کشمیر بنام اقوام متحدہ

April 07, 2020

تحریر: لائق علی خان۔۔وٹفورڈ
دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی برادری کو کرونا وائرس بیماری کی وجہ سے بہت بڑی سنگین صورتحال کا سامنا ھے۔ اس بیماری کی روک تھام کیلئے ابھی تک ویکسین دوا تیار نہیں ہو سکی۔ جہاں امریکہ یورپ ایشیائی ممالک افریقی ملک بھی اس کی لپیٹ میں شامل ہیں۔ اس میں ریاست جموں کشمیر بھی شامل ھے۔ جہاں بھارت کی افواج نے دہشت گردی کی انتہا کر رکھی ؎ہے۔ بھارت نے پانچ اگست کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا کر ریاست کا کنٹرول دہلی سرکار نے براہراست اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ھزاروں کی تعداد کشمیر ی عوام جیلوں میں نظر بند ہیں جن جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئر یاسین ملک۔ دیگر قائدین شامل ہیں۔ اس حوالے سے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئر یاسین ملک کی اہلیہ مشعل ملک نے اقوام متحدہ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل۔ حقوق انسانی کی تنظیموں سے اپیل کی ک وہ بھارت پر دباؤ ڈالیں کے وہ کرونا وائرس بیماری کی وجہ سے تہار جیل میں نظر بند کشمیر ی قیادت کو فوری رھا کرے۔ پاکستان نے بھی مقبوضہ کشمیر میں کرونا وائرس اور کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف ۔اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ھےک کے وہ اس حوالے سے اقوام متحدہ کا اجلاس بلایا جائے۔ مگر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انٹونیو کیوتیریس کی خاموشی سے پتہ چلتا ہے کہ دلی ھنوز دور است۔ اقوام متحدہ نے پاکستان کی درخواست پر ابھی تک اپنے رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انٹونیو کیوتیریس نے اپنے حالیہ بیان میں کہا جہاں بھی عالمی تنازعات ہیں وہ ملک کرونا وائرس بیماری کی وجہ سے جنگ بند کر دیں۔ مگر بھارت کشمیر میں جنگ بندی کرنے کے بجائے کشمیر کی کنٹرول لائن پر فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ھے۔ اور یہی حال مقبوضہ کشمیر میں ھے کے بھارت مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور کورونا وائرس کے زیر سایہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی یوں کاسلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ کل تک کشمیر ی عالمی برادری سے مطالبہ کرتے تھے کہ بھارت پر دباؤ ڈالے وہ کشمیر میں ظلم و ستم بند کر ے مگر اقوام متحدہ اور یو این سیکورٹی کونسل کے مستقل ممبر ملک کشمیر یوں کو دہشت گرد کہتے تھے اور مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ مسئلہ قرار دیتے تھے آج یہ ممالک کورونا وائرس بیماری کی زد میں ہیں۔ اقوام متحدہ اور یو این سیکورٹی کونسل کے مستقل ممبر ملکوں نے اپنے مفادات کی خاطر بھارت نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ نہیں دی بلکہ یہ اقوام متحدہ کا دہرا معیار ہے، وہ افریقی ممالک، مڈل ایسٹ، افعانستان، عراق، شام، کینیا دوسرے ممالک میں متاثرین کی ہر طرح کی مدد کرتی ہے جب کہ اقوام متحدہ نے پانچ اگست کے بعد سےاب تک مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کے آبزرور کی زیرنگرانی کوئی امدادی کیمپ قائم نہیں کیا اور نہ ہی وہاں اقوام متحدہ کی امن آرمی تعینات کرنے کے لیے اقدامات کیے۔ اقوام متحدہ نے اس وقت مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی یہ مظالم پر مبنی پالیسی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزییوں میں شامل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونی گوتریس نے گزشتہ ماہ فروری میں دورہ پاکستان کے دوران آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب اور آزاد کشمیر کا دورہ کیوں نہیں کیا۔ پاکستان پر ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو آزاد کشمیر کا دورہ کر نے کی اجازت دیتے۔ بھارت جو اقوام متحدہ کے بانیوں میں سے ایک ملک ہے۔ وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ کشمیر ی عوام پاکستان اور اقوام متحدہ سے پوچھتے ہیں کہ کشمیر ی عوام کا مستقبل کیا ہے ؟ بھارت اگر اپنے دہشت گرد کلبھوشن یادیو کی رہائی کیلئے عالمی عدالت انصاف میں جا جا سکتا ہےتو پاکستان پربھی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ اقوام متحدہ کے تعاون سے یاسین ملک سمیت حریت کے دیگر قائدین کی رہائی کیلئے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ پیش کرے ۔ مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کے باعث ریاست کے دونوں اطراف غربت، بےروزگاری، ناانصافی، لاقانونیت، عروج پر ہے۔ اس چیز کا ذمہ دار کون ہے؟ تخت مظفرآباد کے حکمرانوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ریاست کے دونوں اطراف کی سیاسی قیادت کو یکجا کریں کہ وہ آزاد کشمیر کے پارلیمانی نظام حکومت کو تسلیم کرانے کیلئے قانونی اور آئینی ماہرین پر مبنی کمیشن قائم کریں جو اقوام متحدہ کی وساطت سے عدالت انصاف میں مقدمہ پیش کر سکیں۔ پاکستان صرف عالمی سطح پر کشمیر یوں کی سیاسی وسفارتی مدد کر سکتا ہے، جنگ مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان پر سیاسی و سفارتی دباؤ ڈا لنے کیلئے مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں آزاد کشمیر کے عوام کیلئے چھبیس نشستیں رکھی ہیں۔ آخر کیوں؟ پاکستان کا موقف تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ختم ہونے کے بعد لوگ سڑکوں پر نکل پڑیں گے۔ بھارت کے حکمرانوں کو یہ معلوم تھا دفعہ 370 اور 35اے ختم ہو نے کے بعد پاکستان کشمیر میں مداخلت نہیں کر ےگا۔ بھارت کو یہ خطرہ تھا کہ شاید کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے سے پاکستان محدود جنگ کرے۔ اگر اس کے جواب میں پاکستان آزاد کشمیر کے پارلیمانی نظام حکومت کو مہاراجہ ہری سنگھ کی جا نشین گورنمنٹ کے طور پر تسلیم کر نے کیلئے اقوام متحدہ سے رجوع کرتا تو بھارت کیلئے زمینی حالات تبدیل ہو جاتے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ بھی کشمیر یوں کی مجرم ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کے چیپٹر چھ اور سات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوئی روڈ میپ دیا۔ اقوام متحدہ کی نیم خاموش بھارت نوازی ہے۔ اگر افعانستان سے غیرملکی افواج کے انخلاء کیلئے طالبان،امریکہ، قطر سہ فریقی مذاکرات کر سکتے ہیں تو پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سہہ فریقی مذاکرات کا راستہ اختیار کیوں نہیں کیا ۔ چین سلامتی کونسل کا مستقل ممبر ملک ہے۔ پاکستان اور اقوام متحدہ کشمیر یوں کو بتائیں موجودہ حالات میں مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے۔