خطے کی صورتحال اور پاکستان کا کردار

May 19, 2020

پاکستان سمیت اس خطے کا کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو کورونا وائرس کی وبا سے متاثر نہ ہوا ہو۔ پڑوسی ملک بھارت نے تو شاید چین کو بھی اس معاملہ میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ میں نے اس وبا کے شروع میں عرض کیا تھا کہ اس خطہ میں بھارت کورونا سے بہت زیادہ متاثر ہوگا۔ بھارتی معیشت نریندر مودی کی احمقانہ پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی کمزور تر ہو رہی تھی، کورونا نے بھارت کی رہی سہی معیشت کو تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مودی سرکار کا ایجنڈا اور پالیسی ہے۔ دراصل مودی سرکار کی توجہ بھارت کی بہتری نہیں بلکہ آر ایس ایس کے ناپاک ایجنڈے کی تکمیل پر ہے جس کی تکمیل کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا لیکن کیا کیا جائے کہ نریندر مودی کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ تاریخ میں ان کا نام ایک نہایت متعصب اور بھارت دشمن حکمران کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ بھارت کی بوکھلائی ہوئی فوجی قیادت خود ساختہ واقعے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دیتی ہے۔ بھارتی فوجی قیادت کو سمجھنا چاہئے کہ پلوامہ ہو یا ہندواڑہ یا مقبوضہ کشمیر میں رونما ہونیوالا ہر واقعہ یا تو ان کا خود ساختہ ڈرامہ ہوتا ہے یا ان کی ظالمانہ کارروائیوں کا ردِعمل۔ بھارتی فوجی قیادت پاکستان پر الزامات لگانے کے بجائے کوئی ثبوت تو سامنے لائے۔

پاکستان نے بھارت کی ہر بزدلانہ کارروائی کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو کبھی کورونا وائرس پھیلانے اور کبھی پاکستان کے ساتھ رابطوں کا الزام لگا کر بھارت کو نقصان پہنچانے کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مجاہدین کے بارے میں ان کی مدد کرنے کا پاکستان پر بےبنیاد اور جھوٹے الزامات لگانا بھارتی سرکار کا پرانا وتیرہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کو ضرورت ہی نہیں کہ وہ ایسی حرکتیں کرے۔ اس کی تین بڑی وجوہات ہیں جن میں پہلی وجہ بھارتی مسلمانوں کی زندگی تنگ کرنے والی مودی سرکار ہے پاکستان نہیں۔ دوسری وجہ مقبوضہ کشمیر میں مودی کے جبر و تشدد اور ظلم و بربریت کے خلاف وہاں کے مظلوم اور نہتے مسلمان سینہ سپر ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ بھارت کی ہر طرح سے بربادی کے لئے نریندر مودی، ان کی نازی طرز پر قائم حکومت اور آر ایس ایس کی پالیسی و ایجنڈے پر عمل پیرا ہونا ہی کافی ہے۔ وہ وقت قریب ہے کہ دنیا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہی کی وجہ سے بھارت کے ٹکڑے ہوتے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی دیکھے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت اقوامِ عالم نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ پاکستان کا اس خطے میں کردار یہ ہے کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی طرف کئی بار دوستی اور امن کا ہاتھ بڑھایا۔ بھارت کو تو چھوڑیے کیا دنیا پاکستان کی ان کوششوں سے انکار کر سکتی ہے؟ افغانستان میں صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان اقتدار کا مسئلہ حل ہونے پر پاکستان نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ امن معاہدے میں پاکستان کے کردار کی نہ صرف طرفین بلکہ پوری دنیا معترف ہے۔ پاکستان اس خطے میں امن کا خواہاں ہے اگرچہ افغان صدر کے بعض بیانات پاکستان کے بارے میں قابلِ تعریف نہیں لیکن پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن کی بحالی اور ترقی کے لئے بہترین کوششیں کی ہیں۔

صدر اشرف غنی اور عبد اللہ عبداللہ اگرچہ افغانستان میں امن چاہتے ہیں لیکن قیام امن کے لئےطالبان کے کسی کردار کو تسلیم کرنے کے لئےبھی تیار نہیں ہیں۔ امریکہ تو اب کسی بھی طرح افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے لیکن آنے والے مہینوں میں افغانستان میں امن و امان کی بحالی میں مزید مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ افغانستان میں ایک طرف موجودہ حکومت اور طالبان کے درمیان جھڑپیں اور حملے جاری ہیں تو دوسری طرف داعش کی کارروائیوں کا ذکر بھی کیا جاتا ہے کیونکہ بعض کارروائیوں اور حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے طالبان نے انکار کیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان میں داعش ملوث ہے۔ پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ افغان حکومت ،امریکہ اور طالبان دوحہ امن معاہدہ پر عملدرآمد کریں اور افغانستان میں مستقل بنیادوں پر امن ہو جائے۔

بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بلاشبہ بھارت ملوث ہے اور ایک سابق بھارتی فوجی افسر نے برملا اس کا اعتراف بھی کیا ہے لیکن بلوچستان میں دہشت گردی کیلئے اگر کسی مغربی پڑوسی ملک کی سرزمین استعمال ہوتی ہے تو یہ نہایت افسوسناک بات ہے۔ بلاشبہ بلوچستان کا ہر باشندہ محب وطن ہے اور وطن کی حفاطت کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتا۔پاک فوج میں بلوچ جوان اور افسران پاکستان کی حفاظت کے ضامن ہیں اور بلوچ قوم پر پاکستان کو فخر ہے۔ دشمن جھوٹے پروپیگنڈے سے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ بلوچ کا مطلب پاکستان ہے۔