ڈگمگاتی ہوئی حکومت کو بچانے کی کوششوں میں مصروف تھے کیونکہ حکومت کے لئے لازمی ایک تامل رکن نے اقتدار چھوڑ دیا تھا اور وجہ یہ بتائی تھی کہ دہلی نے جافنا تامل کی سری لنکاکے فوجیوں کے ہاتھوںآ بروریزی کے خلاف کوئی موثرکارروائی نہیں کی تھی۔یہ ایک شرمناک مگر سب کے علم میں آنے والی حقیقت ہے کہ کشمیر، منی پور اور دوسرے علاقوں سے ہندوستانی فوجی وہی کچھ کررہے ہیں جو کسی بھی متنازع علاقے میں سرکاری فوجی کر رہے ہوتے ہیں اورباغی عناصر بھی سرکاری علاقوں میں وہی کچھ کرتے ہیں جو ان کے ساتھ ہو رہاہوتاہے۔ دونوں جانب خواتین اپنی زندگی کی المناک ترین اور انسانیت کو شرمانے والی وارداتوں کی اذیت سے گزر رہی ہوتی ہیں۔کون نہیں جانتا کہ جاپانی فوجیوں نے کوریا کی عورتوں کے ساتھ کیا کچھ کیا تھا؟ افریقی قبیلوں نے اپنے مخالف قبیلو ں کی عورتوں اور بچیوں کے ساتھ کس نوعیت کے ظلم و ستم کو جائز سمجھا۔ بوسنیا کی خواتین کو کس نوعیت کی شرمناک اذیتوں سے گزرنا پڑا۔ امریکہ بہادر کی فوجوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران گیارہ ہزار سے زیادہ جرمن عورتوں کی بے حرمتی کی اور ان کے نام نہاد انسانی حقوق کی بے حرمتی متاثر نہیں ہوئی۔ 1945 میں جرمنی میں تقریباً تمام عورتوں، لڑکیوں اوربچیوں کی اجتماعی بے حرمتی تنی ہوئی بندوقوں کے سائے میں کی گئی۔سوویت فوجوں نے جرمنی میں کم ازکم دس ہزار عورتوں کی عزت لوٹی۔ ایسی تمام وارداتیں سوویت قبضے میں آنے والے جرمن علاقے میں ہوئیں۔ ہسپتالوں میں اسقاط ِ حمل کے ریکارڈز سے پتہ چلتاہے کہ صرف برلن میں کم از کم ایک لاکھ جرمن عورتوں کو جنسی تشددکانشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے دس ہزار عورتیں اپنی ناجائزاولاد سے نجات پانے کی کوششوں کے دوران ماری گئی تھیں۔یہی اور ایسے ہی شرمناک حقائق ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان سے بڑا کوئی فرشتہ نہیں ہے تو انسان سے بڑا کوئی شیطان بھی نہیں ہوگا۔ انسان اگرکسی کی جان لے سکتا ہے تو کسی کے لئے اپنی جان دے بھی سکتا ہے اور کبھی کبھی انسان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ درندگی میں درندوں کو بھی بہت پیچھے چھوڑ جائے۔ غالباً اسی لئے ایک کہاوت میں ایک کتے نے دوسرے کتے سے کہا :
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
اصل ضرورت انسان کی مثبت طاقتوں اور خوبیوں کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانے کی ہے جوہر قسم کی درندگی پر قابو پاسکتی ہیں۔