فخرو بھائی خبر لیں

April 03, 2013

اس بات کو دو تین برس گزر چکے ہیں مگر اُس لہجے کی ہلاوت اور اپنائیت آج تک میرے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔ میرے ایک ٹی وی پروگرام میں مہمان موجودہ چیف الیکشن کمشنر اور سابق جسٹس فخر الدین جی ابراہیم تھے۔جنہیں اہل کراچی ہی نہیں اب اہل پاکستان بھی محبت اور احترام سے فخروبھائی کہتے ہیں۔ میرے ہر سوال کے جواب میں فخرو بھائی مجھے نہایت شفقت کے ساتھ بیٹا بیٹا کہتے رہے۔ اُن کا لب ولہجہ ایک شفیق باپ اور ہر دلعزیز صاحب علم استاد کا تھا۔ وہ اینکر کو زیر کرنے کیلئے نہیں اسے اور ناظرین کو بات سمجھانے کیلئے بڑے مضبوط دلائل نہایت منظم انداز میں دیتے رہے۔ اس دن میں نے اندازہ لگایا کہ وہ دوران گفتگو ریشم کی طرح نرم تھے مگر اب الیکشن کمیشن کے کڑے ضابطے اور اُن ضابطوں پر من وعن عملدرآمد کیلئے فخرو بھائی کے آہنی تیور سامنے آئے ہیں تو مجھے احساس ہوا کہ حسب ضرورت وہ ریشم سے فولاد بھی بن سکتے ہیں۔
تاہم چیف الیکشن کمشنر کو معلوم ہونا چاہئے کہ الیکشن کمیشن کے طور طریقے تو کچھ بدلے ہیں مگر بیوروکریسی کے انداز و اطوار بالکل نہیں بدلے، اُن کا مائنڈ سیٹ وہی پرانا ہے ۔ پاکستان میں جمہوری حکومت آجائے،آمرانہ حکومت آ جائے، مذہبی حکومت آجائے یا کوئی اور حکومت آ جائے پولیس اور نوکر شاہی انہی پرانے حربوں کے ساتھ حکمرانوں کی خدمت کیلئے کمر بستہ ہو جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کے لئے زیادہ سے زیادہ 15لاکھ روپے کے اخراجات کی مد رکھی ہے اور یہی فیصلہ 15جنوری 2013ء کو ورکرز پارٹی الیکشن کیس میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید نے دیا ہے۔کیس سپریم کورٹ کے سینئر وکیل عابد حسین منٹو نے بنام فیڈریشن آف پاکستان و دیگر دائر کیا تھا۔ اپنے فیصلے میں فاضل عدالت نے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن ایک دیانتدارنہ ،منصفانہ اور شفاف انتخاب کو یقینی بنانے کیلئے آئین کی روشنی میں احکامات جاری کرے اور پاکستان کے غریب اور متوسط لوگوں کی انتخاب میں شرکت کیلئے ایسی فضا مہیا کرے کہ کم ازکم اخراجات کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر طبقے کے لوگ انتخابی اکھاڑے میں بلاجھجھک اتر سکیں۔
اب بیوروکریسی کی کارستانی ملاحظہ کیجئے ۔گزشتہ تین چار روز سے لاہور ہی نہیں پنجاب بھر کے اخبارات میں سٹی گورنمنٹ لاہور کی جانب سے امیدواران قومی وصوبائی اسمبلی کی تشہیری مہم کیلئے ہدایات جاری کی جا رہی ہیں ۔ان ہدایات کے مطابق اسٹریٹ لائٹ پولز پر5x3فٹ کے ایک بینر لگانے کی فیس مختلف سڑکوں کے حساب سے مختلف ہو گی ۔فیس 800روپے سے لے کر 200روپے تک فی ہفتہ ہے ۔اگر ہم اوسط تخمینہ لگائیں تو ایک بینر کا ایک ہفتے کا خرچہ 500روپے ہو گا۔قومی اسمبلی کی ایک ایک سیٹ 60یونین کونسلوں پر مشتمل ہوتی ہے ایک امیدوار کو کم ازکم ایک ہزار بینر تو لگانے پڑتے ہیں ۔اس لحاظ سے6ہفتوں تک لگنے والا ایک بینر تین ہزار روپے میں پڑے گا اور ہزار بینروں کا خرچہ30لاکھ روپے ہو گا۔ صرف لگوائی کا خر چہ ہے جب کہ بنوائی کاخرچہ تیس ہزار روپے اس کے علاوہ ہوگا۔ سٹی گورنمنٹ نے انتخاب کو تجارت فرض کر لیا ہے۔ وہ یہی سمجھتی ہے کہ پہلے امیدواروں کی اکثریت حرام کی کمائی لٹانے اور کامیابی کے بعد اسے کئی گنا لوٹنے کیلئے میدان انتخاب میں اترتے ہیں۔ اگر ایک امیدوار صرف بینروں پر اخراجات کی آخری حد 15لاکھ سے دگنا خرچ کرے گا تو پھر الیکشن کمیشن کے اخلاقی و عملی ضابطوں کی دھجیا ں اڑیں گی یا نہیں۔ نیز ورکرز پارٹی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا مذاق اڑایاجائے گا یا نہیں۔ الیکشن کے لئے بلا ٹیکس اشتہاری مہم چلانا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ سٹی گورنمنٹ غریب شہریوں کے خزانے سے کروڑوں روپے کے اشتہارات دینا بند کرے۔ فخرو بھائی اس ظالمانہ ضابطہٴ اخلاق کو فی الفورمنسوخ کرائیں اور بلا فیس ایسا ضابطہٴ اخلاق جاری کریں کہ جہاں غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے امیدوار اپنی اشتہاری مہم چلا سکیں۔ غضب خدا کا بینر کی بنوائی 300روپے اور لگوائی 3000روپے۔ اب انتخابات کوئی تجارتی کھیل نہیں یہ فقط عوام کیلئے کار خیر ہے۔ اگر الیکشن کمیشن نے آئین کی دفعہ 62،63پر عملدرآمد کی ٹھانی ہے تو پھر ان دفعات کی حقیقی روح کے مطابق عمل کرایا جائے۔ بعض ضلعی مقامات سے ایسی خبریں بھی ملی ہیں جہاں پٹواریوں اور تحصیلداروں کے ذریعے ایلیٹ فورس کی ہمراہی میں سرکاری اہلکاروں کی سبز پلیٹ والی گاڑیاں اسی طرح ناکے لگا کر الیکشن ڈیوٹی کیلئے پکڑی جارہی ہیں جیسے تحصیلدار پہلے پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کو پکڑا کرتے تھے۔ بیوروکریسی کی ایسی غیر دانشمدانہ کارروائی الیکشن کمیشن کے کھاتے میں جاتی ہے۔ اگر الیکشن کمیشن کو گاڑیاں درکار ہیں تو وہ کسی قاعدے قانون کے مطابق سرکاری اداروں سے طلب کرے نہ کہ سڑکوں پر ناکے لگا کر قانون کی دھجیاں اڑائے۔
اس وقت الیکشن کمیشن کو صرف امیدواروں سے آہنی پنجے کے ساتھ نبٹنے پر اکتفا نہیں کر چاہئے۔ بیوروکریسی کی عیاری اور چالاکی پر بھی گہری نظررکھنی چاہئے۔ بیوروکریسی الیکشن کمیشن کی نیک نامی کو حسد کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اپنی روایتی بدنامی کا بہت سا حصہ الیکشن کمیشن کے سر تھوپنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔آج کے اخبارات میں شہ سرخیوں سے یہ خبر چھپی ہے کہ الیکشن کمیشن بے رحمانہ طریقے سے امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کرے گا۔ تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے، الفاظ کا مناسب چناؤکسی ادارے کی حسن نیت اور سنجیدگی کا غماز ہوتا ہے اس کے بجائے یہاں کہنا چاہئے تھا کہ الیکشن کمیشن عادلانہ طریقے سے کاغذات کی جانچ پڑتال کرے گا۔ الیکشن کمیشن نے نہایت کامیابی کے ساتھ یہ تاثر دیا ہے کہ مرکزی اور صوبائی نگران حکومتیں اُن کے زیر نگرانی اپنے اختیارات استعمال کریں گی۔ ان حکومتوں کی تمام تر بھاگ دوڑ صاف شفاف اور عادلانہ و منصفانہ انتخابات کے مرکزی نکتے تک محدود ہو گی۔ اس یک نکاتی پروگرام میں پنجاب کی نگران حکومت نے گزشتہ حکومت کی بسنت کے خاتمے کیلئے بھرپور کوششوں پر پانی پھیرنے کاجو فیصلہ کیا ہے کیا وہ فخروبھائی کی اجازت سے کیا ہے ۔اس خونی تہوار کا اجراء پنجاب کی نگران حکومت کے مینڈیٹ میں ہرگز شامل نہیں۔ پنجاب حکومت نے 17/اپریل کو بسنت منانے کا اعلان کیا ہے۔کیا پنجاب کی نگران حکومت یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ ”رجعت پسند “ نہیں ترقی پسند ہے۔
ذاتی مفادات کی خاطر مجرموں کی پشت پناہی کرنے والی حکومت سندھ سے رخصت ہو چکی ہے مگر شہر بے اماں کا امن و سکون ابھی تک پہلے کی طرح غارت ہے ۔اسی دہشت گردی سے ایسی خبروں کو تقویت مل رہی ہے کہ امن اور انتخابات کے دشمن سب کچھ سبوتاژ کرنے پر تلے ہوئے ہیں لہٰذا اس کیلئے پس پردہ منصوبہ بندی اور سازشیں کر رہے ہیں۔ آج بھی کراچی سے پہلے کی طرح نشانہ کشی سے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔آج بھی بے گناہ اور نیک نام پولیس افسران کو سر عام قتل کیا جارہا ہے۔ کراچی میں ہی نہیں حکومت کے چپے چپے میں امن و امان کا قیام انتخابات کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ فخرو بھائی ابھی سے فوج کو امن کی بحالی کا ٹاسک دیں اور خود اس کی نگرانی کریں اور بیوروکریسی کو لگام دیں تاکہ الیکشن کمیشن کے حصے میں بدنامی نہیں نیک نامی آئے۔