سب کو معلوم ہے کہ باہر کی ہوا قاتل ہے

April 12, 2020

اس وقت پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ اور افواجِ پاکستان ایک ایسے دشمن کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں جو نظر نہیں آ رہا مگر اس دشمن کا خوف پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ ذکر ہے گزرے سال کا جب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بین الاقوامی طور پر اعلان کیا کہ ایسا وائرس دنیا پر حملہ آور ہو چکا ہے جس کا کوئی علاج اس وقت ممکن نہیں ہے، جس کی وجہ سے دنیا کی بڑی آبادی متاثر ہو جائے گی۔ جب یہ وائرس حملہ آور ہوتا ہے تو بالکل معلوم نہیں ہوتا کہ وہ انسان کو کتنا کمزور کرنے جا رہا ہے۔ اس خوفناک وائرس نے تقریباً تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ دنیا بھر میں اس سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کیلئے اپنی اپنی سی کوشش ہو رہی ہے مگر بیماری ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ کچھ سیاسی حلقے اس بیماری کو سانس کی بیماری سے جوڑتے نظر آ رہے ہیں اور اموات کی وجہ سانس کا رک جانا بتاتے ہیں۔ اس وقت تمام دنیا اس وائرس سے بچنے کیلئے پیسہ تو خرچ کر رہی ہے، اس سے بیماری تو ختم نہیں ہو رہی مگر لوگ ضرور مر رہے ہیں۔

انسان کی سب سے بڑی کمزوری خوف ہےاور خوف کے مارے لوگ سسک سسک کر زندگی گزارتے ہیں۔ اس خوفناک وائرس کا حملہ سب سے پہلے چین کے شہر ووہان پر ہوا، یہ انسانوں کا بنایا ہوا ایک نیا چینی شہر ہے، یہ خوبصورت شہر چین کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس شہر کی اہمیت اس بات سے لگائی جا سکتی ہے کہ امریکہ نے یہاں پر اپنا سفارتخانہ بھی کھول رکھا ہے اور امریکہ کے اہم کاروباری اور عسکری اداروں کا اس شہر سے براہ راست رابطہ ہے۔ گزشتہ سال اس شہر میں امریکہ اور چین کی افواج نے مشترکہ دفاعی مشقوں کا انعقاد بھی کیا تھا۔ ان دفاعی مشقوں کے بارے میں دونوں ملک کچھ بھی بتانے سے گریزاں ہیں مگر شواہد ایسے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں نے نئی دفاعی صلاحیت آزمانے کیلئے ایسے تجربات کیے جو امن اور انسانیت کیلئے خطرناک تھے اور ان کی وجہ سے شہر ووہان متاثر ہوا۔

اس وقت پاکستان کورونا وائرس سے متاثر ہوتا ملک نظر آ رہا ہے۔ پورا ملک بےخبر ہے عوام کو اندازہ نہیں کہ دنیا بھر اس قدر خوف زدہ ہے کہ اپنے تمام وسائل اس وائرس کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں عوام میں خوف کی فضا ضرور موجود ہے مگر عوامی ردعمل وقتی سا ہے۔ سندھ سرکار نے لاک ڈائون کا فیصلہ کیا تو الزام مرکزی حکومت پر لگایا کہ وہ کرفیو کیلئے تیار نہیں، حالانکہ آئینی طور پر صوبے خاصے خود مختار ہیں اور مرکزی سرکار کو اس معاملہ میں تشویش بھی ہے۔ خیر سندھ میں لوگ اس وقت کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر تھے اور صورتحال خاصی تشویشناک تھی۔ سندھ کے وزیراعلیٰ نے اچھے اقدامات کیے بھی مگر ان کے نتائج ویسے نہیں نکلے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ دوسری طرف کپتان خان کی مرکزی سرکار عوامی مفاد کے مدنظر لاک ڈائون کے سلسلہ میں پورے ملک میں یکساں فیصلہ کرنے کیلئے اصرار کرتی رہی۔ یہ کمزوری نہیں تھی مگر حزب اختلاف اپنی سیاسی جنگ میں مصروف رہی۔

اس وقت جب پاکستان اور عوام ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جس کے انجام کے بارے میں کچھ بھی بتانا مشکل ہے۔ ہم سب مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہیں مگر ہمارے کرتوت ایسے ہیں کہ شرمندگی ہوتی ہے۔ ایک طرف پورے ملک میں عام جرائم جو تھانوں اور کچہریوں میں نظر آتے تھے، میں خاطر خواہ کمی نظر آ رہی ہے۔ رشوت کے لینے دینے کے معاملات وقتی طور پر موخر ہو گئے ہیں، دہشت گرد کورونا وائرس کے ڈر سے واپس افغانستان اور بھارت چلے گئے ہیں، پولیس والے اب مسلسل عبادات میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ شکر ہے ان کی عبادت پوری ڈیوٹی اور عوام سے اچھی طرح پیش آنا ہے۔ بس نیب کا ادارہ ہی ہے جس کو کورونا کا بالکل خوف نہیں ہے۔ جنگ کے روح رواں میر شکیل الرحمٰن کے خلاف جو بے بنیاد مقدمہ چلایا جا رہا ہے اس میں اس کو من مانی کرنے کا زیادہ موقع مل رہا ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کی ضمانت صرف اس لئے نہیں ہو رہی کہ وہ حق اور سچ کے لئے ڈٹ چکے ہیں۔ ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں مگر نیب بے وقعت اور خود غرضی کے تکبر میں مصروف ہے۔

سب کو معلوم ہے باہر کی ہوا قاتل ہے

یونہی قاتل سے الجھنے کی ضرورت کیا ہے

کچھ غیر مصدقہ ادبی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ درج بالا شعر گلزار کا ہے مگر اس شعر میں جو کیفیت ہے وہ آج کل کے حالات کی ہے۔ اس وقت سرکار کی کوشش ہے کہ عوام غیر معمولی حالات کی وجہ سے ہر ممکن طریقہ حفاظتی اقدامات کو قبول کریں اور سماجی طور پر فاصلے کو اہمیت دیں اور اپنا وقت گھروں کے اندر گزاریں اور سرکار بھی کوشش کر رہی ہے کہ لوگوں کی رہنمائی کی جا سکے اور کمزور اور لاچار غریب لوگوں تک امدادی رقوم کی رہنمائی آسان ہو اور ایسے میں بھی ہمارے سیاسی نیتا اپنی خصلت بدلنے کو تیار نہیں۔ ایک تو ہمارے اہم سیاسی لوگ جو امیر کبیر بھی ہیں اور صاحب حیثیت بھی، وہ سرکار کی اور عوام کی مدد کرنے کو تیار نظر نہیں آتے اور ان کو خوف اتنا ہے کہ وہ صرف کیمروں تک نظر آتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کو یقین دلایا گیا ہے کہ آنے والے دو ہفتے کورونا وائرس کے تناظر میں بہت خطرناک ہو سکتے ہیں اور کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھ سکتی ہے۔ اس وقت یورپ اور امریکہ میں اس آفت کی وجہ سے بہت مایوسی اور لاچاری ہے جبکہ وہاں طبی سہولتیں بہت بہتر ہیں اس کے باوجود یہ وائرس ان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ ہمارے یہاں سرکار نے کافی کم وقت میں وائرس کا شکار ہونے والے افراد کے لئے ابتدائی انتظامات مکمل کئے ہیں، شہروں میں اسپتال ہر طرح کے خطرہ کیلئے تیار ہیں اور افواج پاکستان رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر چکی ہیں مگر سیاستدان عوام کی آواز بننے کے بجائے مفادات کی کہانی سناتے نظر آ رہے ہیں۔ ۔ ان کو کون بتائے ؎

اک نعمت ہے زندگی اسے سنبھال کے رکھ

یونہی گلیوں میں بھٹکنے کی ضرورت کیا ہے