گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں

May 12, 2020

اوکھا (مشکل) کالم لکھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ عام طور پر سروں کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔ نازک مزاج شاہاں کو سمجھ آتی ہے نہ وہ چبھن محسوس کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کے ری کنسٹرکشن (Reconstruction Of Religious Thought In Islam)نامی لیکچرز زبان و بیان کے حوالے سے اس قدر مشکل ہیں کہ اُنہیں مجھ جیسے طالبعلموں کو تھوڑا بہت سمجھنے کیلئے کئی بار پڑھنا پڑتا ہے۔ ایک واقعہ یاد آ گیا۔ نامور ممتاز صوفی محترم احمد رفیق اختر صاحب (جوگی) گورنمنٹ کالج لاہور میں میرے کلاس فیلو تھے لیکن ہمارے مضامین الگ الگ تھے اسلئے صرف ’’چہرہ شناسائی‘‘ تھی۔ ایم اے کرنے کے بعد میں گورنمنٹ کالج میں پڑھا رہا تھا اور جناب جوگی صاحب ایم اے او کالج میں لیکچرر تھے۔ ایک روز میں ایک دوست کے ساتھ کالج کی کینٹین کے سرسبز لان میں بیٹھا چائے پی رہا تھا تو دیکھا کہ جوگی صاحب دوسرے ٹیبل پر دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہیں۔ دور سے علیک سلیک ہوئی اور پروفیسر صاحب نے اقبال کے حوالے سے کوئی بات کی۔ میں نے جواب دیا تو انہوں نے فوراً سوال داغا ’’کیا تم نے اقبال کی ری کنسٹرکشن پڑھی ہے‘‘ اس سے قبل کہ میں جواب دیتا کہ جی پڑھی ضرور ہے لیکن سمجھی شاید چوتھائی بھی نہیں کہ میرے مہمان نے جوابی فقرہ داغا ’’اس نے صرف پڑھی ہی نہیں بلکہ ہضم (Digest)بھی کی ہے‘‘۔ حقیقت یہ تھی کہ میرا کمزور معدہ اتنی ’’اوکھی‘‘ کتاب کو ہضم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا تھا لیکن مصلحتاً ہم دونوں خاموش ہو گئے۔ اچھا دور تھا۔ لوگ کتابوں کی باتیں کرتے اور کتابوں سے محبت کرتے تھے۔ ’’اوکھی‘‘ تحریروں کا ذکر ہوا تو سوچا کہ آج اس جھوٹ کا کفارہ بھی ادا کردوں کہیں ایسا نہ ہو کہ روزِ حساب پروفیسر صاحب میرا گربیان پکڑے کھڑے ہوں۔ پروفیسراحمد رفیق اختر صاحب صحیح معنوں میں عالم و فاضل شخصیت ہیں اور اعلیٰ پایے کے مقرر بھی۔ اُن کے الفاظ علم و حکمت کے موتی ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک صاحب نے مجھے اُن کی ایک وڈیو بھجوائی جس میں وہ اپنے سامنے بیٹھے سامعین کو اپنی دل پذیر تقریر کے حصار میں لئے قائداعظم کی عظمت ِ کردار پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے قائداعظم کی ایک مقبولِ عام تقریر کا ادھورا حوالہ دیا جسے مکمل کرنے کے لئے اس تقریر کے چند فقرے قارئین کی ذوقِ طبع کی نذر کر رہا ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، ایمان اور ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت ِ اسلام کا حق ادا کر دیا۔ میرا خدا یہ کہے کہ بیشک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کے علم کو بلند رکھے مسلمان مرے‘‘ (آل انڈیا مسلم لیگ کونسل سے خطاب۔ روزنامہ انقلاب لاہور 22اکتوبر 1939) قائداعظم کی عظمت ِ کردار کا ایک واقعہ سناتے ہوئے پروفیسر رفیق اختر صاحب سے معمولی لغزش ہو گئی جس کی وضاحت اسلئے ضروری ہے کہ ایسے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔ پروفیسر صاحب کے لاکھوں یا کروڑوں عقیدت مند اب تک اس وڈیو کو سن چکے ہونگے۔ اسلئے تصحیح ضروری ہے۔ معاملہ ہے قائداعظم کا ورنہ خاموشی بہترین حکمتِ عملی ہے۔ سوچتا ہوں کہیں ’’گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں‘‘ والی جسارت نہ ہو۔ پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ ہندوستان کے وائس رائے لارڈ ویول نے قائداعظم کو بلایا اور اُنہیں لارڈ سہنا کی مثال دے کر لیفٹیننٹ گورنر بنانے کا اشارہ دیا۔ وضاحت کے طور پر عرض ہے کہ ہندوستان کے وائس رائے کے پاس لیفٹیننٹ گورنر کے تقرر کا اختیار ہی نہیں تھا۔ ہوا یوں کہ قائداعظم نے برطانوی حکومت کی 1935کے ایکٹ کے تحت فیڈریشن کی پیشکش مسترد کر دی تھی جس سے برطانوی حکومت پریشان تھی۔ وہ دورے پر لندن گئے ہوئے تھے کہ انہیں برطانوی وزیراعظم رامزے میکڈانلڈ نے پرائیویٹ میٹنگ کی دعوت دی۔ ملاقات کے دوران وزیراعظم نے قائداعظم کو رام کرنے کے لئے اور سیاسی رشوت کے طور پر لارڈ سہنا کی مانند لیفٹیننٹ گورنر بنانے کا اشارہ دیا۔ قائداعظم خاموشی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ وزیراعظم حیرت زدہ ہو کر گھبراہٹ کے عالم میں اپنے آفس کے دروازے کی جانب تیزی سے گیا اور قائداعظم کو رخصت کرنے کے انداز میں ہاتھ ملانا چاہا۔ قائداعظم نے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا اور کہا ’’میں آئندہ کبھی آپ سے نہیں ملوں گا۔ کیا تم مجھے بکائو مال سمجھتے ہو‘‘۔ یقین رکھیے صرف ایسا عظیم کردار ہی غلام قوم کو آزادی لے کر دے سکتا تھا۔ دوستو معاف کرنا بات بہت دور نکل گئی۔ کہنا یہ تھا کہ محترم وجاہت مسعود صاحب نے ایک ’’سوکھا‘‘کالم لکھ کر مجھے مشکل میں ڈالا ورنہ مجھے وضاحتوں کی ضرورت نہ پڑتی۔ 6؍مئی والے کالم کے حوالے سے چند وضاحتیں نہایت مختصر وہ بھی اسلئے کہ قارئین پر پسِ منظر واضح رہے۔ قائداعظم کی 11اگست 1947والی تقریر بالکل سنسر نہیں ہوئی نہ کسی کی مجال تھی۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک سینئر عہدیدار نے تقریر کے بعض فقروں پر تحفظات کا ذکر کرتے ہوئے پرنسپل انفارمیشن آفیسر سے انہیں نکلوانے کی بات کی تھی جو یہ جرأت نہ کر سکے۔ نہ کوئی پریس Adviceجاری ہوئی نہ ہی قائداعظم کی تقریر کا کوئی لفظ چھپنے سے روکا گیا۔ اُن کی مکمل تقریر ڈان سمیت سارے اخبارات نے چھاپی اور ہر کتاب میں دستیاب ہے۔ قائداعظم اور باچا خان کی مفاہمت کو کوئی مائی کا لعل سبوتاژ نہیں کر سکتا تھا سوائے مفاہمت کے فقدان کے۔ باچا خان کے پیرو دہائیوں تک ملاقاتوں سے انکاری رہے حالانکہ باچا خان کی 1948میں پشاور کے دورے کے دوران قائداعظم سے دو ملاقاتیں ہوئیں تفصیل اخبارات میں موجود ہے۔ بدقسمتی سے مفاہمت نہ ہو سکی۔ ملک کی 56فیصد آبادی کی زبان کو کبھی مسترد نہیں کیا گیا۔ قائداعظم نے مارچ 1948میں مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران وضاحت سے کہا کہ آپ بنگالی کو صوبے کی سرکاری، تعلیمی، ثقافتی زبان کا درجہ دیں لیکن وفاقی سطح پر اردو قومی زبان ہو گی۔ 25فروری 1948ء کو دستور ساز اسمبلی نے اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا تھا اور اس قانون کی بنگالی اراکین نے کھل کر حمایت کی تھی۔ گورنر جنرل پر اسمبلی کے فیصلے کی ترجمانی لازم تھی۔ بالآخر 1954ءمیں دستور ساز اسمبلی نے بنگالی کو بھی اردو کیساتھ قومی زبان کا درجہ دیدیا اس لئے وطن دشمنی کونسی؟ قرار داد مقاصد کی سارے مسلمان اراکین نے تائید نہیں کی تھی، کمیونزم کے جاگیردار علمبردار میاں افتخار الدین نے مخالفت کی تھی۔ یقیناً کانگریسی ہندو اراکین اسمبلی نے قرارداد مقاصد کی مخالفت کی تھی لیکن انہوں نے تو قیامِ پاکستان کی بھی مخالفت کی تھی؟ بہت کچھ رہ گیا ان شاء اللہ آئندہ۔