کپاس:کاشتکار بمقابلہ کارخانہ دار

May 23, 2020

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں کپاس کی امدادی قیمت 40کلوگرام کے لئے 4ہزار روپے مقرر کرنے کی سمری اگرچہ مسترد ہو گئی مگر اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا کہ اس شعبے کو موثر اور پائیدار بنیادوں پر اعانت حاصل ہونی چاہئے۔ اس ضمن میں براہِ راست ٹارگٹڈ سبسڈی کی تجویز دی گئی ہے۔ ملکی معیشت میں کپاس کی پیداوار اور کپڑے کی صنعت کا جو اہم کردار رہا اور آج بھی ہے اس کے پیش نظر اس باب میں وفاق اور صوبوں کے درمیان ایسی مشاورت جاری رہنے کی ضرورت بڑھ گئی ہے جس کے ذریعے ایک جانب کاشتکاروں کو ترغیب و اعانت ملے تو دوسری جانب کارخانے داروں کو بہتر مواقع دستیاب ہوں۔ درپیش چیلنجوں کا تقاضا بھی یہی ہے کہ معیشت کے کسی پہلو اور شعبے کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے حکومتی اعانت اور ماہرین کی کاوشوں سے ایسی تدابیر بروئے کار لائی جائیں جو شرح نمو، مواقع روزگار اور تیز رفتار ترقی کی کلید بن جائیں۔ جمعرات کے روز مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں وزرا اور مشیروں کی آراء ٹیکسٹائل مل مالکان اور کاشتکاروں کی ضروریات کے حوالے سے دو حصوں میں بٹی ہوئی معلوم ہوئیں۔ کارخانہ داروں کے موقف میں انڈسٹری کی مشکلات برآمدی مال کی لاگت اور مسابقت کے نکات شامل تھے جبکہ کاشتکار امدادی قیمت کے تعین کو کپاس پیدا کرنے کی ترغیب اور مالی استطاعت کے طور پر دیکھ رہے تھے۔کپاس کے کاشتکار اور ٹیکسٹائل صنعتکار کے مسائل بظاہر جدا جدا نظر آتے ہیں مگر بڑی حد تک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بھی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ دونوں کے مسائل پر مناسب توجہ دی جائے اور ملکی مفاد میں منصفانہ نقطہ نظر سے ہر ممکن تدبیر بروئے کار لائی جائے۔ کپاس ایک زمانے میں ملکی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ باہر سے زرمبادلہ لانے کا ذریعہ بھی رہی ہے۔ اس کا یہ مقام بحال کرنا بھی ہماری ترجیح کا حصہ ہونا چاہئے۔