کمپرومائز ؟

April 02, 2013

نظریاتی سیاست تو پاکستان میں کب کی دم توڑ چکی، جاگیردار، سرمایہ دار، دائیں بازو اور بائیں بازو کے نظریاتی کارکن ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں مگر 2013 کے انتخابات میں لگتا ہے جماعتی سیاست کا بھی خاتمہ بالخیر ہونے والا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جگہ موقع پرستوں اور اقتدار پسندوں کے کلب لے رہے ہیں جن میں داخلہ کے لئے ذاتی و خاندانی اثر و رسوخ، بے پناہ سرمایہ اور سیاسی قیادت سے خونی رشتہ اور ذاتی تعلق شرط اول ہے۔ سیاسی و جمہوری خدمات، اصول پسندی اور قربانیاں گئی بھاڑ میں۔
غالباً 2008 کے انتخاب سے قبل خانپور کے ایک جاگیردار نے دبئی میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی قومی اسمبلی کا ٹکٹ مانگا اور یہ خواہش ظاہر کی کہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر پارٹی کے دیرینہ مگر بے وسیلہ اور کمزور کارکن کی جگہ اُن کے ساتھی طاقتور امیدوار کو موقع دیا جائے۔ محترمہ نے جواب دیا پارٹی کارکن کا ٹکٹ ناقابل تنسیخ ہے البتہ آپ کی جگہ کوئی دوسرا امیدوار تلاش کیا جا سکتا ہے جو میرے پارٹی کارکن کو وسائل اور سپورٹ فراہم کر سکے۔
1997ء کے الیکشن میں میاں نواز شریف کے ایسے ایسے امیدوار اسمبلیوں میں پہنچے جو کبھی کونسلر بننے کا خواب نہیں دیکھ سکتے تھے مگر اب حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ دونوں بڑی جماعتیں ایسے طاقتور، با رسوخ اور دولت مند امیدواروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو انہیں ایوان اقتدار تک پہنچا سکیں خواہ بعد میں یہ 1999ء کی طرح کنگ پارٹی کا حصہ بنیں یا پیٹریاٹ گروپ میں ڈھل کر اپنی لیڈر شپ سے بے وفائی کریں۔ تھالی کے جن بینگنوں کو دونوں بڑی پارٹیاں کھلے دل سے خوش آمدید کہہ رہی ہیں اقتدار ان کا عقیدہ، ذاتی و خاندانی مفاد نظریہ اور لوٹ مار اصول ہے گنگا گئے تو گنگا رام، جمنا گئے تو جمنا داس۔ عملیت پسندی کے نام پر سب کچھ روا۔
انہی کے انتظار میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف اپنے امیدواروں کی فہرست فائنل نہیں کر پائیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ان سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی و نظریاتی پروگرام، ایثار پیشہ کارکنوں اور جمہوریت سے وابستگی رکھنے والے ووٹروں کے بجائے انہی امیر مقاموں، جتوئیوں، لغاریوں، مخدوموں، مہروں، چیموں، ترینوں، چٹھیوں اور شیرازیوں کے زور پر الیکشن جیتنا ہے تو پھر ملک میں سیاسی پارٹیوں کی ضرورت ہی کیا ہے اور لوگ خون پسینے کی کمائی ان کے جلسوں، بینروں، کھانوں اور سفری اخراجات پر ضائع کیوں کریں ان جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں، سمگلروں اور لٹیروں کو خود ہی منتخب ہونے کے بعد مل جل کر بندر بانٹ کا موقع کیوں نہ دے دیا جائے۔ با اثر خاندانوں کے کلب پر سیاسی جماعت کا بورڈ چسپاں کرنے کا کیا جواز؟ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ایک اور فراڈ ہے جو سیاسی جماعتیں اس قوم سے کر رہی ہیں۔
سارا قصور مگر میاں نواز شریف ، عمران خاں اور آصف علی زرداری کا بھی نہیں پاکستان کا پورا سیاسی و انتخابی ڈھانچہ 100 خاندانوں کی سہولت اور مفاد کے لئے بنا ہے۔ جان کی امان پا کر یہ عرض کرنے میں جرح نہیں کہ غیر جانبدار الیکشن کمیشن، آزاد عدلیہ، غیر متنازع نگران حکومتوں اور اندرونی و بیرونی دباؤ کا شکار ایسٹیبلشمنٹ کی اولیں ترجیح خواہش ملک میں سیاسی استحکام، اقتصادی و معاشی جمود و زوال کا خاتمہ اور بہترین انتظامی ڈھانچے کی تشکیل نہیں، جیسے تیسے انتخابات کا انعقاد ہے تاکہ کسی خاندانی و موزوں قیادت، قومی وسائل لوٹنے اور بیرون ملک اثاثوں، بینک اکاؤنٹس میں اضافہ کرنے والے جاگیردار، سرمایہ دار اور وڈیرے کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ آئین، قانون اور انتخابی ضابطے کی زد اس پر پڑی اور وہ الیکشن لڑنے سے محروم رہ گیا۔ اس بنا پر 62,63 تو درکنار عام انتخابی قوانین کی دھجیاں اڑانے والوں کے کاغذات بھی شائد مسترد نہ ہو پائیں اور احتساب، مواخذے اور چھان بین کے سارے دعوے محض نظر کا دھوکہ ثابت ہوں۔
جب ریاستی ادارے نظریئے، اصول، ملکی مفاد، جمہوری اقدار و رایات اور سیاسی تقاضوں پر کمپرومائز کر لیں۔ عدالتیں بلیک میل ہوں اور چور اُچکے دندناتے پھریں تو کہاں کا احتساب اور کس کا مواخذہ؟ حالانکہ آئینی شقوں اور قانونی ضابطوں پر عملدرآمد کا یہی بہترین وقت ہے جب نہ تو کوئی حکمران الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کے قابل ہے اور نہ عوام کا سامنا کرنے والے خاندان بلیک میلنگ کی پوزیشن میں۔ احتساب کی بے رحم چکی اس وقت ہر جرائم پیشہ، بدکردار اور قانون شکن بڑے کو پیس سکتی ہے خواہ گیہوں کے ساتھ گھن ہی کیوں نہ پس جائے مگر الیکشن کرانے والوں کو ایک ہی فکر دامن گیر ہے کہ اگر ہم نے کسی کو سرخ کارڈ دکھا کر میدان سے باہر نکالا تو انتخابات کی ساکھ متاثر ہو گی کوئی یہ سوچنے کے لئے تیار نہیں کہ آٹھ کروڑ ووٹروں بالخصوص تین کروڑ نوجوانوں نے انتخابی عمل پر انگلی اٹھا دی مستند ٹیکس چوروں، مصدقہ قرضہ خوروں، شہرت یافتہ لوٹوں اور لٹیروں کو کھلی چھوٹ دینے پر اعتراض کر دیا تو انتخابات کے وقار اور اعتبار کو کس قدر دھچکا لگے گا؟
قائداعظم نے فرمایا تھا ”لیڈروں کے انتخاب میں ہمیشہ احتیاط کریں، آدھی جنگ تو لیڈروں کے صحیح انتخاب ہی سے کامیاب ہو جاتی ہے“ قائداعظم کے مخاطب اگرچہ عوام تھے مگر یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن، ریٹرننگ افسروں حلقہ جاتی لیڈروں کی اپیلیں سننے والی عدالتوں اور ٹکٹ تقسیم کرنے والی جماعتوں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی غلط کار اور بدنام زمانہ شخص کو انتخابی عمل میں شریک نہ ہونے دیں تاکہ عوام کو بہتر فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے امیدواروں کی حتمی فہرستیں سامنے آئیں تو سیاسی قیادت کی قوت فیصلہ، حسن انتخاب اور اچھے بُرے میں تمیز کی صلاحیت کا اندازہ ہو گا اور یہ فیصلہ بھی ہو جائے گا کہ ملک میں نظریاتی و جماعتی سیاست چلے گی یا با اثر امیدواروں کے ہاتھ میں سیاسی جماعتوں کی نکیل ہو گی؟ کوئی نظریہ جیتے گا منشور و پروگرام یا محض دھن، دھونس دھاندلی؟ اس ہفتے سیاسی و مذہبی لیڈر، الیکشن کمیشن اور عدلیہ عرصہ محشر میں ہیں اگلے ماہ عوام کے شعور کا امتحان ہو گا۔