کفن میں جیب نہیں ہوتی!

April 29, 2020

میں ابھی ابھی ایک خطرناک ایکسیڈنٹ سے بچا تھا، اچانک بریک لگانے سے میری گاڑی سڑک کے ایک کنارے بڑی مشکل سے جاکر رکی تھی۔ خوش قسمتی سے پیچھے بہت زیادہ ٹریفک نہ تھی ورنہ کئی گاڑیاں میری گاڑی سے ٹکرا چکی ہوتیں۔ گاڑی کو اس طرح اچانک روکنے کی وجہ یہ تھی کہ میں نے سامنے ایک ایسی شخصیت کو اندرونِ سندھ سے آنے والی عام سی بس سے اترتے دیکھا جس نے اپنی زندگی پوری شان و شوکت، عزت وقار کے ساتھ گزاری تھی، جس کے پاس کئی گاڑیاں اور باوردی ڈرائیور موجود رہتے تھے۔ وہ میرے ہی نہیں بلکہ مجھ جیسے ہزاروں افراد کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ دس بھائی بہنوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ اُن کے والد تقسیم ِ ہند سے قبل بھارت کے شہر کانپور میں پولیس ملازم تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ خاندان بھی کراچی منتقل ہوا، مشکل حالات تھے، بیروزگار والد، چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت بھی ان کی ذمہ داری ٹھہری۔ ٹیکسٹائل فیکٹری میں ملازمت ملی، تاہم تعلیم جاری رکھی، رات کو لالٹین اور چراغ کی روشنی میں پڑھتے، دن میں ملازمت کرتے۔ زندگی تیزی سے آگے بڑھی اور ترقی کرتے کرتے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اہم ترین مقام حاصل کیا۔ چھوٹے بھائی بہنوں کو تعلیم دلائی، بہنوں کی شادیاں کیں، والدین کی ایسی خدمت کی کہ آخری سانس تک ان کو دعائیں دیتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی خصوصی کرم کیا ۔ چار بچے ،چاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ، دو ڈاکٹر اور دو انجینئر اور سارے فرمانبردار، پھر آج اس بڑھاپے میں ایک عام سی بس سے اندرونِ سندھ سے واپس آرہے تھے۔ کریم کلر کی شلوار قمیص ،سر پر جناح کیپ، سفید داڑھی، 75برس کی عمر میں آج بھی وہ ایک باوقار شخصیت کے روپ میں موجود تھے۔

بس سے اتر کر شاید اب وہ ٹیکسی کے انتظار میں کھڑے تھے۔ میں گاڑی سے اتر کر ان کے پاس پہنچا، انھیں سلام کیا۔ انھوں نے مسکرا کر شفقت کے ساتھ مجھے گلے لگا لیا، پوچھا کب آئے جاپان سے۔ میں نے بتایا بس چند دن ہی ہوئے ہیں، میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور احترام کے ساتھ اپنی گاڑی میں بٹھایا، میں نے گاڑی کا رخ ان کے گھر کی جانب کردیا تھا، میں نے مسکراتے ہوئے ان سے دریافت کیا، گاڑیاں، ڈرائیور، گھر، دولت پھر کہاں اندرونِ سندھ کی بس سے اتر رہے ہیں۔ وہ ہلکا سا مسکرائے اور بولے اندرونِ سندھ میں کچھ کاروبار شروع کیا ہے، انہی منصوبوں پر کام جاری ہے گھر میں کسی کو بتایا نہیں، لیکن آج تم نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا، وہ مسکراتے ہوئے بولے،تو پھر مجھے بتائیں اندرونِ سندھ میں آپ کون سا کاروبار کر رہے ہیں جسے اتنا خفیہ رکھا ہے، میں نے سوال کیا تو وہ کچھ دیر خاموش رہے پھر بولے، بیٹا یہ کاروبار اللہ تعالیٰ کے ساتھ شروع کیا ہے، زندگی بھر حلال کمایا، والدین بھائی بہنوں اور بیوی بچوں کے ساتھ جو کر سکا تھا کیا، اب جو بچ گیا ہے اس سے اپنی آخرت پر سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہوں۔ اندرونِ سندھ بہت غربت ہے ۔ میں نے اپنی تمام جمع پونجی ان پسماندہ علاقوں کے لیے وقف کر دی ہے، یہاں پانی کے کنویں اور بچوں کے لیے مدرسہ کی تیاری پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، بیٹا یاد رکھنا کفن میں جیب نہیں ہوتی اور انسان کو آخرت میں دولت کی نہیں اعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا میں اپنی کمائی ہوئی دولت سے ان غریبوں اور ناداروں کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ اندرونِ سندھ میں میٹھے پانی کے کئی کنوئوں اور مدرسہ کی تعمیر اس لیے کررہا ہوں کہ یہ صدقہ جاریہ آخرت میں شاید میرے کچھ کام آجائے۔ کچھ دیر بعدان کا گھر آگیا انھوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ اس بات کا ذکر کسی سے نہ کروں اور میں انکی زندگی تک اپنے وعدے پر قائم رہا۔

وہ انتہائی عبادت گزار اور تہجد گزار شخصیت کے حامل تھے، ایک بار اُنہیں شدید دل کا دورہ پڑا، لاہور کے ایک اسپتال میں داخل ہوئے ڈاکٹر نے بتادیا کہ یہ اب کچھ ہی دیر کے مہمان ہیں سب کو بلالیں ۔میں بھی اس وقت ان کے ساتھ اسپتال میں موجود تھا، وہ بےہوش تھے لیکن ان کے منہ سے کلمہ طیبہ کا ورد جاری تھا۔ آئی سی یو میں منتقل کیا گیا تو اگلی صبح نرس نے بتایا کہ فجر کے وقت بےہوشی کے عالم میں بھی ان کے منہ سے اذان کے الفاظ ادا ہورہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں پھر زندگی دی وہ گھر منتقل ہوگئے اور اگلے دس سال تک زندہ رہے۔ نماز، روزے کے پابند تھے، دو ماہ قبل میں لاہور ان سے ملنے گیا تو میرا ہاتھ پکڑ کر رونے لگے، کافی ضعیف اور بیمار تھے، اب رمضان المبارک سے ایک روز قبل مجھے اطلاع ملی وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ میرے والد کے بڑے بھائی مقبول اصغر صدیقی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!