مستقبل کی معیشت اور عوام کی مشکلات

April 21, 2020

یہ تو واضح ہے کہ کورونا وائرس نے صرف انسانی جانوں کو خطرے سے دوچار نہیں کیا بلکہ انسانوں کی معاشی مشکلات میں بھی بےپناہ اضافہ کیا ہے۔ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا یہ صرف باری تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ دو لاکھ کے قریب انسانی جانوں کے نقصان اور معیشت کی بدحالی گزشتہ سال دسمبر سے شروع ہوئی اور ہنوز اری ہے۔ اس مختصر عرصہ میں کورونا نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اگر یہ سلسلہ مزید جاری رہا تو اس کی تباہی میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ گزشتہ ادوار میں دو عظیم جنگوں نے دنیا کی معیشت کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا نقصان ان چار ماہ میں کورونا کی وبا نے پہنچایا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی معیشت کی کمزوری درحقیقت اس ملک کی کمزوری ہوتی ہے جس سے عام آدمی براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ معیشت کی کمزوری سے معاشی مسائل میں اس طرح اضافہ ہوتا ہے کہ صنعت و حرفت کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ کاروبار جمود کا شکار ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں درآمدات و برآمدات میں کمی، بیروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو جو دھچکا لگا ہے اس کو واپس سابقہ جگہ پر آنے میں کئی سال لگیں گے، اس سے اندازہ لگائیں کہ اگر کورونا وبا کا سلسلہ مزید جاری رہتا ہے تو پوری دنیا خصوصاً ترقی پذیر ممالک کا کیا حال ہو گا۔ پاکستان بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔لاک ڈائون کی وجہ سے یہاں عام آدمی کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، اگرچہ اب تقریباً پورے ملک میں لاک ڈائون میں کافی نرمی کی گئی ہے لیکن بے روزگاری میں اضافے کو کافی عرصہ روکنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ پاکستانی کیا‘ دنیا کی کسی بھی حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کرے۔ اگر لاک ڈائون کرے تو لوگ کھائیں گے کہاں سے اور اگر لاک ڈائون نہ کرے تو اس وبا کے پھیلائو پر قابو کیسے پایا جائے۔ اب جہاں جہاں بھی لاک ڈائون میں نرمی کی گئی ہے اعداد و شمار کے مطابق وہاں کورونا وائرس کے نئے مریضوں کی تعداد میں اضافہ نظر آرہا ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں بھی لوگوں نے لاک ڈائون ختم کرنے کے لئے مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔ بہرحال لاک ڈائون خطرناک ہے اور اس کا نہ ہونا بھی خطرناک ہے۔ اس وقت اتفاق و یگانگت کی اشد ضرورت ہے تاکہ باہمی اتفاقِ رائے ایسی پالیسیاں بنائی جائیں کہ اس موذی وبا سے تحفظ بھی ہو اور لوگوں کی معاشی مشکلات دور ہوں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ صوبہ سندھ کی مثال لیں کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ خلوص اور شبانہ روز محنت سے اس وبا سے جنگ میں مصروف ہیں لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے ان کا ساتھ دینے کے بجائے اپنے وزرا اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ ہر ممکن طریقے اور لفظی گولا باری کے ذریعے سندھ حکومت کی کاوشوں کو تاراج کریں۔یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ اس نازک اور خطرناک صورتحال میں بھی عوامی مفاد کے بجائے حکمران جماعت سیاست سیاست کھیل رہی ہے، اس پر قوم کیا امید رکھے۔ ایک ایسے وقت میں کہ لوگوں کی جانوں کو شدید خطرہ ہے، خود وزیراعظم بھی بار بار خطرے کا اظہار کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود کسی بھی طرف سے مفاہمت کا ہاتھ بڑھتا نظر نہیں آتا۔ بلکہ ہر روز نئی انکوائریوں، نئی رپورٹوں اور نت نئے اسکینڈلز کو سامنے لانے کا سلسلہ جاری ہے۔

اگر کسی نے کچھ غلط کیا ہے جو ملک و قوم کے لئے نقصان کا باعث ہے تو اس کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہئے لیکن قانونی کارروائی، یہ نہیں کہ قانونی کے بجائے انتقامی کارروائی ہو۔ قانونی کارروائی کے لئے پہلے ثبوت مہیا ہوں، یہ تو کسی طور جائز نہیں کہ پہلے گرفتاری ہو پھر ثبوت تلاش کئے جائیں یا میڈیا ٹرائل کے ذریعے کسی کو رسوا کیا جائے۔ اگر کسی کے خلاف یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی الزام ثابت نہ ہو تو اس کا جو نقصان مالی طور پر ہوا، اس کی عزت و آبرو کو جو گزند پہنچی وہ خود اور اس کے اہلِ خانہ جس اذیت کا شکار ہوئے، اس سب کا ازالہ کیا ہے؟ اس لئے کم از کم موجودہ صورتحال کو مدِنظر رکھا جائے۔ حکومت کو چاہئے کہ مفاہمت کا راستہ اختیار کرے، میڈیا ہو یاسیاستدان یا کاروباری افراد، سب کی طرف مفاہمت اور صلح کا ہاتھ بڑھائے۔ یہ ملک و قوم کے لئے نہایت مشکل وقت ہے ایسے حالات میں اختلافات اور تلخیاں بڑھانا کسی بھی طور دانشمندی نہیں ہے۔ وقت اور حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ حکومت، میڈیا اور سیاستدان مل کر قوم کی رہنمائی کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں، پیرا میڈیکل اسٹاف، کورونا کے خلاف میدانِ عمل میں موجود فوجی افسران اور جوانوں، پولیس کے افسران اور اہلکاروں اور اس مہم میں شامل سرکاری افسران اور ملازمین کو صرف شاباش دینے کے بجائے ان کو انعامات اور مراعات کا خراج بھی پیش کیا جائے۔