لاک ڈاؤن فوری واپس نہیں لے سکتے، 14 اپریل سے ختم کردیا جائے گا، وزیراعلیٰ سندھ

April 05, 2020

لاک ڈاؤن فوری واپس نہیں لے سکتے، 14 اپریل سے ختم کردیا جائے گا، وزیراعلیٰ سندھ

کراچی ( اسٹاف رپورٹر) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہ کہا ہے کہ لاک ڈاؤن کو فوری طور پر واپس نہیں لیا جاسکتا ہے لیکن 14 اپریل کے بعد اسے ختم کردیا جائیگا، یہ لاک ڈاؤن لگانا اور صنعت کا پہیہ کو روکنا آسان فیصلہ نہیں تھا، میرے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا کہ معیشت کو بچانا یا لوگوں کو کورونا وائرس سے بچانا اور میں نے اپنے لوگوں کی حفاظت کا انتخاب کیا۔

یہ بات انھوں نے ممتاز صنعتکاروں اور برآمدکنندگان سے ملاقات میں کہی۔ چھوٹے تاجروں کے رہنماؤں نے وزیراعلیٰ سندھ سے درخواست کی کہ انہیں اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے قرض دیا جائے۔

وزیر اعلیٰ نےملک کے ممتاز صنعتکاروں اور برآمدکنندگان کو کہا کہ وہ اپنی کابینہ کے ممبر اور دیگر گورنمنٹ کے سینئر ٹیم سے مشاورت کے بعد فیصلہ کرینگے کہ کیا برآمدگی سے تعلق رکھنے والی صنعت کو انکے ایکسپورٹ آرڈر کے پیش نظر کوئی سہولت دی جاسکتی ہے یا نہیں۔ 14 اپریل تک لاک ڈاؤن میں نرمی دینا کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں نقصانات کا سبب نہ بنیں، ہمیں اپنی طبی ماہرین سے بھی مشاورت کرنی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اب ہمیں لاؤڈ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور رواں ماہ کی تنخواہ کی ادائیگی ان کیلئے مشکل ہوچکی تھی لیکن وہ انتظام کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کو فوری طور پر واپس نہیں لیا جاسکتا ہے لیکن 14 اپریل کے بعد اسے ختم کردیا جائیگا۔

اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں سراج قاسم تیلی، خرم اعجاز،میاں زاہد حسین ،محمد علی ٹبا، زین بشیر، خالد مجید، امان قاسم، ، جاوید بلوانی، زبیر چھایا، فواد انور اور بشیر رشید شامل تھے جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا، صوبائی وزراء، سعید غنی، مکیش چاولا، امتیاز شیخ، ناصر شاہ، مرتضیٰ وہاب، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکرٹری ساجد جمال ابڑو، کمشنر کراچی افتخار شہلوانی، سیکرٹری لیبر رشید سولنگی نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ابھی تک کچی آبادی کا کوئی کیس نہیں پایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام کیسز پوش علاقوں میں رہنے والے لوگوں میں پائے گئے ہیں جن کی یا تو سفری تاریخ ہے یا مقامی طور پر منتقل کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کچی آبادی کے علاقے سے کوئی معاملہ سامنے آیا تو یہ جنگل میں آگ کی طرح پھیل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے کریانہ کی دکانوں سمیت ضروری خدمات اور کاروباری مراکز کے علاوہ تمام سرکاری دفاتر کو لاک ڈاؤن اور بند کردیا۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ حکومت / مقامی سرکاری ملازمین کی ماہانہ تنخواہ کا بل تقریبا45 ارب روپے تھا جس کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے تقسیم شدہ پول سے بڑے فنڈز مہیا کیے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا حقیقت یہ ہے کہ ہر مالی سال کے آخری مہینوں میں وفاقی حکومت کی مالی اعانت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن پچھلے مہینے مارچ میں یہ بہت کم ہوکر 33 ارب روپے رہ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسکی وجہ وفاقی حکومت کی جانب سے محصول کی وصولی میں کمی ہے۔ انہوں نے کہا وفاقی حکومت کو بھی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ صنعتکار نے کہا کہ انہیں برآمدات کے آرڈر موصول ہوچکے ہیں اور اگر ان کا تیار شدہ سامان برآمد نہ کیا گیا تو احکامات واپس لے لئے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ نہ صرف قومی معیشت کیلئے نقصان دہ ہوگا بلکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے صنعتکاروں اور برآمد کنندگان کو اپنی تجاویز پر مکمل طور پر میرٹ پر غور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔چھوٹے تاجروں کے رہنماؤں نے وزیراعلیٰ سندھ سے درخواست کی کہ انہیں اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے قرض دیا جائے۔

اس پر وزیر اعلیٰ سندھ نے ان سے کہا کہ اپنی تنخواہوں جوکہ انھوں نے صوبے بھر میں ادا کرنی ہے اسکی وہ رقم بتائیں کہ کتنی بنتی ہے تاکہ اس پر غور کیا جاسکے۔

اجلاس میں حکیم شاہ ، شیخ حبیب، عبداللہ لاشاری، واجد مرزا، محسن علی، ساجد، طاہر زمان، عنایت رسول نے شرکت کی جبکہ ممتاز صنعتکار قاسم سراج تیلی اور میاں زاہد نے خصوصی طور پر اجلاس میں شرکت کی۔

وزیراعلیٰ سندھ کی معاونت وزیر محنت سعید غنی، وزیر بلدیات ناصر شاہ، کمشنر کراچی، سیکرٹری لیبر اور دیگر نے کی۔ چھوٹے تاجروں نے وزیراعلیٰ سندھ کی کاوشوں کی تعریف کی اور انہیں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔

انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے 14 اپریل سے لاک ڈاؤن میں توسیع نہ کرنے کی درخواست بھی کی۔ مراد علی شاہ نے 15 اپریل سے لاک ڈاؤن کو آسان بنانے کا اشارہ دیا لیکن کہا کہ مکمل طور پر اسے واپس نہیں لیا جاسکتا۔