ویلتھ ٹیکس کے سرمایہ کاری پر منفی اثرات

May 11, 2020

ایف بی آر ذرائع سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آنے والے بجٹ میں حکومت کی امیر ترین لوگوں کی دولت اور اُن کے ٹیکس ادا شدہ اثاثوں پر ’’سپر کورونا ٹیکس‘‘ لگانے کی تجویز ہے جن میں بڑی تنخواہ والے افراد بھی شامل ہیں۔ کورونا وائرس سے ملکی معاشی گروتھ میں 1.5فیصد کمی اور ریونیو وصولی میں تقریباً 900ارب روپے کی کمی کے پیش نظر حکومت زیادہ آمدنی والے افراد پر سپر کورونا ٹیکس لگا کر ریونیو ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے جس کیلئے گھریلو اور کمرشل رئیل اسٹیٹ جسکی مالیت 2کروڑ روپے سے زائد ہو یا پاکستان میں رجسٹرڈ 30لاکھ کا مکان، 1000سی سی کی گاڑیاں اور 30سے 40ہزار اسٹاک ایکسچینج کے شیئرز رکھنے والوں پر 10فیصد ویلتھ ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ ویلتھ ٹیکس لوگوں کے اثاثوں، بینک ڈپازٹس، رئیل اسٹیٹ، انشورنس اور پنشن پلان اور ذاتی ٹرسٹ پر عائد کیا جاتا ہے۔ 2001ءکے انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 116کے مطابق ہر شخص کو انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے وقت اپنی ویلتھ اسٹیٹمنٹ جسکی مالیت 10لاکھ روپے سے زائد ہو، جمع کرانا پڑتی ہے۔ حکومتی ایمنسٹی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والے افراد نے اپنے بیرونِ ملک غیرظاہر شدہ اثاثوں کی مکمل تفصیل ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر کی تھی جس کے بعد اب وہ اپنے بیرونی اثاثے بھی اپنی ویلتھ ٹیکس میں ظاہر کرتے ہیں جس پر آنیوالے بجٹ میں سپر کورونا ویلتھ ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق ویلتھ ٹیکس سے قومی بچت، سرمایہ کاری اور صنعتکاری پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں سوائے 4یورپی ممالک کے تمام ممالک نے ویلتھ ٹیکس ختم کردیا ہے جبکہ بھارت نے بھی 2016ءمیں ویلتھ ٹیکس کا خاتمہ کیا۔ ان حالات میں پاکستان کا ویلتھ ٹیکس دوبارہ عائد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

پاکستان کے ٹیکس نظام کا جائزہ لیا جائے تو ملک میں دو قسم کے ٹیکس براہِ راست (ڈائریکٹ) اور بالواسطہ (اِن ڈائریکٹ) نافذ ہیں۔ براہِ راست ٹیکس میں انکم ٹیکس، پراپرٹی کی انکم پر ٹیکس، کیپٹل گین ٹیکس، تنخواہوں پر ٹیکس شامل ہیں جبکہ بالواسطہ ٹیکسز میں سیلز ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی، ودہولڈنگ ٹیکس، ایڈوانس ٹیکس، ٹرن اوور ٹیکس وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا میں حکومتیں اور فلاحی ریاستیں 75سے 80فیصد ڈائریکٹ ٹیکسز کی مد میں وصول کرتی ہیں جبکہ صرف 20 سے 25فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی مد میں وصول کیا جاتا ہے مگر پاکستان میں اسکے برعکس ہے۔ یہاں حکومت 65سے 70فیصد ریونیو ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے حاصل کرتی ہے۔ حکومت نے ودہولڈنگ ٹیکس کو براہ راست ٹیکسز میں شامل کیا ہوا ہے لیکن اگر ودہولڈنگ ٹیکس کی آمدنی ڈائریکٹ ٹیکسز سے نکال دی جائے تو حکومت کی تقریباً 90فیصد آمدنی ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے حاصل ہوتی ہے جو ایک المیہ ہے کیونکہ جدید دور میں دنیا میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز کے بجائے ڈائریکٹ ٹیکسز کو فروغ دیا جارہا ہے جبکہ پاکستان میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز کے بوجھ سے عوام کا جینا محال ہے کیونکہ ان ڈائریکٹ ٹیکس غریب اور امیر میں تمیز نہیں کرتا۔ مثلاً ایک دہاڑی دار مزدور اپنی کھانے پینے کی اشیا سے لیکر بجلی، گیس اور موبائل فون کے بلوں پر اتنا ہی ٹیکسز ادا کرتا ہے جتنا کوئی ارب پتی شخص ادا کرتا ہے جو انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔

پاکستان کی 22کروڑ آبادی میں سے صرف 8سے 13لاکھ افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں جو آبادی کا نصف فیصد سے بھی کم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 15سے 40فیصد تک ہے۔ اسکے علاوہ اگر ہم ملکی معیشت کے تینوں شعبوں انڈسٹری (صنعت)، سروس سیکٹر (خدمات) اور ایگریکلچر (زراعت) کا ملکی جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح کےتناسب کا موازنہ کریں تو ہمارا صنعتی شعبہ جس کا جی ڈی پی میں حصہ 21فیصد ہے، 70فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے اور سروس سیکٹر جس کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 60فیصد ہے، 29فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ ہمارا زرعی سیکٹر جسکا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 19فیصد ہے، ایک فیصد سے بھی کم ٹیکس ادا کرتا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ہماری معیشت کے شعبے اپنے تناسب سے ٹیکسوں کی ادائیگی نہیں کرتے۔ دیگر شعبوں کے مقابلے میں انڈسٹریل سیکٹر پر ٹیکسوں کا اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے جو انڈسٹری کی مقابلاتی سکت کو متاثر کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کے تھنک ٹینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں سیلز ٹیکس کی شرح کو 17فیصد سے 12فیصد کرنے کی تجویز دی ہے۔ ماضی میں پاکستان میں مختلف ادوار حکومت میں کچھ غلط فیصلے کئے گئے جس کے نتائج آج بھی قوم بھگت رہی ہے جس میں صنعتوں کا قومیائے جانا اور فارن کرنسی اکائونٹس منجمد کرنا شامل ہیں۔ میرے نزدیک ویلتھ ٹیکس کا دوبارہ نفاذ حکومت کی تیسری بڑی غلطی ہوگی جس سے کیپٹل کا انخلا اور نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ حکومت کو میری تجویز ہے کہ کورونا وائرس کی موجودہ سنگین صورتحال کے پیش نظر لوگوں پر دوبارہ ویلتھ ٹیکس عائد کرنے کے بجائے ان کمپنیوں جن کا سالانہ منافع 50کروڑ سے زائد ہو، پر ایک بار 2فیصد ’’سپر ٹیکس‘‘ عائد کیا جاسکتا ہے تاکہ ویلتھ ٹیکس دوبارہ لگانے سے ملک میں صنعتکاری اور نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔