’’ام المقدمات‘‘۔انصاف کے انتظار کا 37 واں برس!

April 06, 2016

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین، دو بار پاکستان کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا کیس ’’ری اوپن‘‘ کرنے کی درخواست عدالت عظمیٰ پاکستان میں سماعت کی منتظر ہے۔ 4 اور 5 اپریل کی درمیانی شب سے بھی، کچھ دیر قبل، ذوالفقار علی بھٹو نے تختہ دار کو سرفراز کیا تھا، اپنی اصولی معنویت میں گویا یہ انتظار 37برس سے مظلومیت کے شب و روز کا سامنا کررہا ہے۔ بھٹو کی پھانسی سے ہم تہذیبی، ثقافتی اور سماجی اعتبار سے اضمحلال کا شکار ہوئے ہیں، یہ سول سوسائٹی کا قتل عام تھا، اسی کارن اسے ’’ام المقدمات‘‘ (مقدموں کی ماں) کا عنواان اور نام دیا جا چکا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے دارورسن کو اپنے معجز نما لمس سے پاکستانی معاشرے کو غم جاناں کا ایک ایسا مستقل روگ دے دیا ہے جو اس کے رگ و پے میں رچ گیا ہے۔پاکستانی عوام کو اس معلق انصاف کے کرب و ابتلا کی کہانی سے اپ ڈیٹ رکھنا ناگزیر ہے، اس لئے اس منتظر درخواست کی کہانی کا تفصیلاً دھرایا جانا بھی ناگزیر ہے۔مئی 2015ء کے پہلے ہفتے، کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ذوالفقار علی بھٹو کیس ری اوپن کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 2011ء میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی جانب سے سپریم کورٹ میں بھٹو کیس ری اوپن کرنے کا ریفرنس اس وقت کی وفاقی کابینہ کو بھیجا گیا، کابینہ نے 28 مارچ 2011ء کو ریفرنس کی منظوری دی جس کے بعد 2 اپریل 2011ء کو سیکرٹری قانون مسعود چشتی نے ریفرنس رجسٹرار سپریم کورٹ کے حوالے کیا۔ سپریم کورٹ نے اس کی ابتدائی سماعت کیلئے 13 اپریل کو موضوع کے تعین اور متعینہ قانونی سوالات کے سقم کا آئینہ دار ہونے کے باعث اس ہدایت کے ساتھ وکیل ڈاکٹر بابر اعوان کے حوالے کردیا، ’’آپ اس میں متعینہ موضوع اور اس سے متعلق متعینہ قانونی سوالات شامل کریں‘‘ ...... سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق صدارتی ریفرنس کا یہ تقاضا پورا کرتے ہوئے ڈاکٹر بابر اعوان 21 اپریل 2011ء کی صبح عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔ عدالت نے مختصر جائزے کے بعد بھٹو کیس ری اوپن کرانے کا صدارتی ریفرنس سماعت کیلئے منظور کرلیا۔ عدالت عظمیٰ نے لاہور ہائی کورٹ سے بھٹو کیس کا اصل ریکارڈ طلب کیا اور لارجر بنچ تشکیل دینے کا اعلان کرتے ہوئے 2مئی 2011ء سے روزانہ سماعت کرنے کا حکم جاری کردیا۔وفاق کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے جو 5متعینہ سوالات آئین کے آرٹیکل 186کے تحت تحریری طور پر پیش کئے، وہ زیر مقدمہ سوالات یہ تھے:
1۔ کیا یہ فیصلہ سپریم کورٹ سمیت ملک کی دوسری عدالتوں میں بطور نظیر پیش کیا جاسکتا ہے؟2۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی سزا میں آئین کے بنیادی حقوق سے متعلق آرٹیکلز کے تمام تقاضوں کو پورا کیا گیا؟۔ 3۔ کیا مخصوص حالات میں دی گئی سزا کا کوئی جواز بنتا تھا؟ کیا اسے قتل عمد قرار دیا جاسکتا ہے؟۔ 4۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو کودی جانے والی سزا میں اسلامی قانون کی پاسداری کی گئی؟۔ 5۔ جن شواہد اور مواد کی بنیاد پر شہید بھٹو کو سزا دی گئی کیا وہ ریکارڈ کئے گئے تھے؟
صدارتی ریفرنس میں اس متوقع بے انصافی کو ان الفاظ میں منعکس کیا گیا تھا۔ ’’ٹرائل آزادانہ ماحول میں نہ ہوا۔ ضیاء الحق کے دبائو پر فیصلہ سنایا گیا۔ نسیم حسن شاہ نے دبائو کا اعتراف کیا تھا۔ مقدمہ دوبارہ چلا کر بھٹو کو بعد از مرگ بری قرار دیا جائے‘‘۔ 2011ء جون تک وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے اپنے دلائل مکمل کرلئے، جون کے آخری ہفتہ میں بعض ججوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد بنچ مکمل ہونے تک سماعت ملتوی ہوگئی۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اس دوران میں سابق چیف جسٹس کو خط لکھ کر جلد سماعت کرنے کی استدعا بھی کی جس کے نتیجے میں 2011ء دسمبر میں ’’ام المقدمات‘‘ کی دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا، عین ان دنوں توہین عدالت کے ایک مقدمے کی وجہ سے عدالت عظمیٰ نے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان کا لائسنس معطل کردیا، ایوان صدر کو عدالت عالیہ کی جانب سے زیر بحث مقدمہ میں ان کی جگہ نیا وکیل مقرر کرنے کی ہدایت کے بعد سماعت پھر التوا میں چلی گئی۔ چار ماہ بعد، مئی 2012ء میں، وفاق کی جانب سے بیرسٹر اعتزاز احسن اس مقدمے میں وکیل نامزد کردیئے گئے لیکن اس کے بعد بھٹو کیس صدارتی ریفرنس کی سماعت آج تک شروع نہیں ہوسکی۔ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ عبدالباسط نے بھی ایک سینئر اخبار نویس سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا؟ ’’3 اپریل 1996ء کو ایف ایس ایف کے ملازم تین ملزموں کے وکیل ارشاد حسین قریشی نے ایک پریس کانفرنس میں خود تفصیلات بیان کیں کہ ایف ایس ایف کے ان تین ملزموں کو اعتراف جرم کی ترغیب کیلئے اس پر کس طرح کا دبائو ڈالا گیا تھا اور ان کے عزیز و اقارب کو کس طرح جنرل چشتی سے ملاقات کرا کے انہیں مختلف ترغیبات دی گئیں۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ اسی وکیل ارشاد حسین قریشی (اب مرحوم) نے اپنی پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا، ’’مکمل فراڈ اور جھوٹ پر مبنی بھٹو کیس کا نئے سرے سے ٹرائل ضروری ہے، اس کیلئے صرف جنرل فیض علی چشتی کو پولیس کی تفتیش میں شامل کر لینا کافی ہوگا‘‘۔
وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ (اس وقت) افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قائم بنچ کی ہدایت اور حکم کے مطابق گو اپنے پانچ سوالات میں ’’متعینہ موضوع اور متعینہ قانونی سوالات‘‘ کا قانونی تقاضا مکمل طور پر پورا کردیا، اس کے باوجود نہایت ادب کے ساتھ ’’ام المقدمات‘‘ کے اس زندہ المیے کے تناظر میں عدالت عظمیٰ پاکستان کو ایک اور جہت سے بھی توجہ کی زحمت دی گئی، یہ کہ ’’بھٹو صاحب کا مقدمہ ایک نہیں کئی ہیں، صدارتی ریفرنس میں صرف ایک مقدمے میں انصاف مانگا گیا ہے کیونکہ یہ مقدمہ قانون میں لاقانونیت کی انوکھی اور واحد مثال تھا، اس کے بعد کی کسی بھی دور کی عدلیہ نے (غلام ہو یا آزاد) اس کا حوالہ تک منع کئے رکھا، حقیقت یہ ہے کہ ہر ملزم تو کجا، پھانسی کا کوئی ایک ملزم بھی بھٹو صاحب کے ساتھ متوقع انصاف کو مثال بنا کر سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرسکے گا۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 109 کے تحت دنیا میں کہیں اور کبھی پھانسی نہیں ہوئی‘‘۔سابق صدر پاکستان نے صدارتی ریفرنس کے پس منظر میں، اس برس ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر کہا تھا ’’ہم نے 1973ء کا آئین بحال کرنے کی بات کی تو سیاسی اداکاروں کو یقین نہیں تھا۔ مجھے بھٹو اور بی بی کو روز قیامت جواب دینا ہے، اس لئے ان کے خواب پورے کرنے ہیں، ہماری خواہش ہے بھٹو کا عدالتی قتل تاریخ سے مٹایا جائے جس کیلئے میں نے ریفرنس بھیج دیا ہے‘‘۔ ........ اور ’’بھٹو کے عدالتی قتل کے فیصلے کو کسی چھوٹے سے چھوٹے جج نے بھی تسلیم نہیں کیا، تو وہ کیسے جج تھے جنہوں نے ضیاء الحق کے پی سی او کو مانا تھا، ہم نے تاریخ سے ایک حرف مٹانے کی بات کی ہے، بھٹو کیس ری اوپن کرنے کا وعدہ ہم سے ہمارے بچھڑے دوست نوازشریف نے بھی کیا مگر وہ نہ کرسکے یا انہیں کرنے نہ دیا گیا‘‘۔ ’’ہم اخبار کی سرخیاں نہیں بناتے بلکہ اپنے لہو سے تاریخ لکھتے ہیں، بھٹو بننے کی کوشش تو سب کرتے ہیں، اس جیسا پیار بھی مانگتے ہیں مگر اس جیسی موت نہیں مانگتے،۔ اب ریفرنس بھیجنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے فیصلہ کرو کہ تم سے غلطی ہوئی اور معافی دینا ہمارا کام ہے‘‘۔
جب مشرقی پاکستان اپنوں کی درندگیوں، قوم کی مجموعی جہالت اور غیروں کی سازش کا مقتول ہوا، ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرنے کے بعد، اسلام آباد روانگی کے موقع پر، نیویارک کے اخبار نویسوں سے انمٹ الفاظ کہے، بھٹو صاحب بولے، ’’ساری دنیا سے کہہ دو ہماری پیٹھ سے دور ہٹ جائے، ہم پر اپنا بوجھ حتیٰ کہ سایہ تک نہ ڈالے، ہمیں صرف اپنی دعائوں میں یاد رکھے، اس کے سوا ہمارے لئے کچھ نہ کرے، ہم اپنے چھوٹے چھوٹے اجزاء جوڑ کر ایک نیا مضبوط، مستحکم اور آگے بڑھتا ہوا پاکستان تعمیر کریں گے‘‘۔ وقت کی لوح پہ پاکستان کے ناقابل تسخیر ہونے کی سچائی رقم ہوئی جس کے حرفوں اور ہجوں میں ذوالفقار علی بھٹو کا لہو چھلک رہا ہے۔ اس کا یہ قول امریکی قیادت کے سینے میں تیر کی طرح پیوست ہو گیا، ’’ہاتھی مجھ سے ناراض ہے لیکن اس کا واسطہ بندہ کے صحرا سے آن پڑا ہے‘‘۔
ذوالفقار علی بھٹو کا ’’عدالتی قتل‘‘ دراصل خوف زدہ عالمی استعمار کی اجتماعی سازش تھا جس کیلئے انہیں حسب روایت ایک مسلمان ملک میں ریاستی جارحیت پسند اور خود ساختہ اخلاقیات و مذہبی عقائد پر مبنی افراد گروہ در گروہ میسر تھے۔ 1977ء کا قوی اتحاد (پی این اے) اس گروہ بندی کا کالا پہاڑ تھا جس کی چوٹی خونی دیوی کے آدم خور منہ اور جبڑوں سے مشابہ تھی۔ضیاء الحق پاکستانی جسد سیاست کی ایک ایسی روح تھی، لفظ ’’مذمت‘‘ بھی اس کا استحقاق نہیں بنتا، اس نے انسانیت کے سفر میں علم اور ارتقاء کی راہوں پہ کھلنے والے شگوفوں اور پھولوں کیلئے خود کو آکاس بیل کے طور پر منتخب کیا، بھٹو تاریخ کا استعارہ اور ضیاء تاریخ کا جنازہ، دونوں کی قبروں پہ وقت کی مہر تصدیق دیکھی جاسکتی ہے۔کیا ’’ام المقدمات‘‘ 37 ویں برس بھی انصاف کی محض منتظرہی رہے گی؟