ایک خوف زدہ بابا!

March 30, 2013

”ملک صاحب! اس وقت آپ کی عمر کتنی ہے؟“ میں نے اپنے پڑھے لکھے بزرگ دوست ملک خورشید سے پوچھا!
”ایک سو دس برس“ ملک صاحب نے کہا
”آج آپ اپنی طوالت عمر کا راز بتا ہی دیں!“
”اب یہ راز بتانے کا کیا فائدہ کیونکہ اب تو گنتی کے چند سال رہ گئے ہیں۔ آج نہیں تو کل اللہ کو پیارا ہو جاؤں گا۔“
”چھوڑیں ملک صاحب پر ”لارا“ تو ہمیں آپ کب سے دے رہے ہیں۔“
”آپ یہ بتائیں کہ اتنی طویل عمر کا راز کیا ہے؟“
”تو پھر سن لو… میری طوالت عمر کا راز شدید خوف کے عالم میں زندگی بسر کرنے میں ہے“ ملک صاحب نے خوف سے کپکپاتی آواز میں کہا۔
”کیا مطلب“
”مطلب وہی جو تم سمجھے ہو۔ جب میں پیدا ہوا تو میرا وزن ساڑھے چار پاؤنڈ تھا، ڈاکٹروں نے کہا اس کا زندہ بچنا مشکل ہے مگر میں نہ صرف یہ کہ بچ نکلا بلکہ مہینوں ہی میں خاصا صحت مند ہو گیا۔“
”یہ تو آپ کے ہوش سے پہلے کا واقعہ ہے۔“
”ہاں مگر ذہن پر اس کا اثر تو رہتا ہے۔ جب ذرا بڑا ہوا تو والدہ نے گھریلو حالات سے تنگ آ کر مٹی کے تیل کی بوتل پی لی، جس سے ان کا کلیجہ چھلنی ہو گیا اور وہ میرے سامنے سسک سسک کر مر گئیں۔“
”پھر؟“
”پھر اس کے بعد تو ذہن پر اس قدر خوف سوار ہوا کہ آج تک اسی خوف کے سہارے زندہ ہوں۔“
”میں کچھ سمجھا نہیں۔“
”میں تمہیں سمجھانے کی کوشش نہیں کر رہا۔ میں تمہاری فرمائش پر کچھ حقائق بیان کر رہا ہوں یہ باہر کھڑاک کیسا ہوا ہے۔“
”آپ تو ایسے ہی ڈر جاتے ہیں کوئی بلی ولی ہو گی“
”کوئی کلاشنکوف والی بلی نہ ہو۔ ذرا ہمت کرو، اٹھ کر دیکھ ہی لو“ ملک صاحب نے سہمی ہوئی آواز میں کہا۔
باہر کوئی نہیں تھا، چنانچہ میں دوبارہ ملک صاحب کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
”عین عالم شباب میں ایک اور خوف دامن گیر ہوا“
ملک صاحب نے بتایا ”عالم شباب کا یہ خوف عالم شباب ہی کے حوالے سے تھا حکیموں اور سنیاسی بابوں کے اشتہاروں نے میری راتوں کی نیند اڑا دی۔“
”پھر کیا ہوا“ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
”پھر کیا ہونا تھا، بچے ہوئے، ان کی شادیاں ہوئیں“
”پھر؟“
”پھر ان بچوں کے بارے میں تفکرات شروع ہو گئے اب ان تفکرات کے سہارے زندہ ہوں اللہ کے فضل سے کوئی نہ کوئی مسئلہ سامنے آتا ہی رہتا ہے۔“
”مگر ان تفکرات اور خوف کا طوالت عمر سے کیا تعلق ہے؟“
”اس مسئلے پر بھی بات ہو گی۔ پہلے میں تمہیں یہ تو بتاؤں کہ اشیائے خورد ونوش میں ملاوٹ، زندگی بچانے والی جعلی ادویات دن دہاڑے ڈکیتی کی وارداتیں، بچوں کے خرکار کیمپ، دہشت گردوں کی کارروائیاں اور اس طرح کے دوسرے بے شمار خوف مجھے زندہ اور صحت مند رکھے ہوئے ہیں!“
”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔“
”میں صحیح کہہ رہا ہوں، مختلف بیماریوں کی اخبارات اور ٹیلی ویژن کلینک میں تشہیر بھی اسی سلسلے میں بہت زیادہ مفید ثابت ہو رہی ہے۔“
”وہ کیسے“
”وہ اسی طرح کے اخبارات میں شائع ہونے والے ڈاکٹروں کے کالموں اور ٹیلی ویژن کے طبی پروگراموں میں بیماری کی جو علامات بیان کی جاتی ہیں ان میں سے اکثر مجھ میں پائی جاتی ہیں۔ اور یوں میں 24 گھنٹے شدید خوف میں مبتلا رہتا ہوں مثلاً کینسر کی ایک علامت یہ ہے کہ منہ میں لعاب زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ کچھ دنوں سے میں بھی محسوس کر رہا ہوں کہ لعاب دہن زیادہ پیدا ہو رہا ہے اسی طرح ذیابیطس میں پیشاب زیادہ آتا ہے۔ مجھے بھی دن میں کئی بار باتھ روم جانا پڑتا ہے۔ دل کی تکلیف میں بازو درد کرتا ہے۔ میرا بھی بازو اکثر درد کرتا رہتا ہے۔ اخبارات میں ایڈز کی علامت میں سے ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ انسان کی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے چنانچہ نزلہ، زکام کھانسی وغیرہ بھی لاحق ہو جائیں تو ٹھیک ہونے میں نہیں آتیں اور میں نے محسوس کیا ہے کہ کئی مہینوں سے میری کھانسی ٹھیک نہیں ہو رہی۔ بلڈ پریشر میں چکر بہت آتے ہیں اور میرا یہ حال ہے کہ ان چکروں کی وجہ سے کئی دفعہ اپنی جگہ پر کھڑا نہیں ہوا جاتا چنانچہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ میں بلڈ پریشر، ہارٹ ٹربل، ذیابیطس، کینسر اور ایڈز جیسے مہلک امراض کے چنگل میں پھنسا ہوا ہوں، اس خوف نے میری راتوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔“
ایڈز کے لفظ پر میں نے بمشکل اپنی ہنسی روکی۔
”ایک خوف ان کے علاوہ بھی ہے“ ملک صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ”وہ نت نئے ایٹمی ہتھیاروں اور عالمی جنگ کے حوالے سے ہے۔ اس کے علاوہ اتنی بڑی کائنات میں انسان کی حیثیت کے بارے میں جو سائنسی انکشافات ہوئے ہیں وہ بھی بہت خوف زدہ کرنے والے ہیں اس کائنات میں ہمارے کرئہ ارض کی کوئی حیثیت ہی نہیں تو پھر میری ذاتی حیثیت تو زمین پر رینگنے والے ایک کیڑے سے بھی کم ہے۔ کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر حیثیت میں زندہ رہنے کا احساس بہت جان لیوا ہے۔“
”مجھے اب ملک صاحب کی باتوں سے وحشت سی ہونے لگی تھی چنانچہ میں نے سلسلہ کلام مختصر کرتے ہوئے کہا ”خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔ آپ اپنی طوالت عمر اور عمدہ صحت کا راز بتائیں؟“
”تو اتنی دیر سے اور میں کیا بتا رہا ہوں“ ملک صاحب نے ناراضگی سے کہا ”میں تمہیں یہی بتا رہا ہوں کہ یہ سارے خوف مجھے زندہ اور توانا رکھے ہوئے ہیں۔ مثلاً ان دنوں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں جس طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں بلوچستان کے کچھ حصوں سے آوازیں سنائی دے رہی ہیں، یہ سب صورتحال میرے خوف میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ بلکہ اس صورتحال کا مداوا کرنے کی بجائے محب وطن قوتیں جس طرح ایک دوسرے کے لئے تیغ بے نیام بنی ہوئی ہیں، فرقہ پرست مولوی جس طرح دشمنوں کے ساتھ مل کر پاکستان سے محبت کرنے والوں کے خلاف محاذ آرا ہیں اور ایسے معاملات میں سچ کا ساتھ دینے کی بجائے میں اور تم جس طرح مصلحتاً خاموش ہیں، یہ سب چیزیں مجھے اندر سے شدید بے چین رکھتی ہیں چنانچہ میں اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں اپنے ملک کے بارے میں اور بنی نوع انسان کے مستقبل کے بارے میں سخت متفکر ہوں لیکن میرے عزیز یہی خوف مجھے میرے ملک کو اور بنی نوع انسان کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔“
”مگر وہ کیسے؟“ میں نے اس دفعہ چڑ کر سخت جھنجھلاہٹ کے عالم میں کہا… ”وہ ایسے کہ خوف کمزور سے کمزور اور بزدل سے بزدل انسان کو بھی خطرات کے مقابلے کے لئے تیار کرتا ہے۔“ ملک صاحب نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا ”یا کم از کم اس کے اندر خطرے کی گھنٹی ضرور بجنے لگتی ہے۔
”اور اپنے کان ادھر لاؤ“ ملک صاحب نے بات جاری رکھتے ہوئے کپکپاتی آواز میں کہا ”میں تمہیں آخر میں ایک راز کی بات بتاتا ہوں… یہ جو بلی ہے نا… یہ سنسان اور ویران جنگلوں میں بالکل اکیلی رہا کرتی تھی ایک روز یہ جنگل کی ویرانیوں اور ہولناک سناٹوں سے اتنی خوف زدہ ہوئی کہ مارے خوف کے شیر بن گئی!“
میں ملک صاحب کی باتوں سے متاثر ہوا مگر میں نے پوچھا ”اور یہ جو بلیاں شہروں میں چوہوں کا شکار کرتی اور انسانوں کے پاؤں چاٹتی نظر آتی ہیں، یہ کون ہیں؟“
”یہ وہ بلیاں ہیں جو جنگل میں ہولناک سفاکیوں سے فرار حاصل کرنے کے لئے شہروں میں آ گئیں اور یوں خطرات زندگی کے غم سے محروم ہو گئیں چنانچہ شیر بننے کی بجائے یہ شہروں میں چوہوں کا شکار کرتی ہیں اور انسان کے پاؤں چاٹتی ہیں۔ میرے عزیز! یہ بھگوڑی بلیاں ہیں جو مارے خوف کے شیر بن سکتی تھیں مگر پُر سکون زندگی کی خواہش نے انہیں پاؤں چاٹنے والی مخلوق بنا دیا!“